طالبان اور داعش خوارج ہیں۔۔۔امام کعبہ ڈاکٹر خالد الغامدی
طالبان اور داعش خوارج ہیں۔۔۔امام کعبہ ڈاکٹر خالد الغامدی
ایس اکبر
امام کعبہ ڈاکٹر خالد الغامدی نے طالبان اورداعش دہشت گردوں کے بارے میں فتویٰ دیا ہے کہ یہ دورِ حاضر کے خوارج ہیں ۔انھوں نے کہا کہ اسلام نے واحدت کا درس دیا ہے ۔ سعودی ہو یا ایرانی سب قرآن وسنت پر متحدہو جائیں کیونکہ دشمن اسلام عالمِ اسلام کو متحد نہیں دیکھنا چاہتااسی لیےمسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانے کی حتی الوسع کوشش کی جارہی ہے۔مسلمان قرآن وسنت کے علمبردار ہیں لہذا وقت کی اشد ضرورت ہے کہ مسلکی تعصبات سے بالا تر ہو کر اسلام کی سربلندی کے لیےمتحد ہو جائیں۔اسلام میں تعصب اور منافرت کی کوئی گنجائش نہیں۔بعض لوگ تشدد کے ذریعے دینِ اسلام کے تشخص کومسخ کررہے ہیں۔اسلام دشمن قوتیں دینِ اسلام کو متشدد مذہب کے طور پر پیش کرتی ہیں حالانکہ اسلام رحمت اور درگزر کا دین ہے جو کسی کو زبردستی داخل ہونے پر مجبور نہیں کرتا ۔معشیت سمیت تمام معاملات میں قرآن وسنت سے رہنمائی لی جائے۔اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں اور تفرقے میں نہ پڑیں۔مغرب کی طرف سے اسلام پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو تشدد پر اکساتا ہے۔ان کے مطابق اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے اورجہادی نظریہ اس کی واضح علامت ہے۔جبکہ ایسابالکل نہیں ہےیہ تاریخ مسخ کرنے والے اعتراضات ہیں۔اگرآپ اسلام کی تاریخ پر سرسری سی نظر بھی ڈالیں تو احساس ہوگا کہ آغاز ہی سے اسلام کی روشنی دنیا کے کونے کونے میں پھیلنا شروع ہوئی۔پھرموجودہ مشرقِ وسطی سے لے کر یورپ،افریقہ اور سینٹرل ایشیا تک مسلمان سلطنتیں قائم ہوئیں۔اگر ہر طرف اسلام کا ڈنکا بجنے لگاتو اس عروج میں بنیادی عنصر مسلمان کا اپنا کردار تھا۔مسلمان جہاں جہاں گئے وہاںاپنے ساتھ سچائی ،احترام انسانیت،ایمان داری ،انصاف،مساوات،حیا،محبت ،فراخدلی اورخداترسی کاپیغام لے کر گئے۔مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جہاں کہیں گئےچند صدیوں میں اکثریت بن گئے۔انہوں نے اپنے مثالی قول وعمل اور کردار سے دوسروں کو بھی متاثرکیا۔
گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کی اذیت ناک لہر نے امتِ مسلمہ کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص بدنام کر رکھا ہے۔ دہشت گردوں کی طرف سے مسلح فساد انگیزی، انسانی قتل و غارت گری،ملک بھر کی بے گناہ اور پُرامن انسانی آبادیوں پر خودکش حملے، مساجد، مزارات، تعلیمی اداروں، بازاروں، سرکاری عمارتوں، دفاعی تربیتی مرکزوں، سفارت خانوں، گاڑیوں اور دیگر پبلک مقامات پر بم باری جیسے انسان دشمن، سفاکانہ اور پہیمانہ اقدامات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ دہشت گرد آئے دن ہزاروں معصوم جانوں کے بے دریغ قتل اور انسانی بربادی کے عمل کو جہاد سے منسوب کر دیتے ہیں اور یوں پورے اسلامی تصورِ جہاد کو کی غلط تشریح کرتے رہتے ہیں حالانکہ اسلامی ریاست کے خلاف دہشت گردوں کی طرف سے کی جانے والی خونریزی کو ہر مکتبۂ فکر کے علماء نے ہمیشہ روکا ہے اور اسے خلافِ شریعت قرار دیا ہے۔ دورِ جدید کے معروف علماء نے بھی اپنے فتاویٰ کے ذریعے مسلمانوں کی خونریزی کوقرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف مسلح کاروائیوں سے مسلم ریاست میں ترقی و امن کا ماحول شدید متاثر ہوتا ہے اسی لیے آپﷺ نے ہر اُس راستے کو مسترد اور ہر اُس دروازے کو بند کر دیا جس سے مسلمانوں میں ذہنی انتشار پھیلے اور اُن کے گھروں اور ذہنوں کا امن و سکون تباہ ہو۔ بے شک امن و سلامتی میں تعمیری پہلو ہے اور شدت و جبر میں تخریبی۔جبکہ دین میں شدت دنیاوی امور میں شدت سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ اس لیے آپﷺ نے فرمایا کہ “دین میں انتہا پسندی سے بچو کہ پہلی قومیں اسی کی بناء پر تباہ ہو گئیں۔” اسی لیے آپﷺ نے نام نہاد مجاہدین کے رویوں اور نشانیوں کو بھی واضح طور پر بیان فرما دیاتاکہ کہیں یہ فتنہ پرور لوگ خدا کے نام پر مسلمانوں کو اپنی شدت پسندی کا شکار نہ بناتے رہیں۔ آپﷺ نے ایسے شدت پسند مسلمانوں کے گروہ کو “خوارج” کا نام دیا تاکہ مسلمان ان کے خلاف صف بستہ ہو کر ان کے ناپاک اور گھناؤنے عزائم کو ملیا میٹ کر سکیں۔ آپﷺ نے خوارجین کی چند نشانیاں بھی بتائیں تاکہ تا قیامت مسلمان ان کو اپنی صفوں سے الگ کر سکیں اور ان کے خلاف اپنا دفاع کر سکیں۔
رسولﷺ کے فرامین کے مطابق خوارج کا نعرہ عامتہ الناس کو حق محسوس ہو گا۔ خوارج عامتہ الناس کو گمراہ کرنے اور ورغلانے کے لیے بظاہر اسلام کا نعرہ بلند کریں گے لیکن ان کا یہ نعرہ اور عبادت گزاری درحقیقت امت مسلمہ میں مغالطہ، ابہام اور انتشار پیدا کرنے کے لیے ہو گا جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “وہ (خارجین) لوگوں کے سامنے (دھوکہ دہی کے لیے) اسلامی منشور پیش کریں گے۔” یعنی ان کے مذہبی نعروں کے پیچھے ان کے مذموم مقاصد ہوتے ہیں جن کی وجہ سے انہیں بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے تاکہ لوگ ان کے نعروں سے بظاہر گمراہ نہ ہوں۔ موجدو دور کے خوارج (دہشت گرد) بھی انہی صفات سے متصف ہونے کی بنا پر پہچانے جاتے ہیں۔ یہ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح بے گناہوں کا خون بہاتے ہیں، خواتین اور بچوں پر حملے کر کے انہیں اذیت ناک موت دیتے ہیں، ریاستی بالادستی اور نظام کو تسلیم نہیں کرتے، مساجد پر حملے کر کے انہیں مسمار کرتے ہیں، آبادیوں اور عوام الناس کو اپنے حملوں کا نشانہ بناتے ہیں اور لوگوں کو ذبح کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ لوگ اپنے نظریات کے مخالف بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے اور تباہی پھیلانے کو جہاد سمجھتے ہیں۔ یہ تمام انسانیت کُش کاروائیاں بلا شک و شبہ ان خوارج کے فکر و عمل کا ہی تسلسل ہے۔
امام کعبہ کا موجودہ فتویٰ کہ یہ تمام دہشت گرد خوارج ہیں کسی بھی ذی ہوش کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔یہ دہشت گرد انسانیت اور اسلام دشمن عناصر ہیں جو صرف اور صرف اسلام کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں ۔تمام مسلمانوں کا اتحاد اور اتفاق ہی ان کو ملیا میٹ کر سکتا ہے۔
[/urdu]