Posted date: June 01, 2015In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
بھارت کے مشرقی پنجاب میں سکھوں کے ساتھ ’ہندتوا‘ کا جنونی تعصب کوئی نئی بات نہیں رہی ‘ چونکہ تقسیمِ ہند کے فوراً بعد متعصب اور انتہا پسند ہندو قائدین کو سب سے زیادہ خطرہ مسلمانوں کے بعدسکھوں سے درپیش تھا، تقسیمِ برصغیر کی تاریخ پر غیر جانبدار نکتہ ِٗ نظر رکھنے والے کہتے اور یہ مانتے ہیں کہ اکھنڈ بھارت کے جنونی داعیوں نے سکھوں کی نسل کشی کے منظم منصوبے اپنے مکروہ ذہنوں میں بہت پہلے سے بنارکھے تھے ، اُن پر باقاعدہ عمل در آمد کرنے کے لئے وہ وقت کے منتظر تھے کہ اُن بہیمانہ اور انسانیت کش منصوبوں پر کیسے عمل در آمد کیا جائے وقت کے ساتھ ساتھ سکھ قوم کو بھی احساس ہوتا گیا کہ مکار صفت ہندو قائدین نے اُن کے ساتھ بہت ہی بڑا دھوکہ کیا جو وعدے کیئے پورے نہیں کیئے گئے بلکہ اُن کے بنیادی حقوق نئی دہلی سرکار نے ’بحقِ سرکار ‘ ضبط کرلیئے ہیں، سکھوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی خونریز لہر بھارت کی ’آئرن لیڈی وزیر اعظم ‘ جس کا ’مائنڈ‘ لوہے سے زیادہ سخت قسم کا تھا ووظالم وسفاک خاتون یقیناًاپنے سینے میں ’سیسہ پلایا ہوا دل ‘ رکھتی ہوگی ’قہر ‘ کی یہ دیوی ،جوہمہ وقت غضب ناکی کی زہریلی کیفیتوں سے سرشار نجانے اور کتنی بربریت کی دلداہ رہی ہوگی اِس اندراگاندھی کے زمانہ ِٗ اقتدار میں مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف ریاستی تشدد اپنی بدترین ظالمانہ انتہا تک پہنچ چکا، اندر اگاندھی نے سکھوں کی حریّت پسندی لیڈر شپ کو ختم کرنے اور سکھوں کی جائز ’خالصتان تحریک ‘ کا خاتمہ بالجبر کرنے کے لئے ’را‘ کو ایک مقررہ ٹائم کا ٹاسک دیدیا اور اُسے کھلی چھوٹ دیدی گئی کہ جیسے ’را‘ نے 1971 میں ’سقوطِ مشرقی پاکستان‘ کا انسانیت کش منصوبہ بنایا تھا، اُس منصوبہ کو عملی شکل دی تھی جس کے نتیجہ میں اقوامِ متحدہ کے باقاعدہ رکن آزاد وخود مختار ملک پاکستان کو یک لخت دو ٹکڑے کردیا گیا اور عالمی’ نام نہاد منصفین ‘غفلت کی نیند سوتے رہے اِسی طورطریق کو 1984 جون کے پہلے ہفتے میں نئی دہلی سرکار نے اپنی قہر کی دیوی وزیر اعظم کے ایک اشارے پر سکھوں کی جائز تحریکِ آزادی کی بیخ کنی کے لئے ‘اُن کی قتل وغارت گری کے لئے ‘ یہ ہی نہیں بلکہ اُن کے مذہبی و ثقافتی کلچر کی تضحیک اور بے حرمتی کے لئے اپنا جو سریع الحرکت منصوبہ بنایا جب وہ منصوبہ اُس کے سامنے رکھ گیا تو اُس کی آنکھوں میں ایک خود غرضانہ مگر ‘انتہائی سفاکانہ روشنی ایک چھپکا سا پیدا ہوا، اُس کے سپاٹ اور لوہے جیسے چہرے پر بربریت کے خون آشام آثار صاف دکھائی دینے لگے