آر ایس ایس۔ جنونی جنسی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث

Indian terrorism سیّد ناصرر ضاکاظمی
بھارتی مسلح غیرریاستی تنظیم آر ایس ایس کے بنیادی رکن نریندر مودی جب سے بھارت کے ’سیاہ وسفید ‘کامالک بنا اُس نے بھارت دیش کو جو کبھی ’عظیم جمہوریہ ‘ ہونے کا بڑے عزم وتکبر سے دنیا بھر میں مانا جاتا تھا اندرونی طور پر پورے دیش کو سیاسی وقار کی بلندیوں سے ایسا نیچے گرا دیا جیسے کبھی وہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی یہ بھارت کی شناخت بن چکی ہے آئے روز کے تشدد اور وحشت زدہ جنونیت نے جیسے پورے بھارت پر اپنا بھیانک اور خوف زدہ ڈراونا سایہ محیط کردیا ہو، آج کل بھارت میں یہ خوف زدہ صورت حال ہے کہ شام ڈھلنے سے پہلے دوردراز علاقوں کے علاوہ شہروں میں بھی رہنے والے بھارتی خصوصاً غیر ہندو اقلیتیں اپنے گھروں تک اگر بخیر پہنچ جائیں تو وہ خداکا شکر ادا کرتے ہیں خوف کیا ہے یہی کہ کہیں کوئی آرایس ایس یا اِس سے وابستہ کسی متشدد ہندو جنونی تنظیم کے غنڈے بدمعاش اُنہیں لوٹ نہ لیں یا اُن کی خواتین اور کم عمر جواں سال لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی نہ کربیٹھیں ہر نئے آبروریزی کے واقعہ کے بعد کوئی نہ کوئی نیا آبروریزی کا واقعہ رونما ہونا بھارت بھر میں عام ہوتا جارہا ہے بلکہ بعض واقعات میں کہیںیہ ’بلاتکار‘ اتنے سفاک ہوجاتے ہیں کہ کہیں کوئی اکیلی ہندو لڑکی اِنہیں مل جائے تو اُسے بھی منٹوں میں بے آبرو کرکے اُس کو قتل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے بھارت بھر میں ہر ریاست میں پولیس سرکار کی آر ایس ایس کی ذاتی ملازم معلوم ہو نے لگی ہے ’بھارت ‘گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کے لئے نریندرمودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ایک ابدی آزمائش بنتا جارہا ہے جہاں ہر 23 منٹ میں ایک عورت کے ساتھ زبر دستی عصمت دری کی جاتی ہے عصمت دری کے اِن واقعات میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ متذکرہ بالا نکات کی روشنی میں پولیس کا بروقت جائے واردات پر نہ پہنچناہے، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہر ریاستی پولیس کے افسر وجوان تک آر ایس ایس اور اِسے جڑی جنونی ہندو تنظیموں سے کتنے خوف زدہ رہتے ہیں، بھارتی پولیس نے بے حسی کا جیسا رویہ اپنایا ہوا ہے ویسا ہی سخت گیر رویہ بھارتی سرکار کا بھی ہے موجودہ پیش منظر میں ایک سے ایک دس نمبری ‘ جس پر قتل اور آبروریزی کے کئی کیس بنے ہوئے ہیں، وہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے رکن ہیں اِن میں سے جس کسی کے ماضی کو ٹٹولیئے تو معلوم ہوگا وہ تو عادی مجرم ہے ،جس نے اپنی زندگی میں کبھی خدا اور انسانوں کے بنائے ہوئے مہذب ومتمدن اخلاقی اصول وپاسداری کا کوئی ایک صفحہ تک نہیں پڑھا، اگر پڑھ لیتے تو وہ مجرمانہ ذہنیت کی راہ پر چلنے کی بجائے اپنی اخلاقی سمتوں کی معقول انسانی راہ اختیار کرسکتے تھے چونکہ آر ایس ایس اور اِس سے جڑی دیگر ہندو متشدد تنظیموں نے کبھی اِنہیں یہ بتایا ہی نہیں، کہ تشدد پسند رویہ لایعنی اور مبہم ہوا کرتا ہے، آر ایس ایس اور اِس سے جڑی ہوئی متشدد جنونی ہندو تنظیمیں اِس نکتہ پر کبھی متحد ہونا تو کجا یہ کبھی مانیں گی نہیں کہ بھارت میں قانون و آئین کی اخلاقی قوانین پر عمل کرنا ضروری ہو ، کیونکہ  انسانی حقوق سے متصادم دنیا کے کسی بھی ملک کا آئین بشمول بھارت کے نہیں بنا، سب انسانی حقوق کو تسلیم کرتے ہیں، مگر نریندر مودی کی سرکارآئین کو کب ما نتی ہے؟ جبھی تو وہ سامراجی عزائم اور اپنی فوجی طاقت کے ہوس دیدہ نشے میں مست بھارتی قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے نتائج سے بالکل بے خبر ہیں، آر ایس ایس کا ہر رکن یہ سمجھتا ہے کہ بھارت میں آباد ہر اقلیتوں کے خواتین کی آبروؤں کو کچلنا اُس کا حق ہے، چونکہ وہ اُونچی ذات کا ہندو ہے بڑا زعم وتکبر ہے بھارت کے اونچی ذات کے ہندؤ جونینوں کو ‘ کچھ خبر بھی ہے نئی دہلی سرکار دربار کو کہ دیش میں ’جنسی لذتوں کے خواہش مند آر ایس ایس کے غنڈوں کے غول کے غول نکل پڑے ہیں، جو بھارتی سامراج کے اخلاقی تانے بانوں کو منتشر کرتے پھر رہے ہیں جنہیں لگام دینے والا کہیں دکھائی نہیں دیتا پونا میں ایک پاکستانی ہندو بچی کے ساتھ کی جانے والی عصمت دری کی کھلی دیدہ دلیر واردات کا اہلِ پاکستانیوں نے بڑا سخت احتجاج کیا جس کے ساتھ ایک گائیڈ مجرم ’آنند ‘ نے بہیمانہ عصمت دری کی جسے زبردستی پہلے اغواء کیا گیا، پھر اُس پر تشدد کرکے اُس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پاکستان واپس جاکر ’را‘ کے لئے کام کرئے جب اُس پاکستانی بچی نے ا نکار کیا تو اُس کی بیش بہا قیمتی آبرو لوٹ لی گئی، بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن کے بار بار مطالبہ کے باوجود کوئی کوئی کارروائی نہیں کی گئی پونا پولیس نے زیادہ دباؤ پڑنے آنند کی گرفتاری سے قبل از ضمانت اُس کی ضمانت قبول کرلی ؟ جبکہ معصوم بچی کو بے آبرو کرنے کے بعد اُس قتل کردیا گیا تھا یوں مقتول کے خاندان کو نیچا دکھانے کے لئے را حکام کی براہ راست مطالبے پر پونا پولیس کی طرف سے صرف عصمت دری کا مقدمہ درج ہوا یہ انتہائی بہیمانہ واقعہ اُن کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے جو پاکستان سے اپنی جوان بچیوں کے ہمراہ آئے دن بھارت جانے کے لئے ‘ وہاں اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لئے‘ یا بھارت میں قائم مزارات کی زیارت کرنے کے لئے جاتے ہیں آر ایس ایس کے جنونی ہوس ناک غنڈوں کے نزد یک پاکستان سے آنے والے ہر فرقہ اور مذہب کے مثلاً پاکستانی ہندوؤں اور سکھ خاندانوں کو بھی اب پہلے سے زیادہ چوکنا ہونا پڑے گا، ہر دم اُنہیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہونگی غیر ملکی خواتین سیاحوں پر حالیہ جنسی حملوں کی جو تفصیلات بی بی سی نے جاری کیں وہ یہاں ہم اپنے قارئین کے لئے پیش کرتے ہیں وہ دیکھیں کہ بھارت میں گزشتہ چند برسوں کے دوران اب تک کتنے شرمناک واقعات رونما ہوچکے ہیں 7اپریل، 2014 کو دو نوعمر کی بھارتی لڑکیوں کو آگرہ میں مختلف مقام پرعصمت دری کا نشانہ بنایا گیا 15 جنوری 2014 کو ایک 51 سالہ ڈینش سیاح کی اجتماعی عصمت دری کی گئی 19 مارچ 2013 کو ایک برطانوی خاتون مسافر کی عصمت دری کی کوشش کرنے پر جب وہ ناکام رہے تو ہوٹل کے مالک نے اُس لڑکی پر الزام لگادیا کہ اُس نے ہوٹل کی بالکونی سے چھلانگ لگاکر فرار ہونے کی کوشش کی تھی، 15 مارچ 2013 کو ایک جنگل میں اپنے شوہر کے ساتھ کیمپنگ کرنے والے ایک سوئس جوڑے کی خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کا واقعہ ہوا ،20 جنوری 2013 کو ایک شادی شدہ عورت کو عصمت دری کرنے کے بعد بیچ دیا گیا وہ پولیس حکام کو رپورٹ کرنے کیلئے گئی بھی تھی اسے دوماہ پہلے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا 16 دسمبر 2012 کو ایک طالب علم لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور بس پر جبکہ اس کے ساتھ اُس کا منگیتر بھی موجود تھا جس نے اپنی بیوی کو بچانے کی کوشش کی تو اُسے بڑی بیدردی کے ساتھ مارا پیٹا گیا یوں لڑکی کے منگیتر اُس کی آنکھوں کے سامنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اُس نے مر تے دیکھا جبکہ یہ واقعہ تو عالمی شہرت پاچکا ہے کہ 16 دسمبر 2012 کو بھارت کے دار الحکومت دہلی میں ایک طالبہ کو’ جیوتی سِنگھ پانڈے‘ اور کے اُس کے ساتھ بعض اوباش نوجوانوں نے عوامی بس میں اُس لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی اور اُسے سڑک پر پھینک دیا، جس کے سبب لڑکی کے پوشیدہ اعضاء میں زبردست چوٹوں اور شدید پھٹن کے سبب اُسے سنگاپور شفاخانہ میں داخل کیا گیاجہاں 29 دسمبر کو اُس معصوم لڑکی کا انتقال ہوگیا’’ اب لکھنے کی کوئی تاب ہے نہ سننے کا کوئی حوصلہ‘‘!!

 

 

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top