Posted date: May 18, 2018In: Urdu Section|comment : 0
آج کل ہر گلی اور گھر میں ایک ہی موضوع پر بحث جاری ہے کہ پروفیسر محمد رفیع بٹ نے اعلیٰ ترین سرکاری نوکری چھوڑ کر انتہائی پر خطر راستہ کیوں اختیار کیا تھا؟کوئی کہتا ہے یہ مایوسی کی علامت ہے کہ ایک پی،ایچ،ڈی اسکالر اچھی نوکری ملنے کے بعد اس کو ٹھوکر مار کر وہ راستہ اختیار کرے جس کے قدم قدم پر موت سایے کی طرح پیچھا کرتی ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ یہ جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت ہے جس میں یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ میرا منصب کیا ہے اور میری پوزیشن کیا ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ اس کی وجہ مسئلہ کشمیر کی طوالت ہے جس نے اب کشمیر کی اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ لوگوں کو قلم چھوڑ کر بندوق کی طرف مائل کردیا ہے ،گویا جتنے منہ اتنی باتیں۔بی، بی، سی (اردو)نے 7مئی2018ء کو اس واقع پر اس طرح تبصرہ کیا کہ’’ ڈاکٹر محمد رفیع بٹ چند روز قبل سلجھے ہوئے دانشور، مقبول پروفیسر اور بہترین محقق کے طور جانے جاتے تھے۔انھوں نے پانچ مئی کی دوپہر کو کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات میں اپنا آخری لیکچر دیا اور روپوش ہو گئے۔ صرف چالیس گھنٹے کے بعد حزب المجاہدین کے چار مسلح شدت پسندوں کے ہمراہ وہ جنوبی کشمیر کے شوپیان ضلع میں محصور ہو گئے اور مختصر تصادم کے بعد مارے گئے۔ان کی نئی شناخت ان کی سابقہ اہلیتوں پر غالب آ گئی۔ لوگ اب انھیں ’مجاہد پروفیسر‘ کہتے ہیں۔سری نگر کے مشرقی ضلع گاندر بل میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر رفیع غیر معمولی صلاحیتیوں کے مالک تھے۔انھوں نے سوشیالوجی میں ماسٹرز کرنے کے بعد انڈیا کے قومی سطح کا امتحان نیشنل ایلیجیبلٹی ٹیسٹ دو مرتبہ پاس کیا اور اس کے لیے انھیں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے فیلو شپ بھی ملی۔ انھوں نے بعد میں اپنے مضمون میں پی ایچ ڈی کیا اور گذشتہ برس ہی کشمیر یونیورسٹی کے سوشیالوجی شعبہ میں لیکچرار تعینات ہوئے۔ڈاکٹر رفیع کے اکثر طلبا بات کرنے سے کتراتے ہیں اور جو بولنے پر آمادہ ہیں وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے چند طلبانے بتایا کہ ڈاکٹر رفیع کے بارے میں ایسا خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا جا سکتا تھا کہ وہ مسلح مزاحمت پر آمادہ ہیں۔’وہ تو ہمیں تحفے میں کتابیں دیتے تھے۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مابعد جدیدیت پر مجھے ایک کتاب دیں گے۔ میرا دماغ پھٹ رہا ہے کہ یہ سب کیا ہوا اور کیوں ہوا؟‘
بی ، بی، سی نے اپنی رپورٹ میں ڈاکٹر رفیع کے رشتہ داروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب وہ میڈیا میں ہلاکتوں یا زیادتیوں کی تفصیلات دیکھتے تھے تو پریشان ہوجاتے تھے لیکن انھوں نے ایسا کوئی اشارہ کبھی نہیں دیا کہ وہ ہتھیار اٹھا کر لڑنا چاہتے ہیں۔جموں کشمیر پولیس کے سربراہ شیش پال وید کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر رفیع کے دو کزن مارے گئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ انتہائی قدم اٹھانے پر آمادہ ہو گئے ہوں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انتہا پسند رحجان بھی ڈاکٹر رفیع کے ذہنی ارتقا کا باعث ہو سکتا ہے۔چند ماہ قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی سکالر منان وانی بھی روپوش ہو کر حزب المجاہدین میں شامل ہو گئے تھے تاہم ڈاکٹر رفیع پہلے پروفیسر ہیں جنھوں نے باقاعدہ مسلح گروپ میں شمولیت کی۔
