Posted date: December 18, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
وارسک روڈ پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے معصوم طلباء‘ اساتذہ اور اسکول انتظامیہ کے لئے 16 /دسمبر کی صبح قیامت بن کر طلوع ہوئی قیامت بھی ایسی ولناک اور تباہ کن‘ شائد ہی کسی کے وہم وگمان میں ہو کہ انسان کے بہروپ میں انسانی لہو پینے والی بہیمانہ سفاکیت کی ایسی خونریز ہولی کوئی گروپ یا کوئی شخص کھیل سکتا ہے؟ درندہ صفت بھیڑے کی صورت میں کوئی گروہ ظلم وستم کی ا یسی ہولناک اور بھیانک خونریزی کا میدان سجانے کی انتہائی گھٹیا ترین قابل ِ نفریں ارتکاب ِ جرم کا مرتکب ہوسکتا ہے؟ برداشت‘ تحمل‘ اور راہ ِ اعتدال سے بھٹکے ہوئے، گمراہ کن خیالات کی منفی اور نچلے درجے کی ظالمانہ سوچ وفکر کے جہنم ہمہ وقت تصورات میں سلگائے انسانوں کے لبادوں میں چھپے یہ بھیڑے ہمیں عالم ِ انسانیت کی تاریخ میں بھی ملتے ہیں گزشتہ 1500 سو برس کی اپنی اسلامی تاریخ کے جھروکوں میں اگر ہم جھانکیں تو ہمیں ایسے کئی واقعات ملیں گے، جنہیں پڑھ کر ہمیں آج کی اپنے ملک کی تشویش ناک صورتحال کو سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی زیادہ دور کیوں جا ئیں گزرے حج کے موقع پر سعودی عرب کے مفتی ٗ ِ اعظم کے خطبہ ٗ ِ حج کے مندرجات پر اگر ہم غور کرلیں اُنہوں نے خطبہ ٗ ِ حج میں بار بار کس گروہ کو ’خوارج‘ کا نام دیا تھا؟ انسانی سفاکیت کے جرائم میں مبتلا یہ گروہ کل کی طرح آجکل ’حکم الہ اللہ‘ کا نعرہ لگا کر عر ب ممالک میں فساد فی سبیل اللہ کا سبب بنا ہوا ہے جن کے منحوس ہاتھوں پر مقدس صحابہ ٗ ِ کرام خاص طور پرامیر المومینن حضرت علی ابن ابی طالب کا لہو ہمیشہ سے اپنے تعصبات کے رنگ دکھلاتا رہا ہے دین اسلام کے نام پر انسانیت کی بدترین تذلیل اور بے حرمتی کرنے والوں پر قر آن ِ حکیم میں کئی مقامات پر کھلی ’لعنت‘ کی گئی ہے عہد ِ حاضر کے پاکستان میں اہل اسلام سے وابستہ شخصیات خصوصاً درد مند علماء وخطباء‘ اور باشعور اور بابصیرت مسلمانوں کو قرآن پاک کی طرف بلا تامل ر جوع کرنا ہوگا تاکہ وہ جان لیں‘اپنے بھائیوں کو بھی حق پر مبنی ایمانی راہ ِ سلوک کی یہ بات سمجھا دیں کہ ’دہشت و وحشت‘ کا دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے سورہ ٰ البقرہ کی آئیہ ِ مبارکہ 11 اور12 کا ترجمہ ہے’’اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو تو کہتے ہیں ہم ہی تو
اصلاح کرنے والے ہیں (یعنی مصلحین ہیں) 0 آگا ہ ہوجاؤ!یہی لوگ (حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر اِنہیں (اِس کا) احساس تک نہیں“ 16 / دسمبر کی صبح پشاور آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کو اُن کے اساتذہ اور اسکول انتظامیہ سمیت تقریبا150 افراد کو بدترین اذیت ناکی کے ساتھ شہید کردیا گیا کون ہے جو اُن کے اِس مفسدانہ بھیانک جرم کو عین اسلام قرار دے گا؟ جو قرآن پاک کی واضح ہدایات کے خلاف جائے اُسے کیسے اور کیونکر دائرہ اسلام میں تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ کھل کر واضح اور نمایاں لب ولہجہ میں انسانیت کی بے حرمتی یعنی قتل) کرنے والوں کی مذمت نہ کرنا بھی اُس ظلم کرنے والوں کے حامی و مدد گار کے طور پر گردانا گیا ہے سنا ہوگا
آپ نے کہ ’ہمت ہو تو ظلم وستم کو ہاتھ سے روکو‘ ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو دل میں اُس ظلم وستم کی مذمت ضرور کرو‘ملکی وعالمی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں ’سانحہ ٗ ِ آرمی پبلک اسکول پشاور‘ کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جارہی ہے، لیکن اُن کا علاج ہمارے پاس کیا، کسی کے پاس نہیں ہوگا ’خوارج فکر‘ جن مفلوج ذہنوں میں پروان چڑھ رہی ہے، تعلیماتِ قرآنی کی روح کے عین مطابق انسانیت کے علمبردار‘انسانیت نواز ذمہ دار‘ چاہے وہ حکمرانوں سے متعلق ہوں‘صحافی ہوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اُن کا تعلق ہو زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں اُنہیں ہر صورت میں اب جاگنا ہو گا اُنہیں انکار کرنا ہوگا کہ کوئی اپنی سفاکانہ مرضی منشاء کو ہر صورت میں آپ پر مسلط کرنے کی ہمت تک نہ کرئے، اگر آپ کاتعلق میڈیا کے شعبے سے ہے تو ایسوں کی ایسی غیر انسانی فکر کی بیخ کنی کرنے میں جراّت سے کام لیں
