امریکی صدر اوبامہ کی نریندرمودی کو سبق آموز’ نصیحت‘
Posted date: January 31, 2015In: Urdu Section|comment : 0
US President
سیّد ناصررضا کاظمی
’رواداری اور عدم رواداری ‘ کے مابین پائے جانے والے مہین‘باریک فکر طلب امور پر غور وخوض کرنے والے جید فاضل علماء وفضلاء معززین نے ہم جیسے کم علموں، یعنی کہ موٹی عقل والوں کو آسان اور سادہ لفظوں میں یہ نکتہ سمجھانے کی کوشش کی ہے ’ اگر دنیا میں نیکی اور خیر کی دولت سمیٹنے کی تم میں کوئی خواہش پیدا ہوجائے، تو تمہیں سب سے پہلے ’روا داری اور عدم رواداری ‘ کا فرق سمجھنا ہوگا کہ ’رواداری ‘ کا احساس کتنا عظیم اور کتنا بے مثال ہوتا ہے، جو عام انسان کو یکلخت دوسر ے لوگوں سے علیحدہ کرکے اورممتاز کردیتا ہے ایسے جیسے ’شہد کی مکھی اپنے جسم میں سے شہد نکالتی ہے ‘اور ’عدم رواداری ‘ انسانی عظمتوں کی ایسی دشمن ہوتی ہے، اگر کسی انسان کے اندر یہ ’بُروئی‘ راسخ ہوجائے تو وہ انسان انسانیت کے درجہ ِٗ کمال سے گرجاتا ہے، اُس کا حلقہ ِٗ احباب کم ہوتا جاتا ہے، گمنامی کی قنوطیت اُس کم مائیہ فرد پر حاوی آجاتی ہے اُس کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا، بہتر یہ ہی ہے کہ عدم رواداری کی بجائے انسان عظمتِ کمال کے درجات پر فائز ہونے کے لئے اپنے میں احساسِ رواداری کے جذبات کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے میں منہمک ہوجائے، اگر وہ ایسا کرئے گا تو پھر اُس کی ترقی وخوشحالی کی راہ میں کوئی بڑی سے بڑی رکاوٹ سّدِ راہ نہیں بن پائے گی، وہ ترقی کے زینے خود بخود طے کرتا چلا جائے گا، ترقی ہر انسانی معاشرے کا بنیادی جزو ہوا کرتی ہے، چاہے وہ انسان دنیا کے کسی بھی خطہ ‘ ملک یا قوم سے تعلق رکھتا ہو انسانی معاشروں کے مابین رشک وحسد ‘ بغض وعناد ‘ اور نفرت و عصبیت نے ’عدم رواداری ‘ کے زہریلے بیج بُودئیے ‘انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کا دشمن بن گیا، ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے لگا، انسانی معاشرے ’عدم رواداری ‘ ہی کے سبب باہم بر سرِ پیکار ہوگئے، یہ ساری بُرائیاں ’ عدم رواداری ‘ نے پھیلائیں، انسانی جرائم کی تاریخیں اُٹھا کر دیکھ لیں، بڑی تلخ حقیقت ہے مانے بنا کوئی چارہ نہیں ہے آج کے مسلمانوں نے کچھ چھوڑا یا نہیں چھوڑا، اِنہوں نے ’کتب بینی ‘ یعنی ’پڑھنا ‘ چھوڑ دیا ہے دیگر اقوام کی ترقی کے راز جاننا تو رہا ایک طرف ‘ ہمارے یہ بھائی قرآنِ حکیم فرقانِ مجید با ترجمہ پڑھنا گوارا نہیں کرتے تو ’رواداری اور عدم رواداری ‘ کی حساس اہمیت وافادیت کو کیا خاک سمجھیں گے؟ اپنے کالم کے آغاز میں اِس طویل تمہید کی وجہ بنی ہے امریکی صدر اُوبامہ کی وہ تقریر ‘ جو اُنہوں نے اپنے حالیہ دورہ ِٗ بھارت میں نیو دہلی کے سیری فورٹ آڈیٹوریم میں بھارتی نوجوانوں سے فی ا لبدیہہ کی ‘ اِن کے خطاب کے موقع پر ’الحمد اللہ ‘ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی موجود تھے، جو پورے خطاب کے دوران شرم سے اپنا سر جھکائے ندامت سے یقیناًپانی پانی تو ہورہے ہونگے ؟صدر اُومامہ نے کیا کہا؟ آئیے اُن کی اپنی زبانی سنتے ہیں ’ترقی کا راستہ مذہبی رواداری سے ہو کر جاتا ہے ترقی، تعاون اور باہمی اشتراک کا بھی راستہ یہ ہی ہے، مذہبی یک جہتی اور عدم مساوات کیا ہے یہ نکتہ سمجھنے کے لئے پہلے ’رواداری ‘ کیا ہوتی ہے یہ جاننا بے حد ضروری ہے اور ہاں اگر بھارت نے ترقی کے میدان میں آگے ہی بڑھنا ہے تو اُسے پہلی فرصت میں مذہبی جنونی تعصبات سے اپنا دامن فی الفور چھڑانا ہوگا، اپنے معاشرے میں عورتوں کی نہ صرف عزت کرناپڑے گی بلکہ اُنہیں آگے بڑھنے کے برابر مواقع بھی د ینا پڑیں گے اوبامہ نے اِس موقع پر جذباتی لہجہ میں یہ کہا کہ ’ بھارت میں گذشتہ کچھ عرصے سے مذہبی منافرت میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ’گھر واپسی‘ کے نام پر مذہب کی تبدیلی کا معاملہ ایک انتہائی متنازعہ سماجی اور سیاسی مسئلہ بن چکا ہے مغربی دنیا بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت کی اِس دیوانگی پر شدید تحفظات رکھتی ہے مسٹر اُوبامہ جب