یہاں پر ایک اور شخص کا تذکرہ کیئے بغیر اپنی بات کو ہم آگے نہیں بڑھا سکتے ’را‘ کا بدنامِ زمانہ چیف آر این کاؤ ہمیں یقین ہے، دنیا کے غیر جانبدار اور امن کے سچے پاسدار سیاسی دانشور و محقق جنہیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ’سازشانہ محرکات اور ا سباب ‘ کی جزئیات کا تاریخی ادراک ہے اُن کے ذہنوں میں آج تک ’را‘ کے اِس سربراہ کا نام کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہو گا جو مکتی باہنی کے نظریئے کا بانی ‘مکتی باہنی کو آسام اور کوکلتہ کی گنجلک سرحدوں سے باآسانی مشرقی پاکستان میں بھیجنے والا یہ شخص جب تک اندرا گاندھی بھارتی اقتدار کے سنگھاسن میں رہی اُس کے جوتے چاٹتا رہا، جون1984 میں جب اندراگاندھی نے سکھوں کو ذلت آمیز طریقے اور غیر انسانی ہتھکنڈوں اور سفاکانہ حربوں کو استعمال کر کے ملیامیٹ کرنے کا آخری تباہ کن فیصلہ کیا تو اُس ضدی اور ہٹ دھرم عورت نے اپنی سیکنڈ اینڈ کمان اِسی آر این کاؤ کو سونپ دی تھی ’را‘ نے اپنی ہی ایک اور بغلی جاسوسی تنظیم ’تھرڈ ایجنسی ‘ کے ساتھ مل کر بھارت کی زمین سکھوں کے لئے تنگ کردی کیا ہے بھارتی جمہوریت؟ جو کبھی سیکولر ہوجاتی ہے کبھی خالص ہند و جاتی پر یقین رکھنے والی جمہوریت بن جاتی ہے بھارتی’ جمہوریت‘ کے نام پر کانگریس نے اقلیتوں پر کم مظالم نہیں ڈھائے ماضی کا ولبھ بھائی پٹیل ‘یہ وہ شخص تھا جس نے برصغیر کی تقسیم پر سخت برہمی اور ناراضگی کا سارا غصہ بھارت بھر کے مختلف علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں پر نکالا تھا یہ سچے واقعات بڑے خونریزاور المناک ہیں لیکن تاریخ نے اِن واقعات کو اپنے اوراق میں آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کرلیاہے ماضی کا ولبھ بھائی پٹیل جیسا کوئی سفاک قصائی ہو یا اندرا گاندھی کے
اقتدار کے خونی عہد ہو یا اکیسویں صدی کا قصاب نریندر مودی ہو، جو گجرات کی وزارتِ اعلیٰ کے عہدے آج دیش کا وزیر اعظم بناہوا ہے، اِن سب ہندو قائدین کی اندرونی وبیرونی ’سائیکی ‘ میں غیر ہندوؤں کے لئے زہریلی نفرتوں کے آلاؤ ہمیشہ دہکے ر ہے اِن سب کا مافی الضمیر ایک ‘ سب کے سینوں کے اندر ’بھاجپا‘ کی ازلی متعصبانہ تپش ہمیشہ محسوس کی جا تی رہی ہے ’بھاجپا‘ کے قیام کے لئے کوئی ہندو نہ سیکولر ہے نہ اعتدال پسندوہ کوئی عام ہندو ہو یا خاص ہندو ‘وہ کوئی سیاسی کارکن ہو یا لیڈر وہ آج کے بھارت کا لیڈرہو یا ماضی کے بھارت کا ‘ اِن کے مقابل کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کی کبھی کوئی حیثیت نہیں‘ عام انڈین لیڈر تو رہے اپنی جگہ نامی گرامی بھارتی قائدین نے غیر ہندوؤں کے ساتھ نہ ماضی