Posted date: August 29, 2015In: Urdu Section|comment : 0
ناصررضا کاظمی
دنیا کی پے درپے ایک کے بعد ایک خواہشات و آرزوؤں کی رنگینیاں جنہیں ہم اپنی ضروریات سے متشابہ قرار دیں لیں تو کیا غلط ہے، انسان اگر اپنی چادر کے اندر رہ کر اپنی انفرادی اور اپنی اجتماعی معاشرتی فلاح وبہبود ‘ ترقی وخوشحالی اور دیگر ایسی ضروریات کے لئے تگ ودو کرئے، اپنے پاس پڑوسیوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیراِن انسانی ضروریات کے حصول کے لئے جدوجہد وسعی اور کاوشیں کر ئے تو بحیثیتِ انسان کے یہ ہمارا بنیادی حق بنتا ہے، بحیثیتِ انسان ہم اپنی سماجی ترقی وکمال کی بلندی کو چھونے کی جستجو کر یں ہماری انسانی عظمتوں کی فطری سرشت کا ضروری حصہ متصور ہوگا جبکہ دوسری جانب ایسا کچھ کرنے سے اگر کوئی ہمیں روکنے لگے گا، ہماری ترقی کے راستوں میں سازشی دشوریاں پیدا کرنے لگے گا، ہماری اجتماعی خوشحالی و استحکام کی راہوں میں کانٹے بچھانے لگے گا ، دنیا کی دوسری قوموں کی نظروں میں بلا وجہ ہمیں بطور قوم رسوا کرنے کے مذموم منصوبے بنانے لگے گا اور ہماری سیاسی ومعاشی راہوں میں اپنی مجرمانہ رکاوٹیں اور پیچیدہ و گنجلک الجھنیں پیدا کرنے کا وجوہ اور سبب بن جائے گا تو ایسوں کو ہم کس نام سے پکاریں ؟ معاشرتی و ثقافتی اور سیاسی واقتصادی علم وادب کی دنیا کے اربابِ فکرو دانش نے ایسے’’ انسان نما حیوانوں‘‘ کی کیا خوب تعریف کی ہے، کہ ایسے جنونی متشدد گروہوں کا تعلق مہذب ومتمدن معاشرے سے نہیں ہوتا وہ اپنی پیدائش سے پہلے دنیا میں آنے سے قبل موت کے اندھے اور گہرے کنویں میں جاگرتے ہیں اور اُن کے قیاسات ناقص ہوتے ہیں اور اُن کے عقائد کھوکھلے اور کمزور ہوتے ہیں لہذاء وہ ثقافتی کمال وترقی کی رفعتوں تک نہ کبھی پہنچ پاتے ہیں اپنے آپ کو نہ وہ عالمی جرائم سے الگ تھلگ رکھ پاتے ہیں چونکہ وہ صرف اور صرف فکری جارحیت کے الجھاؤ میں الجھے رہتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ انتشار پسند اضطرابی جنونیت کے اندھے حصار کے شکنجہ کے قیدی بن کر رہ جاتے ہیں اصل میں یہ گروہ ’سب کچھ پالینے ‘ کے باوجودخالی ہاتھ رہتے اور اِس دنیا میں بظاہر ’طاقت کامنبع ‘ دکھائی دینے کے علاوہ وہ شہوانی خواہشات (کبھی نہ ختم ہونے والی خواہشات) کے اسیر وغلام ہو کر رہ جاتے ہیں بین السطور ہمارے قلم کی نوک سے نکلے ہمارے اِن فکری ونظری خیالات کی تمہید کی وجوہ جہاں جنوبی ایشیا میں بحیثیتِ پاکستانی فرد کے ہماری اوّلین خواہش اِس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ ہم اپنے علاقہ میں خود امن وامان سے رہیں بحیثتِ مسلمان ہماری زبان اور ہمارے ہاتھوں سے ہمارے پڑوسی ممالک سمیت سبھی خود کو ہم سے حفظ و امان میں سمجھیں، کوئی ہمیں اپنا دشمن نہ سمجھے نہ ہم کسی کی طرف جارحیت کی نگاہ اُٹھایں نہ کوئی ہماری طرف بدنیتی ‘ بدشگونی ‘ بے اعتمادی اور ہمارے متعلق کسی غلط متعصبانہ سوچ کو اپنے دماغ میں جگہ دے ، سیاست ہمیشہ کی باہمی آویزش کا اور بلا اشتعال نکتہ چینی یا جنگی جنونی عزائم کانام نہیں ‘ سیاست مشترکہ مفادات کی تکمیل کے لئے باہمی اتحاد واشتراک کی بنیاد اور مہذبانہ ومتمدن اُصولوں کا نام ہے ،جن قوموں نے اپنے پڑوسیوں کو ہمہ وقت اپنی تیکھی اور اپنی نفرت بھری زہریلی نگاہوں سے دیکھنے کا خود کو عادی بنا لیا ہے وہ خود بھی کبھی چین وسکون سے نہ رہ سکے ، پڑوسی ممالک کے مابین دوستی اور بھائی چارے کی تاریخ کا یہ پہلا سبق ہے اور بحیثتِ مسلمان اپنے پڑوسیوں‘ پڑوسی اقوام یا پڑوسی ممالک کے ساتھ روا ر کھے جانے