پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی اور اس کے منفی اثرات
[urdu]
پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی اور اس کے منفی اثرات
ایس اکبر
پاکستان میں فرقہ وارنہ فسادات یہ کھیل پچھلی کئی دہائیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔کبھی مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو دہشت گردہ کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی مساجد اور امام بارگاہوں میں خودکش حملے کر کےمعصوم اور نہتے لوگوں کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ اسلام یا دنیا کا کوئی بھی مذہب کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ مذہبی عقائد کے تفرق کی بنیاد پر کسی معصوم اور نہتے انسان کو قتل کرے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
“مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں” (ترمذی شریف)
دینِ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے۔ اسلام ہمیشہ اخوت اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے آپس میں بلکہ غیر مسلم اور دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ خیر سگالی اور محبت کے جذبات کو فروغ دینے پر زور دیتا ہے۔ پاکستان کو معرض وجود میں لانے کا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ یہاں مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں اور یہاں بسنے والے تمام لوگ خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو مکمل مذہبی، نظریاتی اور شخصی آزادی کے تحت اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ملک کو درپیش حالیہ مسائل میں سب سے اہم مسئلے دہشت گردی اور فرقہ واریت ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے دو اہم فرقے شیعہ اور سُنی ہیں اور یہ دونوں فرقے نظریاتی اور مذہبی اختلافات کے باوجود ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے رہتے رہے ہیں۔ لیکن اب دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کےلیے ان مذہبی و نظریاتی کے اختلافا ت کا استحصال کر رہے ہیں یہ کبھی اہلِ تشیع کو بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے بربریت کا نشانہ بناتے ہیں تو کبھی مقدس مقامات، صوفیائے کرام کے مزارات اور مساجد کو نشانہ بنا کر اہلِ سنت کے جذبات مجروح کرتے ہیں۔ پاکستانی عوام اور ہر مکتبہ فکر پریشان ہے کہ یہ کون سی طاقت ہے جو پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کو پھیلانے کی سازشیں کر رہی ہے۔ انتہا پسند عناصر نے باقا عدہ سوچی سمجھی سازش کے تحت فرقہ واریت کا زہر پھیلا یا ہے۔انھوں نے کما ل ہوشیاری سے اس بہت اہم اور نازک مسئلے کو اپنے نا پاک عزائم کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ مدارس اور مساجد میں اشتعال انگیز مواد اور تقاریر کے ذریعے مختلف فرقوں کو آپس میں لڑوایاجا رہا ہے۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کی مسلکی تعلیمات سے بلاوجہ اُلجھنے لگاہے۔ جس سے کشیدگی پیدا ہوئی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوا۔ رفتہ رفتہ اس کشیدگی میں جب تیزی آنے لگی تو ہر ذی ہوش پر یہ بات واضح ہوئی کہ یہ وہی ملک دشمن عناصرہیں جو بم دھماکوں ، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے اس ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور جب تمام غیر اسلامی اور غیر انسانی کاروائیوں سے ان کا خواب شرمندہ ءتعبیر نہ ہو سکا تو اُنھوں نے سب سے حساس مسئلے یعنی فرقہ واریت کا استحصال کیا۔
ایک وقت تھا کہ اہلِ تشیع اور اہل سنت میں کوئی واضح فرق نہیں تھا۔ پہلے ان فرقوں کے درمیان نفرتیں اور تفرقات نہیں تھے۔ ملک دشمن عناصر درحقیقت اس ملک میں امن و ترقی نہیں دیکھ سکتے یہی وجہ ہے کہ اُنھیں ان دو بڑے فرقوں کی آپس میں ہم آہنگی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ یہ دشمن کی سوچی سمجھی چال ہے جس کے تحت ان دو فرقوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی حتیٰ الوسیع کوشش کی جارہی ہے ۔اسلام دشمن عناصر شیعہ سُنی مسلک کے اختلافات کو ہتھیار بنا کر ملک میں بدامنی اور فساد پھیلانا چاہتے ہیں ۔ لہذا اصل دشمن کی پہچان وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ اس کے خلاف بروقت کاروائی کی جا سکے۔فرقہ وارنہ کشیدگی سے ملک میں بہت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔اہلِ تشیع اور اہلِ سنت میں ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی جذبات کے بجائےنفرت کے جذبات ابھرتے نظر آرہے ہیں۔آہستہ آہستہ معاشرہ میں یہ زہر پھیلتا جارہا ہے اور ایسا نہ ہو کہ دیکھتے دیکھتے فرقہ واریت کی یہ آگ ہماری نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے اس سے قبل ہمیں من حث القوم اس مسئلے سے نپٹنا ہو گا۔ انتہا پسند دہشت گردوں نے ہمیشہ مذہبی اعتبار سے مقدس دنوں اور مقدس جگہوںکو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ تمام علماء اکرام کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے برداشت ، باہمی بھائی چارے اور محبت و یگانگت کے جذبات کے فروغ کو یقینی بنائیں تا کہ دشمن ہماری صفوں میں داخل ہو ہمارے درمیان دراڑیں پیدا نہ کر سکے۔پاکستان میں بسنے والے ہر شخص کو بھی ایک ذمہ دار شہری ہونےکا ثبوت دینا ہو گا۔مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب اور مساجد میں ہونے والی تقاریر پر گہری نظر رکھنا ہوگی تا کہ کوئی بھی انتہا پسند کسی بھی قسم کا اشتعال انگیز مواد اور تقاریر کے ذریعے اپنے عزائم نہ پورے کرسکے۔
اسلامی تعلیمات اور پاکستان کے آئین کے مطابق ہر فرقے کو اپنی مسلکی تعلیمات کے مطابق عبادت کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ کس فرقہ کے عقائد درست اور اکمل ہیں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیگر مسالک اور فرقوں سے علمی اور مسلکی اختلافات کی بنیاد پر اپنے بھائیوں سے جھگڑا نہ کرے۔ صبرو تحمل سے کام لیتے ہوئے اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف صف آراء ہو کر اپنے اندر چھپے ہوئے ان اسلام اور پاکستان دشمنوں کو بے نقاب کرنا ہو گا تا کہ پاکستان کو فرقہ وارانہ دہشت گردی کی آگ سے بچایا جا سکے۔
[/urdu]