اسلام میں پر تشدد کاروایئوں کی ممانعت
[urdu]اسلام میں پر تشدد کاروایئوں کی ممانعت
ایس اکبر
اسلام میں تشدد اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے اور اس مذہب میں کسی بھی شخص کو تشدد کے ذریعے دینِ اسلام کی طرف راغب کرنے کی سخت ممانعت ہے۔ اسلام دہشت گردی کا مذہب نہیں اور نہ ہی کسی شخص کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ تلوار یا بندوق کے زور پر کسی دوسرے شخص کو مسلمان کرنے کی کوشش کرے۔خانہ کعبہ کے مفتی اعظم شیخ صالح نے پشاور میں آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کے ہا تھوں بچوں کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہو ئے کہا ہے کہ اسلام امن کا دین ہے جو ناحق خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا اور بالخصوص بچوں اور عورتوں کو مارنے کی سخت مخالفت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ بچوں کے قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کرے گااور اسکولوں پر حملوں سے اسلام کا تشخص متاثر ہوتا ہے۔اس ظالمانہ کار وائی کی ملکی اور غیر ملکی سطح پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔یہاں تک کہ خود کالعدم تنظیموں القاعدہ،افغان طالبان اور تحریک طالبان جماعت الاحرار نے بھی اس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے اور واضح الفاظ میں یہ کہا ہےکہ اسلام کسی صورت معصوم بچوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔اس مذمت سے واضح ہو گیا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان درحقیقت دہشت گردوں کا ایک گروہ ہے جو اس چیز کا واویلا تو بہت کرتا نظر آتا ہے کہ وہ اسلام کے سچے پیروکار ہیں اور اسلام کی بالا دستی اور شریعت کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں جبکہ ان کا ہر قول و فعل انھیں اسلام تو کیا انسانیت سے بھی دور لیتا جا رہا ہے۔یہ ظالم صرف اپنی حیوانیت کی تسکین کے لیے معصوم لوگوں کے خون سےہولی کھیل رہے ہیں۔اس اندوہ ناک واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے ترجمان نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہےکہ اسلام میں بچوں کو مارنا جائز ہے۔لیکن ہمیشہ کی طرح اس حدیث کو بھی ان ظالموں نے اپنی انسانیت سوز کاروائی کو سچ ثابت کرنے کے لیے اپنی مرضی سے تبدیل کردیا ۔جبکہ اسلام میں بچوں اور عورتوں کو ظلم کا نشانہ بنانا اور قتل کرنا حرام ہے۔یہاں تک کہ نبی کریمﷺ جب کسی لشکر کو جنگ کےلیے روانہ کرتے تو اسے خصوصاً ہدایت کی جاتی کہ بچے ،بوڑھے ،عورتیں اور وہ لوگ جو اپنی عبادت گاہوں میں عبادت میں مشغول ہو ں وہ جنگ کے قوانین سے مستثنیٰ ہیں بالخصوص بچوں اور عورتوں کو قطعی ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔دہشت گردی کے مرتکب افراد آج خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ اسلام کی تعلیمات نہیں تھیں جس نے انھیں معصوم بچوں کے قتلِ عام پر اُکسایا بلکہ یہ ان دہشت گردتنظیموں کی اپنی خود ساختہ انتہا پسندانہ سوچ تھی جس کے تحت انھوں نے اسلام کے برعکس معصوم ا ور نہتے بچوں کے خون سے ہولی کھیلی۔
اسلام صرف مذہب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل دین ہے ۔ اسلام نے جہاں زندگی کے ہر شعبہ کے لیے ضابطہ دیا ہے وہاں معاشرے کی اجتماعیت کے تحفظ کا اہتمام بھی کیا ہے۔ اس کے لیے ریاستی اداروں کے حقوق و فرائض طے کر دیئے گئے ہیں۔ مسلم ریاست کے جملہ شہریوں کو ریاستی قوانین اور اصول و ضوابط کا پابند بنایا گیا ہے۔ انہی ضابطوں میں سے ایک یہ ہے کہ مسلم ریاست اور معاشرے کو امن اور بقاۓ باہمی کا نمونہ ہو نا چاہیے۔ اس لیے مسلم ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانے ، اس کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرنے اور اس کے خلاف اعلان جنگ کرنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے۔ اس عمل کو شرعاً بغاوت کا نام دیا گیا ہے۔ خدا نخواستہ اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دہشت گردی اور بغاوت کا کلیتاً قلع قمع کرئے تا کہ کسی فرد یا گروہ کو معاشرتی امن تباہ کرنے اور انسانی خون سے ہولی کھیلنے کی جرات نہ ہو۔ انسانی معاشرے اور بالخصوص مسلم ریاست کا امن اسلام کو اس قدر عزیز ہے کہ اس مقاصد کے لیے حکمرانوں کے فسق و فجور، ناانصافی اور ظلم و استبدار کو بھی مسلح بغاوت کے لیے جواز بنانے کی اجازت نہیں۔ احادیثِ رسول ﷺ کی روشنی میں مسلم ریاست کے خلاف بغاوت کا جواز اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک حکمران کفر کے مرتکب نہ ہوں اور اقامتِ صلوۃ و دیگر اسلامی احکامات و شعائر کی بجا آوری کو بذریعہ طاقت روکنا نہ شروع کر دیں۔