والا یہ سبق ہمارے ایمان کا اور ہمارے آفاقی عقیدے کا سنہرا چمکتا ہوا جھومر بھی ہے اِس عنوان سے گزشتہ68 برس کی ہماری (پاکستان ) کی تاریخ دیکھ لیں پاکستان بھارت سمیت اپنے سبھی پڑوسی ملکوں کے لئے باعثِ تکلیف یا باعثِ زحمت کبھی خود نہیں بنا ہے، گزشتہ 20-25 برس کی افغانستان کی اندرونی خانہ جنگی کے اندوہناک انسانیت کے حساس معاملے میں تو پاکستان نے اسلامی امن و بھائی چارے کی اعلیٰ ترین مہذب روایات کی ایک انمٹ تاریخ رقم کی ہے، جسے دنیا مانتی ہے، بھارت یا کوئی اور ملک یہ تاریخی حقائق مانے یا نہ مانے ہمیں فرق نہیں پڑتا بحیثیتِ مسلمان اور انسان ہونے کے پاکستان نے افغانستان کے مسلمان عوام کے لئے اپنے دل ونظر کے دروازے اُن پر ہمیشہ کھولے رکھے، آج سے68 برس قبل بھارت نے قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے ساتھ نفرت پر مبنی جو زہریلا طرز عمل اپنا یا تھا، لگتا ہے کہ وہ طرزِ عمل تاحال قائم ہے پاکستا ن کو مسلسل غیر مستحکم کرنے کے لئے بھارت نے ایک نہیں بلکہ کئی راستے اپنائے ہوئے ہیں پنڈت نہرو سے لے کر نریندرمودی تک سبھی بھارتی حکمرانوں نے اکیسیویں صدی کے اِس جدید نظریاتی سائنسی دور میں بھی ’چندر گپت موریہ‘ اور ’ اشوک ‘ کے دور کے حکمرانی کا طرز انداز یعنی ’عظیم بھارت‘ اپنا یا ہوا رکھا ہے بھارت کی جانب سے اپنے تمام پڑوسی ممالک بشمول پاکستان جیسے اہم مسلم ایٹمی ملک میں خفیہ دخل دراندازی اور اندرونی مداخلت کے خطرناک منصوبوں کو بروئےِ کار لایا جارہا ہے کوئی ایسا دن نہیں جاتا جب پاکستان کے خلاف بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی بلا اشتعال خلاف ورزی نہیں ہوتی، پاکستانی قوم اپنے بھا ئیو ں کی لاشیں اُٹھاتے اُٹھاتے تھک چکے نئی دہلی کی سفارتی پینتر بازیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں کل تک بھارت نے اپنے آپ کو’ سیکولرازم ‘ طرزِ جمہوریت کے نام پر دنیا کو دھوکہ میں رکھا ہوا تھا بین الااقوامی برادری کی آنکھوں میں کھلی دیدہ دلیری سے دھول جھونکی جارہی تھی اب بھارت میں نہ سیکولر ازم رہا نہ وہاں جمہوریت قسم کی کوئی حکومت کسی کو دکھائی دیتی ہے اگر نئی دہلی میں حکومتی طرزِ عمل کا کوئی انداز دکھائی دیتا ہے تو وہ صرف اور صرف قدیم جنونی ہندو انہ طرزِ عمل کی حکمرانی کا وجود نظر آ تاہے ، ذات پات کے کہنہ وفرسودہ نظام پر قائم بھارت کا یہ انتہائی ظالمانہ وسنگدلانہ فلسفہ ِٗ حکمرانی جسے دنیا نجانے کیسے تسلیم کرئے گی یہ سوال اپنی جگہ گو بڑا تلخ وترش لیکن خود بھارت کے کروڑوں عوام جن کا براہِ راست تعلق ہندو براداری میں ’دِلت ‘ قوم سے ہے بھارتی اشرافیہ اُنہیں ’اچھوت ‘ سمجھتی ہے ۔جنہیں دیگر بڑی ہندو برادریوں سے مثلاً ’براہمنوں‘ اور کھتریوں وغیرہ سے اہمیت حاصل ہے وہ بھی اِس سفاکانہ وسنگدلانہ بھارتی طرزِ حکمرانی کو بالکل پسند نہیں کرتے’ آر ایس ایس ‘آجکل بھارت میں خود کو بڑی معزز سمجھ رہی ہے ’ارتھ شاستر کے مصنف ’کوٹلیہ ‘ کے فلسفہ کو نریندرمودی نے عملی جامہ پہنانے کا جو مذموم عزم کیا ہے، آنے والے عہد میں اِس کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا جنوبی ایشیا کے ممالک حقیقتِ حال پر بڑی کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں خطہ میں دہشت گردی کے عفریت کو اُس کی جڑ بیخ سے اُکھاڑ پھنکنے کے لئے پاکستان جاگ چکا ہے اور پاکستانی قوم بھی اپنی بہادر ‘ جراّت مند ‘ نڈر اور بے خوف افواج کے ساتھ ہم قدم ہے پاکستان کے ساتھ سفارتی داؤ پیچ کے میدان میں بھارت کو اب ہوش کے ناخن لینے ہی پڑیں گے۔