شوقِ شہادت ہے جس میں یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ میرا منصب کیا ہے اور میری پوزیشن کیا ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ اس کی وجہ مسئلہ کشمیر کی طوالت ہے جس نے اب کشمیر کی اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ لوگوں کو قلم چھوڑ کر بندوق کی طرف مائل کردیا ہے ،گویا جتنے منہ اتنی باتیں۔بی، بی، سی (اردو)نے 7مئی2018ء کو اس واقع پر اس طرح تبصرہ کیا کہ’’ ڈاکٹر محمد رفیع بٹ چند روز قبل سلجھے ہوئے دانشور، مقبول پروفیسر اور بہترین محقق کے طور جانے جاتے تھے۔انھوں نے پانچ مئی کی دوپہر کو کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات میں اپنا آخری لیکچر دیا اور روپوش ہو گئے۔ صرف چالیس گھنٹے کے بعد حزب المجاہدین کے چار مسلح شدت پسندوں کے ہمراہ وہ جنوبی کشمیر کے شوپیان ضلع میں محصور ہو گئے اور مختصر تصادم کے بعد مارے گئے۔ان کی نئی شناخت ان کی سابقہ اہلیتوں پر غالب آ گئی۔ لوگ اب انھیں ’مجاہد پروفیسر‘ کہتے ہیں۔سری نگر کے مشرقی ضلع گاندر بل میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر رفیع غیر معمولی صلاحیتیوں کے مالک تھے۔انھوں نے سوشیالوجی میں ماسٹرز کرنے کے بعد انڈیا کے قومی سطح کا امتحان نیشنل ایلیجیبلٹی ٹیسٹ دو مرتبہ پاس کیا اور اس کے لیے انھیں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے فیلو شپ بھی ملی۔ انھوں نے بعد میں اپنے مضمون میں پی ایچ ڈی کیا اور گذشتہ برس ہی کشمیر یونیورسٹی کے سوشیالوجی شعبہ میں لیکچرار تعینات ہوئے۔ڈاکٹر رفیع کے اکثر طلبا بات کرنے سے کتراتے ہیں اور جو بولنے پر آمادہ ہیں وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے چند طلبانے بتایا کہ ڈاکٹر رفیع کے بارے میں ایسا خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا جا سکتا تھا کہ وہ مسلح مزاحمت پر آمادہ ہیں۔’وہ تو ہمیں تحفے میں کتابیں دیتے تھے۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مابعد جدیدیت پر مجھے ایک کتاب دیں گے۔ میرا دماغ پھٹ رہا ہے کہ یہ سب کیا ہوا اور کیوں ہوا؟‘