فرقہ واریت کے خطرات ۔استحکامِ پاکستان کے لئے چیلنج
Posted date: December 03, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
ہماری طرح کے بزرگ حلقے پاکستان میں اپنی زندگی کے جنہوں نے66 برس گزار لیئے تقسیمِ ہند کی خونریز تاریخی واقعات کو آج تک وہ بھولے نہیں‘ نہ تحریکِ آزادیِ ہند کے سنگین آتشیں لمحات اُن کی فکروں سے محو ہو سکے آج بھی پاکستان کی روشن تابندگی اور پاکستان کی بقاء وتحفظ کی فکر میں گھلے ہمارے یہ ہم عصر اپنے شب وروز بسر کررہے ہیں ،جن کی نسلیں جوانی کے بعد اب بوڑھاپے کی طرف رواں ہیں چاہے شیعہ مسلک سے ہوں یا سنی ہوں دیوبندی عقیدہ رکھتے ہوں یا بریلوی ‘ اہلِ حدیث ہوں یا اہلسنت والجماعت سے اُن کا تعلق ہو ‘ مقلد ہوں یا غیر مقلد ‘ مسلمانوں کے کسی بھی مسلک عقیدے سے اُن پاکستانیوں کا تعلق ہو، ہمارے قارئین یقیناًہمارے نکتہ ِٗ نظر سے متفق ہونگے جب بھی ملک کے کسی حصہ میں کہیں کوئی شیعہ مسلمان قتل ہوجائے شیعوں کی مجالس پر خونریز حملہ ہو جائے یا اہلِ سنت والجماعت کے کسی مذہبی رہنما کے قتل کی کوئی خبر عام ہو جائے سوادِ اعظم کا کوئی سنی مسلمان ہویا اہلِ حدیث مسلمان کی قیمتی جان چلی جائے فرقہ واریت کی دشمنی کے نام پر جتنی بھی قتل وغارت گری ہوتی ہے دیکھا گیا ہے عام پاکستانیوں کی بڑی اکثریت چاہے کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتی ہو وہ اِس طرح کے افسوس ناک سانحات کے نازک موقعوں پر سخت اور کڑی مذمت کرتے ہیں غم و افسوس کا اظہار کرتے ہیں پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت بھی یکطرفہ طور پر کسی دوسرے فرقہ کے مسلمان بھائیوں پر گزرنے والے ایسے غم و اندوہ کے سانحات پر کوئی مخالفانہ یا مخاصمانہ طرزِ گفتگو نہیں اپناتے بلکہ اُس کی مذمت ہی کرتے ہیں ناپسندہ فرقہ واریت کی انتہائی جنونیت کو ملک بھر میں کہیں ذرہ برابر بھی مقبولیت حاصل نہیں ہے اب تک ملک میں جتنے بھی فرقہ ورانہ فسادات ہوئے اُن فرقہ ورانہ فسادات میں ہمیشہ غیر ملکی مفاد کے عنصر کو یکسر کبھی کس نے رد نہیں کیا پاکستانی مسلمانوں کے فرقہ ورانہ گروہوں کے مابین بہت ہی خطرناک اور بڑے پیمانے پر بہیمانہ فسادات میں کس قدر بے گناہ انسانی لہو بہا ہے اور یہ بھیانک اور مکروہ ترین سلسلہ ابھی تک تھما نہیں ‘ (خدا کرئے یہ سلسلہ تھم جائے ) جیسا بین السطور گزارش کی گئی ہے ہم جیسوں کو ‘ ہمارے بزرگوں کو بڑی امیّد تھی کہ تقسیمِ ہند کے بعد آزاد اور خود مختار اسلامی نظریاتی فلاحی ملک پاکستان میں ہر قسم کی فرقہ واریت کی شدت سے بالائےِ طاق ہوکر یہ تصور عام اور پختہ ہوگا کہ پاکستانی مسلمان باہم یکجا ومتحد ہیں قولِ رسولﷺ کے فرمان کے مطابق ’ سبھی مسلمان ایک جسدِ واحد کے مانند ہیں جسم کے کسی حصہ میں کوئی تکلیف ہو تو سارے جسم میں درد محسوس ہوتا ہے‘ پھر کیا وجہ ہے کہ پورا ملک کسی نہ کسی روز گزشتہ چندبرسوں کے دوران تو اور بھی زیادہ شد ومد سے اِ یسے مذمتی