Posted date: June 15, 2015In: Articles|comment : 0
ناصررضا کاظمی
پاکستان مخالف جنونی ہندولابیوں کی گود کی پلی ہوئی بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کیا سمجھتی ہے وہ اپنی منتشرالخیال‘ متعصبانہ ہیجانی ذہنی کیفیتوں سے مغلوب‘ خالص مسلم بنگلہ دیش کے کروڑوں عوام کی مرضی کے خلاف بنگلہ دیش کو دنیا بھر میں مذاق بنارہی ہے، وہ صحیح اور ٹھیک‘ باقی دنیا کے انصاف پسند تجزیہ نگار غلط سوچ رہے ہیں آج نہیں تو کل یقیناًتاریخ فیصلہ ضرور کرئے گی کہ برسہا برس گزرنے کے بعد مشرقی پاکستان میں بھارتی سرکار کی سرپرستی میں کی جانے والی خونریز دراندازی کی وحشیانہ بربریت نے اقوامِ متحدہ کے ایک رکن ملک کے خلاف کیسے کیسے بہیمانہ ا قدامات کیئے، دنیا تماشا دیکھتی رہی‘ یوں ایک آزاد وخود مختار ملک بھارتی فوج کے ڈھاکہ میں اترنے کے بعد دولخت ہوگیا آج کوئی اور نہیں بلکہ خود بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی اعلانیہ کہہ رہا ہے کہ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی میں بھارت نے موثر کردار ادا کیا تھایہ ہی نہیں، بلکہ اُس وقت ’را‘ کی قیادت میں مکتی باہنی کے جو جنونی وحشی دستے آسام کے راستے مشرقی پاکستان میں داخل کرائے گئے تھے، اُن مسلح دستوں میں یہ مودی خود
میں خود بھی شامل تھا، یعنی مودی کہہ رہا ہے نئی دہلی حکومت نے 1971میں مشرقی پاکستان کی اندرونی سیاسی کشمکش کو ہوا دی ‘ مشرقی پاکستان میں ہونے والی سیاسی کشمکش سے نئی دہلی نے فائدہ اُٹھانے کے لئے ’را‘ کو خصوصی ٹاسک دیا جس میں نریندر مودی جیسے ’قصاب نما‘ جنونیوں نے سیاسی جدوجہد کو یکایک ’علیحدگی ‘ کی تحریک میں بدل دیا، نریندر مودی کے اعتراف کے بعد اب کوئی شک باقی نہیں رہا، اُس کا یہ کہنا کہ ’ہر بھارتی چاہتا تھا کہ بنگلہ دیش کا خواب حقیقت بنے‘ مسٹر مودی تم بالکل غلط کہہ رہے ہوہر ایک بھارتی نہیں بلکہ آر ایس ایس اور اِس سے ملحقہ متشدد جنونی ہندو تنظیموں کا ہر رکن اور ہر لیڈر پاکستان توڑنے کا وحشت ناک خواب دیکھ رہے تھے عام بھارتی یہ بالکل نہیں چاہتے تھے یہ تو وہ ہی بات ہوئی نا ’جیسے آج دنیا کے منصف مزاج حریّت پسند یہ کہنا شروع کردیں کہ بھارت میں جاری نکسل تحریک یقیناًاپنی آزادی کا ثمر حاصل کرلئے گی (یقیناًنکسل گوریلا قیادت اپنے بنیادی مقاصد ضرور حاصل کرلے گی) بہت زیادہ تکلیف ہوئی ہوگی یہ حقائق جان کر یا سن کر‘بنگلہ دیش کل بھی مسلم ریاست تھی آج بھی بنگلہ دیش کی مسلم شناخت کو نریندر مودی اور حسینہ واجد ٹائپ کے بوگس اور کاسمیٹک لیڈر جتنا زور لگا لیں ختم کرنا تو رہا درکنا؟ اُس کی حقیقت کو ’مدھم ‘ تک نہیں کرسکتے یہ لیڈر آتے جاتے ہیں ملک اور قوم ہمیشہ قائم ودائم رہتے ہیں بنگلہ دیش میں آج حسینہ واجد برسراقتدار ہے ،کل وہاں کوئی اور اقتدار میں آجائے گا، یاد رہے بنگلہ دیش کی ثقافتی ’کیمسٹری ‘آر ایس ایس کے جنونی ہندو لیڈروں سے بالکل نہیں ملتی، چاہے وہ آر ایس ایس کے ہوں یا بھارت کی کسی سیاسی جماعت سے اُن کا تعلق ہو،اتوار7 ؍مئی2015 کو ڈھاکہ میں بھارتی وزیر اعظم نے مروجہ عالمی اخلاقی سفارتی آداب کی دھجیاں یہ کہہ کر اڑادیں ’جب بنگلہ دیش کے آزادی کی لڑائی
