یکجہتی کشمیر۔۔۔ بھارتی فلموں اور ڈراموں پر پابندی ختم
Posted date: February 08, 2017In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
دنیا کے ہر ملک میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جب حکومت کے خلاف بھی مظاہرے ہوتے ہیں اور عمالِ حکومت کے خلاف بھی جمہوری حکومتوں میں یہ سب حقوق عام شہری کو حاصل ہوتے ہیں۔ اسی طرح قانون ہاتھ میں لیا جاتا ہے اور توڑا بھی جاتا ہے اور اس چیز کو قابو کرنے کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ جرم کو ختم کرنے اور مجرم کو پکڑنے کے لیے ہی یہ ادارے بنائے جاتے ہیں اور وہ کام سب سے پہلے اسی گھر کے افراد سے شروع کرتے ہیں جہاں وقوعہ ہوتا ہے اور اکثر اوقات مجرم، جرم اور جس کے خلاف جرم ہوا ہو کا کوئی نہ کوئی تعلق نکل ہی آتا ہے اور یوں اصل مجرم پکڑا بھی جاتا ہے لیکن ہمارے پڑوسی بھارت کا معاملہ مختلف بلکہ الٹ ہے اس کے ہاتھ جو بھی مجرم آتا ہے اس کا تعلق پاکستان سے جوڑ دیا جاتا ہے بلکہ مجرم کو بھارت کی بجائے پاکستان میں ڈھونڈا جاتا ہے اور پھر کسی نہ کسی طرح اس تعلق کو پاکستان سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یوں اپنے عوام کو بیوقوف بنا کر الزام پاکستان کے سر رکھ دیا جاتا ہے اور اپنے فرائض سے بری الذمہ ہو لیا جاتا ہے۔ دوسرا بہت ہی آسان ہدف بھارت کے لیے کشمیر ہے دھماکہ ہوگیا کشمیری، حملہ ہوگیا کشمیری، اغوا ہو گیا کشمیری نے کیا اور یوں اصل مجرموں کو اگلے جرم کے لیے کھلی چھٹی مل جاتی ہے اور اب تو یہ رواج بھارت میں کچھ حد سے بڑھ چکا ہے جس کا کریڈٹ اس کے وزیراعظم مودی کو بھی جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مودی سے پہلے والے پاکستان کے لیے کوئی نیک خواہشات رکھتے تھے۔بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف سازشوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی کشمیر کا لاینحل مسئلہ کھڑا کر دیا گیا جسے اب تک نہ تو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکا ہے اور نہ جنگوں کے زور پر۔ کشمیر کی آزادی کے لیے کل کی طرح آج بھی کشمیر کا ہر بچہ، بوڑھا، مرد اور عورت کشمیر کی سڑکوں پر ہوتا ہے اور کسی اور سمجھوتے پر پہنچنے سے مکمل انکاری ہے سوائے اس کے کہ کشمیر کو بھارت سے آزادی چاہیے کشمیری اس سے کم کسی سمجھوتے پر راضی نہیں اور بھارت ہے کہ ایک کے بعد ایک کشمیری کو شہید کیے جا رہا ہے۔ گیارہ فروری 1984 کو ایسے ہی ایک کشمیری لیڈر مقبول بٹ کو نئی دلی کے تہار جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا اور سمجھا گیا کہ کشمیریوں کی آزادی کی خواہش کو کچل دیا جائے گا۔ مقبول بٹ پر پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام تھا لیکن جب انہیں عدالت میں پیش کیا گیا اور ان پر فرد جرم عائد کی گئی اور پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا گیا تو مقبول نے عدالت کو بتایا کہ میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو قبول کرتا ہوں لیکن آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے دشمن کا ایجنٹ نہیں ہو ں بلکہ مجھے دیکھو میں خود آپ کا دشمن ہوں میں آپ کی نو آبادیاتی ذہنیت کا دشمن ہوں مجھے غور سے دیکھ لو میں تمہارا دشمن ہوں۔مقبول بٹ بھارتی جیل میں سرنگ بنا کر وہاں سے فرار ہوئے تھے اور اپنے اس جرم سے انکار بھی نہیں کیا لیکن بھارت کو یقین بھی دلایا کہ وہ اُس کے دشمن کا ایجنٹ نہیں بلکہ خود دشمن ہے لیکن پھر بھی بھارت مقبول بٹ کو پاکستان کا جاسوس قرار دیتا رہا اُس نے مقبول بٹ کو 11 فروری 1984 کو پھانسی دی، پھانسی سے پہلے ان کے خاندان کے کسی فرد کو ان سے نہیں ملنے دیا گیا۔ یہاں تک کہ اُن کی لاش بھی اُن کے ورثاء کے حوالے نہیں کی گئی خود بھارت کے ماہرین قانون نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ پھانسی بھارتی قوانین کو ایک طرف رکھ کر دی گئی جو کہ بالکل غلط تھی اس کیس میں شروع سے قانونی جھول موجود تھے لیکن بھارتی حکومت نے اپنی من مانی کی اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ دے دیا۔ یہ سلسلہ یہاں رُکا نہیں کشمیری اپنی آزادی کی جنگ لڑتے رہے بھارت کے مسلمان بالعموم اور کشمیر کے بالخصوص بھارتی سرکار اور ہندو اکثر یت کا نشانہ بنتے رہے اور اب بھی بن رہے ہیں۔ وہ کشمیر میں چلنے والی آزادی کی تحریک کو دہشت گردی قرار دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش تو کر رہا ہے لیکن اس حقیقت سے انکاری ہے کہ جب کشمیری یوں سڑکوں،گلیوں اور گھروں میں مارے جائیں گے تو وہ اپنے جوان بچوں، بوڑھے ماں باپ اور ماؤں بہنوں کا بدلہ لینے تو ضرور نکلیں گے۔ پھر چاہے بھارت سرکار جتنے بھی مقبول بٹوں کو پھانسی چڑھائے کئی اور مجاہد کشمیر کی آزادی کے لیے میدان میں اترتے رہیں گے۔ بھارت نے اپنی روش نہیں بدلی اور ایک بار پھر فروری ہی کے مہینے میں ایک اور کشمیری افضل گرو کو پھانسی چڑھا دیا اُسکا جرم بھی آزادی کی خواہش تھی اس بار الزام یہ لگایا گیا کہ افضل گرو 13 دسمبر 2000 کو بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے میں ملوث تھا اس حملے میں کوئی پارلیمنٹیرین تو ہلاک نہیں ہوا تاہم آٹھ سیکیورٹی اہلکاروں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے جبکہ سولہ افراد زخمی ہوئے پانچوں حملہ آور بھی ہلاک ہوئے۔ افضل گرو کو اس حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور اس سے اقبالی بیا ن بھی لیا گیا جس کے بارے میں بعد میں گرونے بتایا کہ اُسے شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس کے جسم کے حساس مقامات پر کرنٹ دیا جاتا تھا، اس کے خاندان والوں کو دھمکیاں دی گئیں اور اسے بتایا گیا کہ اس کا بھائی پولیس کی تحویل میں ہے لہٰذا اُسے مجبوراََ ناکردہ جرم قبول کرنا پڑا اُس نے یہ سب کچھ اپنے وکیل کو ایک خط میں لکھا۔ افضل گرو کو بھی مقبول بٹ کی طرح گھر والوں سے ملوائے بغیر پھانسی دی گئی اورتہار جیل کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا اُس کے علاقے میں کرفیو لگایا گیا سیکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے لیکن پھر بھی پورے ملک میں اس پھانسی کے خلاف ہنگامے اور مظاہرے ہوئے سپریم کورٹ کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ افضل گرو پارلیمنٹ پر حملے میں ملوث نہیں پایا گیا اور صرف حاصل کردہ معلومات کی بنا پر اسے سزا دی گئی اُسے پاکستانی ایجنٹ قرار دیا گیا اور پارلیمنٹ پر حملہ پاکستان کی طرف سے قرار دیا گیا یعنی بھارت نے اپنی روایت برقرار رکھی جو اب پٹھانکوٹ اور اُڑی تک پہنچ چکی ہے۔ بھارت پاکستان کے خلاف اپنی فطرت بدلنے میں مکمل طور پر ناکام ہے پاکستانی حکمرانوں کی ہر کوشش کا صرف ایک جو اب آتا ہے اور وہ ہے پاکستان کی مخالفت۔ دراصل پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے اور وہ ہے مسئلہ کشمیر کا حل جس کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہم ایک طرف یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں تو دوسری طرف بھارت کی محبت میں حد سے گزر جاتے ہیں،اس سال بھی ایسا ہی ہوا اور پانچ فروری سے صرف دو دن پہلے یعنی تین فروری کو بھارتی فلموں ڈراموں اور مواد پر عائد شدہ پابندی اٹھائی گئی معاملہ پابندی اٹھانے کا بھی نہیں اُس رویے کا ہے جو ہم روارکھ رہے ہیں ہماری حکومتیں کشمیر پر سیاست تو کر رہی ہیں لیکن دنیا کو اس کی اہمیت اور حساسیت کا احساس دلانے میں اس لیے ناکام ہے کہ ہم خود دوہری پالیسی چل رہے ہیں۔ہم مقبول بٹ، افضل گرو، برہان وانی اور دیگر کشمیری شہادتوں پر غم و غصے کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن مسئلے کے حل پر وہ توجہ نہیں دے رہے جو دینی چاہیے لیکن اب ہمیں دن منانے کی بجائے عملی کام کرنا ہوگا اور اپنے سنجیدہ اقدامات سے بھارت کو احساس دلانا ہوگا کہ اگر وہ خطے میں امن چاہتا ہے تو اُسے کشمیریوں کو اُن کا حق دینا پڑے گا ورنہ تو وہ خود بھی اسی طرح بدامنی کا شکار رہے گا اور خطے کو بھی خطرے میں ڈالے رکھے گا۔