حسین حقانی ٹائپ کے کچھ مشکوک کردار۔ ادھر بھی ہیں !!
Posted date: May 06, 2015In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
آپ نے دیکھے ہونگے اکثر ایسے لوگ جو زندگی کی نہایت حقیر ‘ جلد اختتام پذیر ہوجانے والی دنیاوی آسائشوں سے متمتع ہونے کے لئے ہمیشہ جوڑ توڑ، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی غرض سے اُن سے آگے نکلنے کے لئے بڑی حقیر تگ ودو کرتے ہیں، آپ اُنہیں مرتے دم تک اِن ہی گھٹیا حرکات میں مبتلا پائیں گے یہ لوگ ’نایاب ‘ نہیں ہوتے بڑی کثرت کے ساتھ ہمارے معاشرے میں ہر جگہ ہر مقام پر پائے جاتے ہیں جبکہ سیاست کے میدان میں تو اِن کا جمعہ بازار لگا ہواہے چرب زبانی اِن کا سب سے بہترین اور کار آمد ہتھیار ‘ چاپلوسی ‘ دوغلا پن ‘ پل بھر میں اپنے ہی کہے ہوئے لفظوں سے پلٹ جانا اور خاص طور پر اپنی ذاتی اہمیت و افادیت کو سروں پر حاوی کرنا اِن کے وہ اسلحے ہیں جن کے ذریعے یہ حکومتی عہدوں پر فائز اتھاریٹیز کو دیکھتے ہی دیکھتے زیر کرلیتے ہیں پاکستان میں ایسوں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران کراچی کا ایک شخص ’حسین حقانی ‘ اور اُس کے گھناونے کردار نے بدی اور بُرائی کے جھنڈے گاڑنے میں ہر کم تر اور ناپسندیدہ شخصیت کو پیچھے چھوڑ دیا ،یہ شخص صاحبِ اختیار ہونے کے باوجود ہمیشہ اپنی آسائشوں کا قید رہا اپنے وقت کا لاجواب عیار و مکار ہونے کے باوجود نجانے کیسے چانکیائی سیاست کے پیروکاروں نے اِس شخص کی آزادی سلب کرلی یہ شخص آج بھی زندہ ہے آج بھی بول رہا ہے کل جب کراچی جامعہ میں یہ طالبِ علم ہوا کرتا تھا اُس زمانے میں اسلامی جمیعتِ طلباء کے اہم اور ذمہ دار عہدیداروں میں حسین حقانی کا بہت نمایاں مقام تھا اُس پورے عہد میں اِس کی زبان سے بھارت کے لئے شعلے نکلتے تھے نظریہ ِٗ پاکستان کا کلمہ دن رات پڑھا کرتا جمعیت کے اِس کارکن اور ذمہ دار عہدیدار نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں بڑی اونچی اونچی چھلانگیں لگائیں دیکھتے دیکھتے یہ شخص حسین حقانی نواز شریف کا ہم نواء بن گیا یہ ایک طویل گھٹیا داستان ہے کیا سنائیں سب بخوبی جانتے ہیں دنیاوی آسائشوں سے متمتع ہونے کے لئے حقانی نے کیا کیا نہیں کیا امریکا میں پاکستان کا سفیر متعین ہونا کوئی معمولی بات نہیں وائے حیرت اور مقامِ تعجب یہ شخص ’ہزایکسی لینسی ‘ بھی بن گیا یاد رہے کہ یہ بظاہر ’ہزایکسی لینسی ‘ ضرور بنا ہوا دکھائی دیا ،لیکن اِس کے اندر چھپے ہوئے ’چھوٹے قد کاٹھ ‘ کے ’بُرے کردار ‘ کے آدمی کو یہ مار نہیں پایا آج اندرونی طور پر پاکستان امریکی اور مغربی دنیا کے بدنام ترین جاسوسوں کے جس نرغے میں پھنسا ہوا ہے یہ کیا دھرا حسین حقانی کا ہے مشکوک ماضی ‘ مشکوک حال اور مشکوک مستقبل کے حسین حقانی آجکل امریکا میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف اپنے امریکی اور بھارتی آقاؤں کی مرضی ومنشا کے لیکچرز دے رہا ہے، امریکی اور برطانوی اخبارات میں اِس کے پاکستان مخالفت میں لکھے گئے مضامین کی گھٹیا سیریز شائع ہورہی ہیں، اپنے زمانہ ’ہزایکسی لینسی ‘ میں اِس نے سیاسی اور سماجی طور پر اور اقتصادی لحاظ سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے کئی سو جاسوسوں کو سفارتی روپ میں پاکستان کے ویزے جاری کیئے تھے مشکوک ماضی کے حامل اِس حقانی نے گز شتہ ماہ اپریل کے پہلے ہفتے میں رائل انسٹی ٹیوٹ ، چیٹہم ہاؤس لندن میں منعقد ہ ایک سمینار میں اپنا لیکچر دیا جس میں عہدِ حاضر کے اِس میر جعفر نے اپنی ہی مادرِ وطن کے نظریاتی اصولوں کی دھجیاں اُڑائیں اور مقبوضہ کشمیر کے اہم مسئلے کو اہلِ کشمیر کا انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں قرار دیا بلکہ غداری کی حد کردی کہ مسئلہ ِٗ کشمیر کی موجودگی کے بغیر پاکستان (خدانخواستہ ) کا وجود نہیں ہے غالباً کیا یقینی طور پر حقانی یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ پاکستان نے اپنے قیام کی بنیادمسئلہ ِٗ کشمیر پر استوار کررکھی ہے آپ نے ملا حظہ فرمایا چاہے آپ کسی پر اعتماد کرکے اُسے سونے میں لادھ دیں اگر وہ کم ظرف ہوگا، تو یقیناًایسا وہ شخص بزدل بھی پَرلے درجے کا ہوگا افسوس صدہا افسوس! آجکل حسین حقانی طوطے کی طرح بھارتی اسٹبلیشمنٹ کی زبان بول رہا ہے، چونکہ وہ ایک عرصہ سے بھارت کے پے رول پر ہے اِس میں کسی کو کوئی شک بھی نہیں ہے وہ پیسے کی لالچ میں اور طاقت کے سامنے کب کا اپنی حب الوطنی کا سودا کرچکا ہے یہاں ہمیں اِس سے کوئی غرض نہیں کہ وطن کے خلاف کون بول رہا ہے وہ شخص جسے پاکستان نے بے انتہا عزت افزائی کے قابل سمجھا تھا اُس پر بے پناہ اور بڑا عظیم احسان کیا تھا امریکا جیسے دنیا کے بڑے ملک میں اپنا ترجمان بناکر حقانی کو پاکستان نے اُس اہم عہدے پر لا بٹھلایا تھا اب اُس کا یہ کہنا اہلِ پاکستان کے نزدیک قابلِ مذمت اقدام ہے کہ’ پاکستان کشمیر کے معاملے پر اپنے اُصولی مدعا میں تبدیلی کرئے ‘حسین حقانی اور اِس قبیل کے گروہوں کی پاکستان میں بیرونِ ملک بھی کوئی کمی نہیں ‘ کئی ملکی لابیاں غیر ملکی لابیوں کے الحاق سے فنڈز لیتی ہیں پاکستان کو ’فلاحی ملک ‘ بنانے کی آڑ میں پاکستان پر وہ بھارت کی بالادستی کے لئے اپنے اپنے مختلف طریقہ ِٗ واردات سے مسلسل سرگرمِ عمل ہیں، اِن میں بیگمات وکلاء گروہ ہیں چند ایک نامی گرامی عالمی شہرت رکھنے والے یونیورسٹی کے استاد ہیں جو عقل وفکر کو پُرفریب انگریزی لفظوں کے دلکش پیرائیوں اپنا گرویدہ بنانے کا یدِ طولیٰ رکھتے ہیں اُن کا کوئی اور کام نہیں پاکستانی اٹیمی اثاثوں پر وہ اپنی نظرِ بد جمائے اپنی ہی خواہشاتِ نفس کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں، کوئی دن نہیں جاتا جب وہ امریکا و مغربی دنیا کو پاکستان کے اٹیمی اثاثوں کے خوف میں کپکپائے رکھتے ہیں ایسی قبیل کے لکھاریوں اور دانشوروں کو آپ تنہا نہ سمجھیں اِنہیں ملکی جمہوری سیاسی قیادت کے اندر سے بعض ’سیاسی طاقت وروں ‘ کی پشت پناہی یقیناًحاصل ہوتی ہے ایسے’ استاد ‘ڈاکٹروں اور حقانی جیسے وقتی ’چر ب زبانوں ‘ کو ملک کے بعض بڑے میڈیا ہاؤسنز کی بھی آشیر باد ملی ہوئی ہے آپ یقیناًیہ سوال کریں گے آخر ہم ایسے چھوٹے اور گمنام لکھنے والے اِن ’اژدھوں ‘ کے پیچھے ہاتھ دھوکر کیوں پڑ گئے چھوڑیں اِن کو ‘ یہ جانیں اور اِن کا کام ‘واقعی ہم اِن کو اِن کے بُرے حالوں پر چھوڑ دیتے اگر یہ صرف پاکستانی جمہوریت کی اصلاح کرنے اور ملک سے کرپشن کو ختم کرنے جیسے بنیادی سماجی اُمور کی جانب اپنی عقلی وفکری صلاحتیں صرف کرتے یہ سب کے سب چاہے حقانی ہوں یا بیگمات وکلاء گروہ سے اِن کا تعلق ہو یا کسی یونیورسٹی کا کوئی نامی گرامی ’استاد ‘ڈاکٹر ہو یہ سب آجکل ملک کی قومی سلامتی کے لئے کئی نوع کے خطرناک سوالات بنتے جارہے ہیں جبکہ اِن کا کوئی علاج نہیں ہے، چونکہ کسی بھی عوامی اجتماع میں یہ علیحدہ پہنچانے جاتے ہیں اِن سے پُر تپاکی سے ملنے اِن سے ہاتھ ملانے (شیک ہینڈ) کرنے کے خواہشمند اِ ن سے ملتے ہی یہ سوال داغ دیتے ہیں کہ’ ’سر! یہ بتائیے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا ٹوٹل کنٹرول عوامی قیادت کے ہاتھ میں کب آئے گا ؟‘‘ پاکستانی فوج اِن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کل بھی کھٹکتی تھی آج بھی کھٹکتی ہے جب تک پاکستان کی فوج کا کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم مستحکم اور نیک نیت عسکری قیادت کے ہاتھوں میں ہے اِن کی راتوں کی نیند اُڑی رہئیں گی، اسلام آباد سے امریکا اور برطانیہ تک پاکستانی فوج کا یہ خوف قائم ہے تو ’کیا پِدی اور کیا پِدی کا شوربہ‘ بھارت کے وزیر اعظم ‘ نریندر مودی کی ہندوتوا کی جنونیت کو جنوبی ایشیا میں بڑھاوادینے میں حقانی ٹائپ کے گروہ اُس کے کچھ کام نہیں آسکتے۔