لڑنے والے’ بنگلہ دیشی‘ اپنا خون بہا رہے تھے تو بھارتی بھی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کر رہے تھے‘ اس طرح نئی دہلی نے’ بنگلہ دیش‘ کے قیام کا خواب پورا کرنے میں اُن کی مدد کی ‘وزیر اعظم مودی نے یہ بھی کہا کہ 1971 میں جب بنگلہ دیشی آزادی کے جنگجوؤں کی حمایت میں دہلی میں ستیہ گرہ تحریک چلی تو ایک نوجوان رضاکار کے طور پر وہ بھی اس میں شامل ہونے کو آئے تھے‘ایک منٹ ہم یہاں رک کر اُن چندایک ملکی شخصیات کا تذکرہ ضرور کرنا چاہئیں گے جنہوں نے بزعمِ خود سینے ٹھوک کر ’فرینڈز آف بنگلہ دیش ‘ کی فہرست میں آنے پر فخر کا اظہار کیا تھا ،آر ایس ایس جیسی مسلم دشمن جنونی ہندو تنظیمیں1971 دسمبر میں پاکستان توڑنے اور بنگلہ دیش کے قیام کے لئے سرگرم تھیں اُس وقت کے متحدہ پاکستان کے اندر یہ وہ ’لوگ‘ تھے جو اندر سے آر ایس ایس کی ڈوریوں سے بندھے اُن کی آوازوں سے اپنی آوازیں ملا رہے تھے جس نے بھی وقت کو استاد کا درجہ دیا غلط نہیں دیا آج تک قوم کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کون سے ایسے گئے گزرے پاکستانی تھے جن کے دل آر ایس ایس والوں یعنی نریندرمودی جیسے ظالم وسفاک جنونیوں کے دلوں کے ساتھ دھڑک رہے تھے، 21 ؍اپریل2013 ‘مقام ڈھاکہ ‘ میزبان بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد ‘ تقریب بہ غرض ’فرینڈز آف بنگلہ دیش ‘ کے غیر ملکی حمائتی ‘جنہیں اُسی کینہ پرور طورطریقے کے ساتھ یہ ’ایوارڈز ‘ عطا کیئے گئے جنہوں نے پاکستان دشمنی کے یہ ایوارڈز وصول کیئے اُن لمحوں میں وہ اور زیادہ نخوت وتکبر کی علامتوں کا روپ دھار گئے اُن لوگوں کے نام ہم کیا لکھیں؟ اُنہیں سب جانتے ہیں وہ بڑے ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں،ہوسکتا ہے نریندرمودی کا یہ بدنام زمانہ اعتراف سامنے آنے کے بعد اُن میں سے کچھ شرم سے پانی پانی ہورہے ہوں؟ یہ ہے وقت کا انصاف‘ مسلمانوں کے لہو میں رنگے ہوئے رنگین ایوارڈ لے کر جب یہ واپس آئے تو بھی اِن کی گردنوں میں بھارت ساختہ سیسہ موجود تھا یہ بالکل نہیں مان رہے تھے کہ بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستان سے اُس کی علیحدگی میں ’را‘ یا بھارت کا کوئی ہاتھ تھا اِن کا جھوٹا اور لغو زورِ بیان اگر کچھ تھا تو وہ پاکستانی افواج کے خلاف زہر اگلتا ہوا سنائی دیتا تھا، نجانے راقم کو کیوں یہ خیال ہے؟ نریندر مودی اوراٹل بہاری واجپائی میں سے اگر کوئی یہ کہے کہ آپ کس کو بہترین سیاست دان سمجھتے ہیں تو میرا ووٹ واجپائی کی طرف ہوگا واجپائی آجکل عمر کے اُس حصہ میں ہیں جہاں دل سے نہیں سوچا جاتا، عقل کی بات مانی جاتی ہے آگرہ میں جنرل پرویز مشرف کو مدعو کرنا واجپائی کی سیاسی بصیرت کا پتہ دیتی ہے ،واقعہ کی تفصیل میں جانے کا یہ وقت نہیں، بتانا یہ مقصود ہے کہ جب آگرہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہوتے ناکام ہوگئے تو اِس کا و اجپائی صاحب کو بہت افسوس ہوا اُن سے چند دنوں بعد کسی نے سوال کیا ’شملہ معاہدے ‘ کے وقت وہ شملہ معاہدے کے خلاف تحریکیں چلا رہے تھے آج وہ خود پاکستان سے مذاکرات کررہے ہیں اور پاکستانی فوج کے جنرل سے ‘ تو واجپائی نے جواب دیا تھا ’شملہ معاہدے ‘ کے وقت میں ایک جوان جنونی سیاست دان تھا جوانی میں عقل وآگہی کے بجائے دل کی باتیں ذہن پر چھا ئی رہتی ہیں ،اُس وقت میں غلط تھا ‘بات آئی گئی ہوگی یہ بھی یاد رہے گجرات میں نریندرمودی کی قیادت میں ہزاروں مسلمانوں کا جب قتل عام ہوا ،سینکڑوں مسلم خواتین کی آبروئیں لوٹی گئیں تو واجپائی نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا ’ یہ نریندر مودی پاگل ہوگیا ہے اُس نے دنیا میں بھارت کو منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا‘ ہمارا دل کہتا ہے کہ نریندرمودی نے واجپائی کے نام سے ’بنگلہ دیش لبریشن وارآنر‘ کا جو ایوارڈ لیا ہے، اٹل بہاری واجپائی جیسا عقل بیں دانشور سیاست دان یہ قابلِ نفریں اور متنازعہ ایوارڈ وصول کرنے سے ہچکچائے گا ضرور!! ۔