واقعات کا شکار بنتا چلا آ رہا ہے بلو چستان سے گلگت تک کراچی سے پشاور تک ہر جگہ فر قہ پرستی کے نام پر مسلمان ایک دوسرے مسلمان کا بے گناہ لہو بہا نے سے ذرا عار محسوس نہیں کرتے اگر فرقہ واریت کے نام پر مسلمانوں کا لہوکسی مسلم فرقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی متشدد اور جنونی مسلمان فرد نہیں بہا رہا تو پھر پاکستانی مسلمانوں کو فرقہ واریت کی آڑ میں باہم دست وگربیاں کرنے والا کون ہے حکومت اپنی جگہ اپنی ذمہ داریاں ضرور کررہی ہوگی؟ لیکن کیا کچھ ہماری اپنی قومی وملی ذمہ داریاں یا فرائض ہم پر عائد نہیں ہوتے ؟ بحیثیتِ پاکستانی مسلمان ہم خود علیحدہ علیحدہ اپنے قومی تحفظ کے لئے کیا کررہے ہیں؟ ہمارے مساجد کے خطیب اور علماء ‘ ہمارے پیش نمازآئمہ‘ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ اُنہیں اپنے جمعہ کے خطبات کے دوران ایمانی جراّت اورایمانی ’ایمانداری ‘ کا بے باکانہ طرزِ خطابت اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ امسال حج کے موقع پر خطبہ ِٗ حج دیتے ہوئے سعودی مفتی ِٗ اعظم نے عالمِ اسلام کے مسلمانوں کے سامنے جیسا خطیبانہ طرزِ عمل پیش کیا اپنا دینی اہم فریضہ ادا کیا ہے عراق کے دوشہروں پر ’معلوم ‘ اطلاعات کے مطابق ’دولتِ اسلامیہ ‘ یا پھر ’داعش تنظیم ‘ کے نام پر چند خود سر ‘ سرکش سرپھرے جنونیوں نے مسلمانوں کے اجتماعی قتلِ عام کی واردات کرکے عالمِ اسلام کے لئے نئی کڑی مشکلات اور مصائب وآزمائش کے نئے پہاڑ کھڑے کردئیے ‘ وہ کسی کی سنتے ہی نہیں ‘ بات بات پر مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا جارہا ہے عرب دہشت گرد تنظیم ’داعش ‘ کے مضر اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیئے جانے لگے ہیں مثلاً اورکزئی ایجنسی، کرم ایجنسی، خیبر ایجنسی، ہنگو اور پشاور کے پانچ سینئر کمانڈروں اور کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ نے عرب دہشت گرد گروہ ’دولت اسلامیہ’داعش‘ سے ’ بیعت ‘کا اعلان کردیاصاف ظاہر ہے پشاور سمیت ملک بھر کے شہروں میں ’داعش کی وال چاکنگ کرنے والا یہ وہی گروہ ہے جو وال چاکنگ کرنے والوں کو نہ صرف مالی مدد فراہم کرتا ہے بلکہ اِن ’گمنام ‘ افراد کی پشت پناہی بھی کالعدم ٹی ٹی پی ہی کرتی ہے، نجانے اِس خوفناک سلسلے کی کڑیاں ملک بھر میں کہاں تک پھیل چکی ہونگی ؟ اِس انتہائی ہیجانی اور جنونی عفریت کا مقابلہ کرنے کے لئے فرقہ واریت کے مسائل سے نمٹنے کے لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایک قدم آگے بڑھ محبِ وطن علماءُ مذہبی وسماجی دانشور ‘ صحافی ‘ماہرین تعلیم اور میڈیا والوں کی پہلی اوّلین ذمہ داری بنتی ہے کہ تمام سماجی وسیاسی مسائل کو بالائے طاق رکھ کر بہت ہی موثر ’پاکستان علماء کونسل ‘ کی تشکیل ایک نکاتی ایجنڈے پر کی جائے تاکہ پاکستان میں کم ازکم حسبِ توفیق ہم سب فرقہ واریت کی باہمی آویزشوں ‘ مارکٹائی ‘ قتل وغارت