سکھوں پر حملے تحریکِ طالبان کی بھارتی سر پرستی کا شاخسانہ
سکھوں پر حملے تحریکِ طالبان کی بھارتی سر پرستی کا شاخسانہ[urdu]
افتخار حسین
پاکستان میں رہنے والا ہر سکھ خود کو خوش قسمت سمجھتا ہے اور دنیا بھر میں بسنے والے سکھ پاکستان سے گہری عقیدت رکھتےہیں۔ ان کی اس والہانہ محبت کا سبب پاکستان میں واقع گردوارہ پنجا صاحب اور دیگر مقدس مقامات ہیں جن کی ایک بار زیارت کرنا ہر سکھ کی زندگی کا خواب ہے۔ مگر پاکستان مخالف عناصر اب سکھوں کو بھی دہشتگردی کا نشانہ بنانے لگے ہیں جس کے پیچھے وہ قوتیں کار فرما ہے جو ہمیشہ ہی سے پاکستان اور سکھوں سے دشمنی کا ثبوت دیتی آئی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردی سے متاثرہ علاقے وادِی تیرہ سے نقل مکانی کرنے والےتقریباً40,000افراد میں سے ایک بڑی تعداد کا تعلق سکھ کمیونٹی سے ہے۔ اب تک اس کمیونٹی کے متعدد لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ان پر حملوں کی وجہ سے سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی روزمرہ سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
سکھوں پر حملوں کی یہ نئی مہم خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں تک محدود ہے اور تحریک طالبان ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے۔یہ گروہ ہر پاکستانی کو اپنی ظالمانہ کاروائیوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔مسلم اور غیر مسلم اس دہشتگرد گروہ سے مساوی طور پر متاثر ہو رہے ہیں ۔لہذا ہمیں سکھ برادری پر ہونے والے حالیہ حملوں کو قومی تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔سکھ رہنماوں اور تنظیموں کا غم وغصہ بجا ہے مگرحقیقت یہ ہےکہ تقریباً ساری پاکستانی قوم تخریبکاری کی زد میں ہےاس لیے دہشتگردوں کے خلاف ہمیں قومی یک جہتی کے ساتھ لڑنا ہے۔
یوں تو تحریک طالبان کا ہندوستان کے خفیہ اداروں سے گٹھ جوڑ اب ہر کسی پر ظاہر ہے۔مگر سکھوں پر حملوں نے اس تنظیم کےگھناونے کردار کی ایک نئی کڑی کو اجاگر کیا ہے۔ افغانستان میں ہندوستان کے سفاتخانے اور متعدد ذیلی دفاتر ‘را’ کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کے گڑھ بن چکے ہیں۔یہیں سے تحریک طالبان کو ہر قسم کی مدد فراہم کی جا رہی ہےتا کہ وہ تخریبکاری کے ذریعے سے پا کستان کو غیر مستحکم کر سکیں۔سکھوں پر حملے بھی اسی منصوبے کا شاخسانہ ہے۔ہندوستان میں سکھوں کو آپریشن بلیوسٹار جیسی کاروائیوں کا سامنا رہا ہےجس نے انھیں بھارت سے بیزار کر دیا ہے۔ اس بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’کی یہی مخصمانہ سوچ اب پاکستان میں سکھ مخالف کاروایئاں کراکر انھیں پاکستان میں غیر محفوظ ثابت کرنا چاہتی ہیں۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے موصول ہو نے والی خبروں کے مطابق تحریکِ طالبان کے دہشت گرد سکھوں کو بھتہ دینے پر مجبور کر رہے ہیں۔ بھتے کی ادائیگی سے انکار کے سبب ان کو قتل کیا جا رہا ہے۔ بھتہ کسی مسلمان سے لیا جائے یا سکھ سے یہ ہر صورت میں ناقابلِ قبول اورغیر اسلامی عمل ہے۔ مگر یہ گروہ تو مدرسوں کو بھی نہیں بخش رہے ہیں اوریہاں تک کہ ان کی انتظامیہ سےبھی بھتہ وصول کر رہےہیں۔ قرآن و سنت انسانی جان کے تقدس اور مذہبی رواداری کے علم بردارہیں اور بالخصوص اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے ضامن ہیں۔ لہٰذا تحریکِ طالبان کا سکھوں کو نشانہ بنانا اتنا ہی غیر اسلامی ہے جتنا اسکی دہشت گردی کی دیگر سرگرمیاں ہیں۔ قرآن مجید کی ایک مکمل سورت”الکافرون” مذہبی رواداری اور دیگر مذاہب کی رسومات اور عبادت میں مسلمانوں کو عدم مداخلت کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ سورت تقریباً ہر مسلمان کو زبانی یاد ہوتی ہےجس کا ترجمہ حسب ذیل ہے:-
“کہہ دیجئے ! اے کافرو! میں جس کی عبادت کرتا ہوں تم اسکی عبادت نہیں کرتے اور جس کی تم عبادت کرتے ہو میں اسکی عبادت نہیں کرتا اور تم اسکی ہرگز عبادت نہیں کروگےجس کی عبادت میں کرتا ہوںاور میں اس کی عبادت ہرگز نہیں کروں گا جس کی عبادت تم کرتے ہو۔تمہارے لیےتمہارا دین میرے لیے میرا دین۔”
کفار کو مخاطب کر کے نبی کریم کی مبارک زبان سے اس آیت کا ادا ہوناکہ”تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین”اور قرآن و سنت ہر مسلمان کو اس بات کا پابند بنا دیتے ہیں کہ وہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل آزادی سے اپنی عبادات میں مشغول رہنے دیں۔یہی سبب ہے کہ ہمارے اکابرین نے پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کےحقوق کی مکمل تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ بالخصوص سکھ مذہب توحید پر مبنی ہونے کی وجہ سے برصغیر کی اسلامی روایات میں قدر کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں امن کو تباہ کرنے والے دہشتگرد گروہ ہر حربے سےکام لے کر مسلمانوں اور غیر مسلم اقلیتوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
پاکستان کا آئین بھی اقلیتوں کے تحفظ کا مکمل ضامن ہے۔یہاں تک کہ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم پر نظر آنے والا سفید رنگ اقلیتوں کی مکمل مذہبی و شخصی آزادی اور حقوق کی نشاندہی کرتا ہے ناصرف سکھ یا کسی اور مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد بلکہ سارے پاکستانی خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور مسلک سےہو انتہا پسندی کا شکار ہو رہے ہیں۔دہشت گردوں کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ پاکستان کو غیرمستحکم کیا جا سکے اور اسے ملکی و غیر ملکی سطح پر اقلیتوں کے لیےغیر محفوظ ملک کے طور پر منظر عام پر لایا جا سکے ۔ہم اُمید کرتے ہیں کہ سکھ رہنما اوران کے حقوق کے لیے آواز اٹھانےوالی تنظیمیں ان حقائق کا ادراک کر سکیں گی۔ حکومت اور قانون نافذ کرنےوالے اداروں کو بھی مزید مستعدی سے ہمارے اقلیتی بھائیوں کا تحفظ ممکن بنانے کی کوششیں کرنی چاہیے۔یقیناً پاکستان کی سلامتی اور یک جہتی کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ہمیں مل کر ناکام بنانا ہے۔
[/urdu]