ایسوں کے غیر اسلامی اور قرآنی احکام سے روگرداں پُر مژدہ افکار وخیالات کا راستہ روکیں تاکہ اِن کا اور کچھ نہ ہو سوشل بائیکاٹ ہی ہوجائے، یعنی‘ یہ’تنہا‘ ہوجائیں یاد رہے یہ جو ’تنہائی‘ہے نا بہت بڑا دنیاوی عذاب ہے، بقول مفتی ٗ ِ اعظم سعودی عرب عہد ِ جدید کے ’خوارج گروہ‘ نے بے دریغ مسلمانوں کا قتل ِ عام کرکے اہل ِ اسلام کے پُرامن چہرہ کو گہنا د یا، عراق وشام میں کہیں داعش ہے یا دولت ِ اسلامیہ ہے یہاں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں‘ افغان سرحد پر اور کبھی ملک کے بڑے اہم شہروں میں کالعدم ٹی ٹی پی اور اِس جڑی دیگر کئی اور دہشت گرد تنظیموں نے ملکی زندگی کے ہر شعبہ کو بُری طرح سے خون آلود کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی‘ 16 / دسمبر کے سانحہ ٗ ِ پشاور نے تو پورے ملک کی جڑوں کو ہلا کررکھ دیا 20 کروڑ پاکستانی بہت مضطرب ہوئے غم واندوہ سے ایسے دوچار ہو ئے کہ اِس خون ریز غم و اندوہ نے اُنہیں یک جان ویک قالب بنا دیا ہر پاکستانی نے پشاور کے سانحہ کے غم کو اپنے گھر کا غم سمجھا، کوئی ایسی آنکھ نہ ہوگی جو روئی نہ ہونمناک نہ ہوئی ہو،وزیر اعظم خود پشاور گئے ملک کی سبھی پارلیمانی پارٹیوں کا مشترکہ اجلاس وزیر اعظم کی صدارت میں منعقد ہوا،اِس سے قبل پاکستانی عوام نے بطور ’بریکنگ نیوز‘ یہ خبر سنی کہ وزیر اعظم نے گزشتہ 6-7 برسوں سے دہشت گردی جیسے جرائم میں اعلیٰ عدالتوں سے موت کی سزا پانے اور صدر مملکت کی جانب سے ’رحم‘ کی اپلیں مسترد ہونے کے باوجود اُن کی پھانسیوں پر عمل در آمد ملتوی تھا کس نے ملتوی کیا تھا اور کیوں کیا تھا؟ یہ سوال اپنی جگہ، مگر ’دیر آئید درست آئید‘ کے مصداق بحرحال ایک بروقت اہم فیصلہ ہوگیا دہشت گرد جو منٹوں سیکنڈوں میں ایک دو نہیں اجتماعی قتل وغارت گری جیسے غیر انسانی جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں قانون اگر اُن کو سزائے موت دیتا ہے تو یہ سزا فوراً اگر مل جایا کرتی تو شائد دہشت گردی کا یہ عفریت اس پیمانے پر نہ پھیلتا اِس سنگین صورتحال میں پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کوئٹہ سے اپنا دورہ مختصر کرکے پہلے پشاور پھر ہنگامی طور پر پڑوسی ملک افغانستان پہنچے جہاں اُنہوں نے افغانی صدر اور ایساف کے کمانڈر سے علیحدہ علیحدہ بڑی اہم ملاقاتیں کیں پاکستانی آرمی چیف نے ایساف کمانڈر پر واضح کردیا ہے کہ اب افغانستان کو ماضی کی پالیسیوں کے برعکس پاک افغان سرحد پر اپنی اتھارٹی کو منوانے کے لئے عملی اقدامات یقینا کرنے ہونگے،تاکہ نہ کوئی دہشت گرد پاکستان کی سرزمین افغانستان کے لئے استعمال کرسکے اسی طرح سے افغانستان کی سرزمین پر پناہ لینے والے اُن چند سفاک اور وحشی درندہ صفت دہشت گرد لیڈروں کو فی الفور پاکستان کے حوالے کرنے کی ذمہ داری افغان حکومت کی ہوگی چونکہ سانحہ ٗ ِ پشاور نے قوم کو یہ باور کرادیا ہے 20 کروڑ عوام کو چند درجن دہشت گرد گروپس زیادہ سے زیادہ جن کی تعداد دس پندرہ ہزار ہوگی اگر اِتنی ہے تو وہ جان لیں کہ پاکستانی عوام اور پاکستانی فوج نے متحد ہوکر تہیہ کرلیا ہے ظالم وسفاک یہ دہشت گرد 20 کروڑ پاکستانی عوام کو خوف زدہ کرکے یرغمال نہیں بناسکتے اب دیکھتے ہیں کہ یہ نفرتوں کے پجاری اور موت کے سوداگر کب تک پاکستان دشمنوں کی بغلوں میں چھپے رہیں گے آخر کب تک؟؟۔