یہ جملے ادا کررہے تھے، تو اُنہوں نے نریندر مودی کی جانب ’خصوصی ‘ نگا ہ ڈالی تو صدرِ امریکا نے دیکھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کامنہ کھلا ہوا ہے اُن کی آنکھیں بند اور اُن کے دو نوں ہاتھ ٹیبل پرہیں اور وہ بے چینی کے عالم میں اپنی انگلیاں چٹخارہے ہیں تو امریکی صدر مسکرا دئیے اور پھر اپنی تقریر شروع کردی کہنے لگے کہ ’طاقت کے ساتھ ساتھ ذمہ داری بھی قبول کرنی پڑتی ہے انڈیا کو خطے میں اور عالمی سٹیج پر زیادہ موثر قائدانہ کردار ادا کر نے کے لئے کل سے زیادہ اب مزید ذمہ داری کا ثبوت دکھلانا بھی ہو گا ‘ اوبامہ نے اِس موقع پر یہ بھی بتایا یہ کیسے ہو گا ؟ اُنہوں نے کہا ’واقعی انڈیا کی رنگارنگی ہی اس کی پہچان ہے یہاں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں، ہر رنگ و نسل اور مذہب کے لوگ یہاں رہتے ہیں، امریکہ
میں بھی ہر رنگ و نسل اور قومیت کے لوگ رہتے ہیں دنیا میں آج بھی بہت عدم مساوات ہے‘ صدر اوبامہ نے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ وہ ملک زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جن کی عورتیں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں کوئی ملک اور کتنی ترقی کرے گا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ’ وہاں عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟ ‘ انھوں نے اس متنازعہ موضوع کا ذکر ضروری سمجھا جس پر بحث روز بروز تلخ سے تلخ ہوتی جا رہی ہے انھوں نے کہا کہ’ امریکا اور بھارت دونوں ملکوں میں ہندو ، مسلمان، یہودی بودھسٹ ‘ جین‘ عیسائی اور سکھ کے علاوہ دوسرے مذاہب پر عمل کرنے والے پیروکا ر بھی رہتے بستے ہیں‘ بھارت کے باپو گاندھی جی نے کہا تھا’ یہ سب ایک ہی گلدستے کے پھول ہیں کسی بھی مذہب پر عمل کرنے کی آزادی امریکا کی طرح بھارت کے آئین میں بھی شامل ہے اور اس بنیادی آئینی حق کا تحفظ کرنا حکومت اور ہر شخص کی ذمہ داری ہے ‘اُنہوں نے تذکرہ کرتے ہوئے کہ کہا کہ’ دنیا بھر میں مذہب کے نام پر کئی ملکوں میں تشدد ہورہا ہے، تین سال پہلے امریکہ کے ایک گرودوارے میں ایک شخص نے چھ معصوم لوگوں کو ہلاک کردیا تھا اور سوگ کے اس ماحول میں ہم نے یہ عزم دہرایا اور ہمیں آج پھر یہ عزم دہرانا پڑے گا کہ ہر شخص کو اپنے عقیدے پر اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا یکساں حق حاصل ہو اگر وہ چاہے بے خوف و خطر کسی بھی مذہب پر عمل کرئے یا نہ کرے کسی بھی مذہب پر عمل پیرا رہے یا نہ رہے، مذہب میں زور اور زبردستی مہذب ومتمدن اقوام کا شیوہ نہیں ہوتا، دنیا میں ہمیں جس امن کی تلاش ہے اس کی ابتدا انسانوں کے دلوں سے ہی ہوتی ہے یہ تبھی ممکن ہے جب ہم مذہبی جنونی اختلافات سے اٹھ کر اپنی فکر و ں اورسوچوں کو تبدیل کریں گے بھارت میں یہ بات سب سے زیادہ اہم ہے، بھارت تبھی کامیاب ہو گا جب وہ مذہبی جنونیت کی دیوانگی سے اپنے آپ کو نکالے گا گزشتہ چند برسوں سے بھارت میں مذہب کی بنیاد پر بے پناہ تقسیم کی اطلاعات نے اِس ’عظیم جمہوریہ ‘ کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اگر انڈیا اپنے جمہوری اقدار کا مسلسل تحفظ چاہتا ہے تو اُسے واپس ’سیکولرازم ‘ کی جانب آنا ہوگا ‘ امریکی صدر نے یقیناًاپنے متذکرہ بالا خطاب میں بھارتی جنونی ہندوتوا کے پیروکار قائدین کے ضمیروں کو جھنجھوڑ دیا یاد رہے بھارت میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے بہت سی ایسی تنظیمیں بھارت بھر میں سرگرم ہوگئی ہیں جو یا تو براہ راست ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ہیں یا اس سے نظریاتی مماثلت رکھتی ہیں خود آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کہہ چکے ہیں کہ غیر ہندو ؤں کو دوبارہ ہندو بنانے میں کیا برائی ہے جنھوں نے ماضی میں کبھی اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا ایک قابل قدر لحاظ سے امریکی صدر اوبامہ نے اپنے حالیہ دورہ ِٗ بھارت میں جنونی انتہا پسند بھارتی سیاست دانوں کو سیکولرازم کی طرف وایسی کی پُرامن ’نصیحت‘ کرکے ا پنا ’عالمی رول ‘ بخوبی ادا کردیا ہے ۔