گری ‘ نفرتوں‘ تعصبات کا کوئی موثر علاج قوم اور حکومت کے سامنے پیش کریں تاکہ آنے والی نسلوں کو علم ہو اُن کے بزرگوں نے ’انسانیت نوازی ‘ انسانیت پروری انسانیت کے تحفظ وبقاء کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ کے آفاقی احکامات کی بجاآوری میں عملاً کچھ اقدامات اُٹھائے تھے قرآنِ حکیم کی آئیہ ِٗ مبارکہ موجود ہیں ’جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا اُس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ، سعود ی مفتی ِٗ اعظم نے حج کے اعلیٰ وارفع خطبہ میں بے گناہ مسلمانوں کا بے دریغ خون بہانے والوں کو واشگاف اور دوٹوک الفاظ میں ’فرقہ ِٗ خوارج ‘ قرار دیدیا ، تاریخ سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں بحیثیت مسلمان کوئی ہمیں ’خوارج ‘ ہہ دے ہمارا خون کھول جائے گا غیض و غضب کا غصہ ہمیں دیوانہ کردے گا بس پھر باہمی لڑائی اور سر پھٹول شروع‘ اپنے آپ کو ’خوارج ‘ کہلوانا کوئی پسند نہیں کرتا مگر تاریخ بتاتی ہے غالبا( اگر ہم غلطی پر ہوں تو کوئی صاحبِ علم ہماری تصیح فرمادیں)60 ہجری قبل ’خوارج ‘ نے جتنے بے گناہ مسلمانوں کو انفرادی او ر اجتماعی طور پر کھلے عام قتل کیا انسانی لہو بہانے کی تاریخ میں اِس کی مثال نہیں ملتی مذہبی فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے عفریت کا زور توڑنے کے لئے تاحال پاکستان میں وہ عملی کوششیں کہیں ہوتی ہوئی نظر نہیں آتیں آئے روز اِس اعتبار سے فضاء مکدر اور کشیدہ ہورہی ہے جس کی وجہ سے ہر حساس اور درد مند پاکستانی کی پریشانی اور فکر مندی میں اضافہ ہورہا ہے کبھی کسی نامور شیعہ شخصیت یا علماء کا قتل ہو جاتا ہے، تو کبھی کسی اور فرقہ کے علماء کو نشانہ بناکر قتل کردیا جاتا ہے مذہبی ایّام تمام مسلمانوں کے نزدیک قابلِ احترام ہیں محرم الحرام کے شروع ہوتے ہیں پورا ملک گزشتہ کئی برسوں سے ایمرجنسی کی حالت میں مبتلا نظر آتا ہے، کیوں ؟عید میلا د النبیﷺ کے جلوس ہوں یا محرم الحرام کے ماتمی جلوس ‘ دیوی بندی اور اہلِ حدیث کے مدارس ہوں یا کسی اور اسلامی فرقہ کا کوئی اجلاس، کوئی محفوظ نہیں، یہ حکومت کا کام ہوگا مگر اوّلین تقاضایہ ہے کہ ایک دوسرے پر ’کافر‘ مشرک ‘ یا تارکِ فی الا اسلام ‘کے فتوے چسپاں کرنے
کرنے والوں کا ’سوشل بائیکاٹ ‘کیجئے اُن کی حوصلہ شکنی ہوگی پاکستان کے ازلی دشمنوں کی پہلی اور اوّلین خواہش اِس کے سوا اور کیا ہوگی کہ پورا ملکی معاشرہ انارکی‘ سماجی افراتفری و فرقہ ورانہ انتشار کی بدترین تصویر بن جائے راولپنڈی سے کراچی اور کوئٹہ تک کئی بار اہلِ وطن کو فرقہ واریت کے نام دہشت وتشدد کے لہو میں ڈبو دیا گیا گزشتہ راولپنڈی کے راجہ بازار چوک میں جوکچھ ہوا اِس پر رحمت العالمینﷺ کے خالص اور سچے امتی ہونے کے ہم جودعویدار ہیں آخر کب تک ناخواندہ نیم حکیم خطرہ جان نما ’مولویوں‘ اور ’مہذہبی مقرروں‘ کے پیشہ ورانہ ’مشغلوں ‘کا مشقِ ستم بنے رہیں گے؟۔