تیس سال قبل جب یہاں مسلح شورش شروع ہوئی تو کئی پروفیسر مسلح گروپوں کے حمایتی ہونے میں پراسرار حالات میں مارے گئے۔ ان میں ڈاکٹر عبدالاحد گورو، پروفیسر عبدالاحد وانی، ڈاکٹر غلام قادر وانی اور ایڈوکیٹ جلیل اندرابی وغیرہ قابل ذکر ہیں(بی،بی،سی اردو 7مئی 2018ء)۔میرے خیال میں بے شمار اسباب میں ڈاکٹر محمد رفیع بٹ کے بندوق کا پر خطر راستہ اختیار کرنے میں کئی ایک اسباب اور عوامل شامل ہو سکتے ہیں مگر اصل مسئلہ تعلیم یافتہ ، غیر تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ ہونا نہیں ہے بلکہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کشمیری نوجوان بندوق اٹھا کر’’ بھارت کی ریاستی رٹ ‘‘قبول کرنے کے لئے آمادہ کیوں نہیں ہیں ؟اعلیٰ تعلیم یافتوں کے بندوق اٹھانے پر بحث صرف اس وقت ہلچل پیدا کرتی ہے جب بھارتی فلم انڈسٹری سے متاثر ٹیلی ویژن اینکرس اور پینلسٹس اب تک کے جھوٹے اور پرفریب تجزیوں سے خوف کھاتے ہوئے عوام الناس میں ننگے ہونے سے پریشان ہو جاتے ہیں اس لئے کہ ان جھوٹوں نے بھارت کی عوام کو یہ کامیاب تاثر دیدیا ہے کہ کشمیر کی وادی اورچمبل گھاٹی کے بندوق برداروں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے سوائے زبان کے ۔چمبل گھاٹی کے ڈاکو عوام کو بندوق کی نوک پر لوٹ کر قتل کرتے ہیں پھر انہی کے مال سے اپنے عیش و آرام کا سامان جمع کر کے عیاشی کی زندگی گذارتے ہیں ۔ہندوستانی میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا اثر فلم انڈسٹری پر بھی مرتب ہوا تو انھوں نے ہزاروں فلموں میں ہر جگہ دہشت گردی کے رول کے لئے داڑھی والے مسلمان کا حلیہ چن لیا جبکہ شرافت و نجابت کے لئے دھوتی اور زنار پہنے پنڈت جی مہاراج کا حلیہ منتخب کر لیا ۔اس پروپیگنڈے کا اثر یہ ہوا کہ اب تک بھارت کی سوا ارب آبادی یہی سمجھتی رہی ہے کہ کشمیر میں ہندوستان کے ساتھ برسرپیکار لوگ انتہائی سنگ دل ڈاکو ؤں کی کوئی ایسا گروہ ہے جو ان پڑھ ،گنوار اور جاہل بھی ہیں ۔
اگر بھارتی پروپیگنڈا باز میڈیا نے اب تک جھوٹ نہ بولا ہوتا تو آج’’ پروفیسر محمد رفیع بٹ کی شہادت‘‘پر بھارتی عوام و خواص کو حیرت نہیں ہوتی ۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر اتنا لکھا پڑھا اور اچھی نوکری کرنے والا شخص کیوں گھر کا آرام چھوڑ کر پر خطر راستہ اختیار کرے ۔بھارت کی غریب عوام جہاں ساٹھ کروڑ لوگوں کو دو وقت کی روٹی کھانے میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان جیسے واقعات کو ’’خواب یا جنون‘‘سمجھنے پر مجبور ہیں ۔بھارت کے عوام کا یہ رویہ اس لئے بھی حیران کن نہیں ہے کہ ان کے خواص ستر برس کے بعد بھی کشمیر کے حوالے سے جہالت کے شکار ہیں ۔میڈیا کا ظالمانہ اور مجرمانہ رول اپنی جگہ مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ بھارتی عوام دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں اس لئے بھی بے حس ہے کہ ان کے نزدیک صرف وہی سچائی اور علم ہے جو ان کے من کو بھاتا ہے ۔پروپیگنڈا کے باوجود بھارت کی عوام اتنا تو جانتی ہی ہے کہ کشمیر بھارت کے ساتھ مطمئن نہیں ہیں اور وہ آزادی چاہتے ہیں چاہیے مانگنے والے لکھے پڑھے ہوں یا ان پڑھ۔سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آزادی لکھے پڑھے مانگتے ہیں بلکہ یہ ہوناچاہیے تھا کہ کون اور کتنے مانگتے ہیں اس لئے کہ جب بھارت کی عوام (مسلم یا غیر مسلم) نے آزادی مانگی تو اس وقت ان کی تعلیمی شرح کیا تھی ؟