سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ ، وطن عزیز کے تانباک مستقبل کا ضامن
[urdu]
سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ ، وطن عزیز کے تانباک مستقبل کا ضامن
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے 18ویں اور 21ویں آئینی ترامیم کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستوں کو کثرت رائے سے مسترد کر کے دہشت گردوں کو فوری سزائیں دلانے کیلئے فوجی عدالتوں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ دیکر پارلیمنٹ کے فیصلوں کی توثیق کر دی ہے ۔ اعلیٰ عدلیہ کا یہ فیصلہ ہمارے ملک کو دہشت گردی کے عذاب سے نجات دلانے کا باعث بنے گا اور ہمارے ملک کےمسقبل پر بھی مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اس فیصلے کو تاریخ ساز قرار دیا ہے جبکہ پوری قوم نے بھی اس عدالتی فیصلے کو عوامی امنگوں کے عین مطابق بالکل صیحح اور دانشمندانہ فیصلہ قرار دیا ہے۔ آئینی اور قانونی مو شگافیوں کی بحث چھیڑ کر فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت میں رائے دینے والے حلقوں کو بھی یہ ادراک اور اعتراف کرنا چاہیئے کہ اس وقت ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے ۔ پاکستان دشمن قوتوں کے پروردہ دہشت گردوں نے وطن عزیز کو جس بد ترین دہشت گردی سے دو چار کیا ہے اس سے نہ صرف 60ہزار سے زائد شہریوں کی قیمتی جانوں کا نقصان ہوچکا ہے بلکہ اپنے ملک کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دینے والے 6ہزار سے زائد فوجی اور سول آفیسران سمیت دفاعی اور سیکورٹی اداروں کے ارکان بھی شہید ہوگئے اس کے علاوہ ہماری معیشت کو 1سو ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان بھی ہو چکا ہے۔ دہشت گردوں نے ہمارے ملک میں جس ہولناک اور و حشیانہ انداز میں خون کی ہولی کھیلی اس سے پوری دنیا میں ہمارا قومی امیج بُری طرح متاثر ہوا اور پاکستان کو غیر محفوظ ملک کہا جانے لگا ۔جس کی وجہ سے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے تمام تر عوامل کا جائزہ لیکر وطن عزیز کو دہشت گردی کے ناسور سےنجات دلانے کا عزم کیا اور دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا کیونکہ عام عدالتوں سے دہشت گردوں کو قانون کے مطابق سزائیں دلانا عملی طور پر محال ہو چکا تھا ۔ دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث بدنام دہشت گردوں کے نیٹ ورک نے عدلیہ کے ارکان کو کھلم کھلادھمکیاں دینے اور ججز کو نشانہ بنانے کا مکروہ کھیل شروع کررکھا تھا۔ جس کی وجہ سے ججز اور ان کے بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑجاتی تھیں ۔دہشت گردوں کے خوف کا یہ عالم تھا کہ گذشتہ ہفتے پولیس مقابلہ میں مارے جانے والے کا لعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحق اور اس کے نائب غلام رسول شاہ کے خلاف قائم مقدمات کی سماعت اور پیروی کرنے والے 72ججز اور پراسیکویٹرز نے کا لعدم لشکر جھنگوی گروپ کے خلاف قائم مقدمات کی سماعت اور پیروی سےانکار کر دیا۔ اسی طرح ان دہشت گردوں نے 3مارچ 2014ءکو ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد رفاقت اعوان کی عدالت میں خود کش حملہ کیا جس میں جج اور وکلاءسمیت درجنوں بے گناہ افراد شہید ہوگئے۔ ان دہشت گردوں نے کراچی میں جسٹس مقبول باقر پر قاتلانہ حملہ کر کے انہیں شدید مضروب کیا اور پھر فخریہ انداز میں ایسے تمام دہشت گردوں حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ چند روز قبل ایڈ یشنل سیشن جج راولپنڈی طاہر خان نیازی کو قتل کرنے کے بعد دہشت گردوں نے اس بھیانک واردات کی بھی ذمہ داری قبول کی۔ ان حالات میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو اس تلخ حقیقت کا اعتراف بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہماری سول عدالتیں خوف کے اس ماحول میں اپنا عدالتی کام نہیں کر سکتیں جو کہ شقی القلب مجرموں نے پیدا کر رکھا ہے ۔ سپریم کورٹ کے مذکورہ اکثریتی فیصلے میں فوجی عدالتوں کو عدالتی کام جاری رکھنے کے حق میں فیصلہ دینے والے ججز نے بھی انہی حالات کا صیحح ادراک کیا ۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے اپنے فیصلے میں فوجی عدالتوں کے قیام کو درست فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں ۔ ہمیں مختلف دہشت گرد تنظیموں کا سامنا ہے ۔ کیونکہ وہ لوگ ریاست کے معاشی اور سیاسی اختیارات بزور طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی نہ گزارنے والے معصوم لوگوں کو مارتے ہیں۔ اس وقت ملٹری کورٹس میں ایسے لوگوں کے مقدمات زیر سماعت ہیں جو اپنے عقائد کی بنیاد پر ریاست اور ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔ جسٹس عظمت سعید ، جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس عمر بندیال نے کہا ہے کہ21ویں ترمیم عدلیہ کی آزادی ، انتظامیہ اور عدلیہ کے مابین تقسیم اختیارات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔ عملاً تمام شہری اس کے دائرہ کا ر میں نہیں آتے بلکہ دہشت گردوں کی ایک نہایت ہی معمولی تعداد اس کے دائرہ کا ر میں آتی ہے جو کہ ملک سے وفاداری چھوڑ چکے ہیں ۔ آئینی اور قانونی موشگافیوں کو ایک طرف رکھ کر وسیع تر قومی مفاد کے حق میں عدالتی فیصلوں کی تاریخ کابغور جائزہ لیا جائے تو حالت جنگ سے دو چار اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کا یہ تاریخی فیصلہ دنیا بھر کے عدالتی فیصلوں کے عین مطابق ہے ۔ امریکہ میں بھی نائن الیون کے واقعہ کے بعد کے حالات کا جائزہ لیکر امریکی قوم ، امریکی قیادت ، امریکہ کے آئین ساز اداروں اور امریکہ کی عدلیہ نے ایسا لائحہ عمل مرتب کیاکہ جس کی وجہ سے امریکہ دہشت گردی کے خوفناک عذاب سے نجات پانے میں کامیاب ہوگیا ۔ امریکہ نے معروضی حالات کے پیش نظر ایک نیا ہوم لینڈ ڈیپارٹمنٹ بنایا جس کو بے پناہ اختیارات دیئے گئے ۔ امریکہ میں پٹر یاٹ ایکٹ نافذ کر کے عوام کوبنیادی انسانی حقوق بھی محروم کردیا گیااور تحقیقاتی اداروں کو بہت طاقتور بنا دیا گیا۔ یہ سب کچھ اس قوم نے کیا جو کہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کی علمبردار ہے ۔ صرف اسی ایک مثال کو سامنے رکھ کر پاکستان کی حکومت ، پارلیمان ، عدلیہ اور افواج پاکستان کے اقدامات اور فیصلوں کے عواقب و عوامل کو دیکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے ملک کے قومی اداروں کے مابین یہ فکری اور نظریاتی ہم آہنگی اور باہمی اشتراک و تعاون وطن عزیز کو ہمہ قسمی دہشت گردی سے نجات دلانے اورفرقہ ورانہ عصبیتوں سے پاک کرنے میں موئثر ثابت ہوگا اور دہشت گردی سے منسلک جرائم کاخاتمہ ہو جائے گا۔
[/urdu]