نبی کریمﷺ سے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان سلامت ہیں۔ اس حدیث کے برعکس دہشت گرد بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ جیسے قبیح افعال سر انجام دے رہے ہیں جس سے معصوم اور نہتے لوگوں کا ناحق خون بہہ رہا ہے۔اور اب تو ان ظالموں نے درسگاہوں اور سکولوں میں پڑھنے والےمعصوم بچوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔دہشت گردی کی کاروائی سے سینکڑوں گھروں کے چراغ بجھ گئے ہیں اور ہزاروں گھر ایسے ہیں جو اپنے واحد کفیل گنوا بیٹھے ہیں اور اب ان کے خاندانوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ دہشت گردوں کی تمام کاروائیاں دینِ اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ دین اسلام سے خارج ہیں۔ حدیث کی روح سے مسلمان اور مومن صرف وہی شخص ہو گا جس سے بلا تفریق دین و مذہب ہر شخص کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہو۔ لہذا جو شخص آدمیت اور انسانیت کا احترام ملحوظ نہ رکھے اور قتل و غارت گری، فساد انگیزی اور جبرو تشدد کا راستہ اختیار کرے ، وہ کتنی ہی عبادات کر تا پھرے ہر گز مومن نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی شخص نے داڑھی رکھی ہو، تسبیح و تحلیل بھی کرتا ہو، نماز پنجگانہ ادا کرتا ہو ، روزوں کا اہتمام کرتا ہو، تہجد گزار اور قائم اللیل ہو اور دعوت و تبلیغ کے علاوہ ہر سال حج و عمرہ بھی کرتا ہو، الغرض تمام عبادات کے باوجود اس سے لوگوں کی جان و مال محفوظ نہ ہوں تو یہ تمام عبادات اسے اللہ کے عذاب نہیں بچا سکتیں، کیونکہ حقیقی فلاح کا انحصار ظاہری عبادت پر نہیں بلکہ قلبِ سلیم پر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا” اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور اموال کو نہیں بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے”۔
قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ہم یہ برملا کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کسی بھی صورتِ حال میں مسلم اور غیر مسلم غیر مسلح افراد کے قتل و غارت کی اجازت نہیں دیتا۔ معصوم لوگوں کو قتل کرنے والوں کے لیے اِس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ انہیں آقا دو جہاں حضرت محمدﷺ نے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ دہشت گردوں نے اسلام کی تعلیمات کو اپنے ناپاک مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے جو اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اپنے آپ کو اسلام کا سچا علمبردار کہنے والے کسی طور مسلمان نہیں ہیں۔ آج ہر پاکستانی اِن کافروں کو عبرت ناک سزا دینے کے لیے متحد ہے جن کی وجہ سے نجانے کتنے گھروں کے چراغ گل ہو گئے۔ کتنی ہی معصوم بچیاں بھوکی سونے پر مجبور ہیں۔ کتنے ہی بچے پڑھائی سے محروم ہو گئے ہیں اور نجانے کتنے ہی نوجوان اپنے ماؤں کو داغِ مفارقت دے گئے۔ اسلام نے تو ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت قرار دی ہے۔”حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے۔ ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہیے۔”
ان تمام احادیث اور اسلامی تعلیم کی روشنی میں دہشت گردوں کے تمام افعال و اعمال اسلامی تعلیمات کے برعکس ہیں۔ وہ مسلمان تو کیا انسان کہلوانے کے بھی حقدار نہیں۔ تمام مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کی ان ظالم دہشت گردوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنا مکروہ چہرہ پہچان کر اپنی تمام غیر اسلامی اور غیر شرعی کاروائیاں ترک کر دیں اور اسلام کی بدنامی کا باعث نہ بنیں اوریہ بات جان لیں کہ کون سا اسلام اور جہاد ہے جس میں معصوم اور نہتے بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ دہشت گرد اسلام کی تعلیمات سے ناواقف ہیں اور انھوں نے اسلام کو بدنام کرنے کا عزم کیا ہوا ہے جو کہ انشاء اللہ کبھی پورا نہ ہو سکے گا۔[/urdu]