1947ء کے وقت بھارت کی شرح خواندگی17%تھی جبکہ 2011ء کی مردم شماری اعداد و شمار کے مطابق 70%سے بھی زیادہ ریکارڈ کی گئی جبکہ اس کے برعکس جموں و کشمیر کی شرح خواندگی ہر دور میں اسے بہتر اور اچھی رہی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اور سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کشمیری آزادی کیوں مانگتے ہیں ؟اور بھارت کے ساتھ اطمینان کے برعکس عدم دلچسپی کا مظاہراکیوں ہیں؟اگر بھارتی میڈیا نے اپنی عوام کے سامنے یہ سوالات چھیڑ کر سچائی پر مبنی جوابات تلاش کئے ہوتے تو شاید صورتحال کافی مختلف ہوتی ۔
’’پروفیسرمحمد رفیع بٹ کی شہادت‘‘کے بعدبھارتی میڈیا نے چپ سادھ لی ہے جبکہ 1990ء سے لیکر 2013ء تک یہ تاثر دیا گیا کہ کشمیر کی جہادی تنظیموں میں شامل نوجوانوں کی اکثریت جاہلوں یا کم لکھے پڑھے لوگوں کی ہے حالانکہ یہ تاثر تب بھی غلط تھا اور یہ بحث آج بھی سرے سے غلط اور بیکار ہے۔ سوشل میڈیا کے ذرائع سے پریشان نئی دہلی کا کورپٹ میڈیا یہ سب چھپانے کی پوزیشن میں نہیں ہے نہیں تو سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ1990ء میں عسکری ٹریننگ کے لئے آزاد کشمیر جانے والے پروفیسر معین الاسلام ،امریکن ائر فورس کے پائلٹ ندیم خطیب ،شمس الحق(ٹرپل ایم ،اے) اوربے مثال قلمکاراور مصنف کمانڈر مسعود جیسے لوگوں کے جہادی تنظیموں میں شمولیت پر بحث کیوں نہیں ہو رہی ہے صرف اس لئے کہ اب نئی دہلی کا کورپٹ اور بے ضمیر میڈیا حقائق چھپانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس لئے کہ اب ہر چیز سوشل میڈیا کی وساطت سے پوری دنیا تک پہنچ جاتی ہے ۔جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ دراصل ان لوگوں کے ذہن میں ممبئی فلم انڈسٹری کی بنائی ہوئی فلموں کا اثر گہرا ہوتا ہے جس میں عسکریت پسندوں کو جاہل ،گنوار،ان پڑھ ،ہوس پرست ،شرابی ،زن پرست ،بے رحم ،زانی اوردولت کے بھوکوں کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے ۔گہرا تجزیہ کرنے کے بجائے یہ لوگ خود اپنے آپکو بیوقوف اور اپنی قوم کو گمراہ کرنے میں زیادہ دلیر ہوتے ہیں حالانکہ اب تو القائدہ کے وجود میں آنے اور اس میں ارب پتی شہزادوں اور مغربی دنیا کے لکھے پڑھے نوجوانوں کی شمولیت کے بعداس غبارے سے ہی ہوا نکل گئی ہے،اور اس طرح دنیا کو گمراہ کرنے والی ’’بالی وڈ اور ہالی وڈ‘‘کے پاس کہانیاں ہی ختم ہو چکی ہیں ۔ ان کی عمر بھر کی کہانیاں’’ ڈراموں اور افسانوں ‘‘سے زیادہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوچکی ہیں ۔
جہاں تک پروفیسر محمد رفیع کے تازہ اقدام کا تعلق ہے ہمارے نزدیک یہ سرے سے کوئی بحث ہی نہیں ہے ۔ 2014ء میں اس حوالے سے سید علی شاہ گیلانی سمیت کئی لوگوں نے بہت اہم اور قابل توجہ باتیں کہیں ہیں کہ اس سارے معاملے کا ذمہ دار بھارت ہے جو مسئلہ کشمیر کی آڑ میں یہاں ظلم و بربریت کی ساری حدیں پھلانگ چکا ہے اور پر امن ذرائع سے مایوس نوجوان اب پر خطر راستوں کو اس لئے منتخب کرتے ہیں کہ انہیں بھارتی رویہ دیکھ کراس بات کا یقین ہو چکا ہے پر امن طریقوں سے بھارت بات ماننے والا نہیں ہے ۔مگر ان سب دلائل پر یہ بات غالب ہے کہ دنیا میں جس طرح سویت یونین کے افغانستان سے نکل جانے اورسویت یونین سے سمٹ کرروس کے پرانے نقشے تک محدودہوچکا ہے کے حیرت انگیز ’’معجزے‘‘ اور 11ستمبر کے بعد افغانستان اور عراق میں امریکہ کے داخل ہونے کے بعد ذلت و رسوائی کے ساتھ ان علاقوں سے نکلنے پر مجبور ہو نے،خاص کر عراق ا ور شام کے کچھ علاقوں پر عسکری تنظیموں کے قبضے کے بعد ایک خطرناک تصور یہ جنم لے چکا ہے کہ کسی بھی ملک کی فوجیں چاہے کتنی ہی طاقتورکیوں نا ہوں انہیں غیر عسکری لوگ اپنی استقامت سے شکست سے دوچار کر سکتی ہیں ۔ اسی طرح ساری دنیا کے لیے بالعموم اور برصغیر ہندوپاک اور افغانستان کے لیے بالخصوص حالات تبدیل ہو رہے ہیں ان حالات کے ’’مثبت یا منفی‘‘اثرات ساری دنیا پر بالعموم اور ’’سہ تانی خطے یعنی افغانستان ،پاکستان اور ہندوستان‘‘پربالخصوص بہت زیادہ اور دور رس مرتب ہورہے ہیں۔ بھارت کی پوری کوشش یہی نظر آتی ہے کہ وہ اس نئی تبدیلی کے منفی اثرات سے محفوظ رہے ۔مگر اس کی تمام تر کوششیں ناکام ہو رہی ہیں اور جموں و کشمیر میں اس کے اثرات مرتب ہورہے ہیں ،کشمیرمیں بھی قدرتی طور پر بعض حادثات کے پس منظر میں 2008ء،2009ء ،2010ء اور 2016ء کے پرُ امن عوامی انقلابات کو دلی کی نااہلی اور متکبرانہ کشمیر کش پالیسی کے نتیجے میں قیادت سے لیکر عوام تک ہر ایک دلی کی ’’ڈھونگ سے مزئین مذاکراتی عمل‘‘سے مایوس ہو کر فطری طور پر یہ سوچنے پر مجبور کردیا گیا کہ آخر کشمیر کے بنیادی مسئلے کو ہر دو طریقوں’’بندوق یا پر امن مذاکرات‘‘کے ذریعے حل نہ کرنے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟دیوار کے ساتھ دھکیلنے کے اس ’’دلی کے مکروہ کھیل‘‘نے ہر ایک کے لیے2018ء کا سال قیاس آرائیوں سے بھرپور سال بنادیا ہے اور سب سے بڑھکر یہ کہ القائدہ اور طالبان کو جان بوجھ کر میدان فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ لشکر طیبہ پہلے ہی 2018ء کو کشمیر کی آزادی کا سال قرار دے چکی ہے ۔
کشمیر کی نئی نوجوان نسل کے دل و دماغ میں یہ بات رچ بس چکی ہے کہ دلی والے تبھی کشمیر مسئلے کو حل کرنے پر راضی ہوں گے جب ان کے لیے کشمیر میں افغانستان جیسے ہی حالات پیدا ہو ں گے اور یہی بات بارک اوباما کے افغانستان سے فوجی انخلأ کے اعلان پر متحدہ جہاد کونسل کے چیرمین سید صلاح الدین احمد نے کہی تھی کہ نیٹو افواج افغانستان سے کسی سیاست کاری کے نتیجے میں نہیں نکل رہے ہیں بلکہ یہ صرف جہاد کا نتیجہ ہے ۔اس میں دو رائے نہیں کہ حالیہ ایام میں جو نوجوان عسکری معرکہ آرائیوں میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں ان میں اکثر نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور کئیوں کے لیے روز گار کے اچھے مواقع میسرتھے ۔ان کے دوستوں اور رشتہ داروں سے یہ معلوم ہوا کہ یہ نوجوان ابتدأ سے ہی اسلام پسند تھے اور ان کا طالب علمی کے ہی دور میں جہاد کی جانب رجحان پایا جا رہا تھا ۔پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوان کشمیر میں پہلے بھی تحریک سے وابستہ تھے اور اب بھی ان کا رجحان اس جانب ہے البتہ یہ بات طے ہے کہ مقامی تنظیموں کے بجائے کشمیر کے نوجوانوں کا بیرونی بین الاقوامی شہرت یافتہ تنظیموں کے ساتھ دلچسپی ابھی محدود ہے شاید اس لیے کہ ابھی وہ تنظیمیں کشمیر میں فعال اور سر گرم نہیں ہیں اور اگرہیں بھی توبہت محدود۔۔۔۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اگر کشمیر میں القائدہ یا طالبان دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنا نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب ہوئی تو کشمیر میں ہزاروں لکھے پڑھے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ان جہادی تنظیموں میں اسی طرح شامل ہوں گے جس طرح اسی قبیل کے لوگ افغانستان ،عراق اور اب شام میں شامل جنگ ہو چکے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ بقول اے ،جی نورانی کے دلی کے پاس کشمیر کے لیے کچھ بھی نیا نہیں ہے وہی پرانی گھسی پٹی باتیں اورout of date statementsجن کو سنتے سنتے کشمیر کے لوگوں کے کان پک چکے ہیں اور تنفر کا عالم یہ ہے کہ جب بھی ٹی وی اسکرین پر کوئی نیوز ریڈر اس طرح کی خبریں لے کر نمودار ہوتا ہے تو کشمیر کے لوگ بلاتوقف چینل بدل دیتے ہیں اور یہی کچھ اخبارات پڑھنے والوں کا حال ہے گویا انھیں سرخی دیکھ کر ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے ذیل میں کیا لکھاہوگا اس لیے کہ یہ کشمیریوں کا سات دہائیوں پر پھیلا ہوا وسیع تجربہ ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ نئی دہلی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ابھی تک سن سنتالیس کی سوچ پر قائم ہے ۔یہ لوگ ابھی بھی مرحوم شیخ عبداللہ کے دور میں آزمائے گئے نسخے آزمانے پر بضد ہیں ۔یہ سمجھے ہیں یا سمجھائے گئے ہیں کہ باربار یہی کچھ کرنے سے کشمیری تنگ آجائیں گے !سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے یہ سوچ اپنانے سے نئی دہلی کچھ بھی کامیاب ہوگی؟یا یہ کہ یہ کشمیری نوجوانوں کے اندر دلی کے تئیں نفرت کو بڑھاوا دے گی ؟ سخت اسٹینڈ لینے کی پالیسی کا نتیجہ افغانستان میں سر کی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود بھارت یہ سمجھتا ہے کہ طاقت سے ہی کشمیریوں کو جھکایا جا سکتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر تیس برس میں ناکامی کے باوجود حکومت اسی پر بضد کیوں ؟جبکہ خود کئی بھارتی لیڈر بشمول چیف آف آرمی اسٹاف جنرل بپن راؤت اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم یہ صاف کر چکے ہیں کہ شدت اور سختی والی پالیسی ناکام ہو چکی ہے اور کشمیریوں نے اس کو اور بھی شدت کے ساتھ رد کر دیا ہے ۔کہنے کو نئی دہلی نے مذاکرات کار کو کشمیر سبھوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے ضرور بھیجا ہے مگر اس کے منڈیٹ سے متعلق حریت لیڈران جو پہلے دن سے شکوک و شبہات میں مبتلا تھے ہی کے برعکس اب سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے 9جنوری2018ء کو اسمبلی ایوان میں کہا ’’کہ پیس ،ہیلنگ ٹیچ اورگولی سے نہیں بولی سے یہ باتیں ہم نے سنی اور وزیر اعظم صاحب نے جب لال قلہ سے 15اگست2017ء کو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کو گالی نہیں ،گلے لگانے کی ضرورت ہے، توہم نے سوچا ایک نئی شروعات ہو گی۔ہم انتظار کرتے گئے ،کچھ اچھا ہو گامگر کچھ بھی نہیں بدلا۔گویا نئی دہلی مذاکرات کی آڑ میں ایک قوم کو مصروف رکھتے ہو ئے تھکا دینے والے فارمولے کو اپنا رہی ہے عمر عبداللہ سے بھی زیادہ کشمیر کا عام نوجوان ذہین ہے جو سوشل میڈیا پر دینشور شرما کے وادی وارد ہونے سے قبل ہی یہ کہہ چکا ہے کہ دینشورشرما ہاتھی کے دانت ہیں جو کھانے کے اور دکھانے کے اورہوتے ہیں ۔اس دوغلے پن سے کشمیر کے حالات میں سدھار کے برعکس مزید اشتعال پیدا ہوتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے نئی دہلی کوئی بات ’’پر امن طریقے ‘‘سے کبھی بھی قبول نہیں کرے گی یہی وجہ ہے کہ اچھے مستقبل کے امکانات ہونے کے باوجود یہاں ’’پروفیسر محمد رفیع ،منان وانی اور جنید صحرائی ‘‘جیسے دانشمندنوجوان بندوق تھامنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یہ پالیسی کشمیریوں کے ساتھ ساتھ خود دلی کے لئے ہر طرح سے نقصان دہ ہے فائدہ مند نہیں۔