میں عدم برداشت کا اپنا رویہ اختیار کیا آج تو وہ کھلے عام کہہ رہے ہیں بھارت میں نہ مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ ہے نہ ہی عیسائی اورسکھوں کے لئے‘ یہ دنیا کے لئے کوئی نئی بات نہیں کون نہیں جانتاکہ 95 برس قبل ہندو جنونی تہذیبی قومیت کی آڑ میں سنگھ پریوار سے ایک قدم آگے بڑھ کر بھارتیوں نے ’ہندوتوا‘ کی وحشیانہ تبلیغ کی جب پشت پناہی کرنا شروع کی تو کانگریس جماعت نے اُن ہی ابتدائی دنوں میں’ سیکولرازم‘ کی آڑ لے کر باہم یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ دنیا کو دکھانے کے لئے بھارت میں سیاسی جماعتوں کے مختلف گروپس ضرور ہوں گے وہ اور سب کچھ کر یں مگر وہ ’ہندوتوا‘ کے نفرتوں پر مبنی فلسفہ سے اپنے آپ کو جدا نہیں کریں گے، اِن ہی متعصبانہ خطوط پر جون1984 کے پہلے ہفتے میں بھارتی سیاسی متھ کی کالی ماتا اندرا گاندھی نے مکارانہ سفاکیت کا مظاہرہ بڑی دیدہ دلیری کیا اُس کے اِن بے رحمانہ اقدامات پر انسانیت یقیناًہمیشہ بڑی شرمسار ر ہے گی اندرا گاندھی نے سکھوں کی عظیم عبادت گاہ ’گولڈن ٹمپل ‘ میں جدید اسلحوں سے لیس بھارتی فوج کو اتار کر تاریخی بربریت کے اُن وحشیانہ واقعات کو دوبارہ زندہ کردیا اور یہ تلخ حقیقت ثابت کردی کہ ’ہندوتوا‘ انسانیت دشمن عزائم کی ایک ایسی بہیمانہ علامت ہے جو کبھی اپنے سامراجی عزئم سے ٹس سے مس نہیں ہوسکتی ملاحظہ فرمائیے ’ اندرا ‘ نے کیسی ’چانکیائی‘ سیاسی چال چلی تھی کہ اُس وقت کے بھارتی صدر گیانی ذیل سنگھ کے ہوش اڑگئے اُنہوں نے اپنے آپ کو تشویش ناک ‘مگر‘ ’ابنارمل‘صورتحال میں گھرا ہوا پاکر اپنی سکھ قوم کے مذہبی ثقافتی شناخت کو تابوت جان کر اُس تابوت میں اُس لمحہ آخری کیل ٹھونک دی جب اُنہوں نے اپنے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی زندگی کے سب سے زیادہ بھیانک اور مکروہ حکم پر دستخط ثبت کیئے، جیسے اُنہوں نے اپنی موت کے بلیک وارنٹ پر سائن کیا ہوا مکروفریب ‘ عیاری مکاری کی سرتاپا پیکر اندراگاندھی اور اُس کے پالتو آر این کاؤ نے بھارتی سکھ صدر کو لمحہ بھر کی بھی مہلت نہ د ی جوبھارتی آئین کے تحت صدرِ جمہوریہ ِٗ بھار ت کی سراسر توہین مانی جائے گی بھارتی تاریخ میں پہلی بار صدارتی فرمان کی آڑ لے کر امرتسر میں دربار صاحب کے اندر قائم سکھوں کے مقدس مقام اکالی تخت کو بھارتی فوج نے راتوں رات سکھوں کے خون سے رنگین کردیا اندراگاندھی نے دربار صاحب میں سکھوں کا اجتماعی قتلِ عام کانگریس کی دم توڑتی ہوئی شہرت کو دوام بخشنے کی خاطر کیا یہ بہت تکلیف دہ اور سنگین سانحہ تھا جسے سکھ قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