اِن کا قومی سلامتی کے اداروں پر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں
Posted date: May 19, 2018In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
ممبئی حملوں کو دس سال ہونے کو ہیں اس دوران حملوں کی ذمہ داری اور ذمہ داران کے متعلق کئی ایک نظریے پیش کیے گئے بھارت نے سارا زور پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانے پر صرف کیا لیکن اُس کی بد قسمتی کہ بہت سارے شواہد اس کے خلاف جاتے رہے اور خود بھارت کے اندر سے بھی ایسی آوازیں اٹھیں جس نے بھارت کو اس کا ذمہ دار بتایا لیکن ایسے میں دس سال بعد ایک انوکھا انکشاف پاکستان کے سابق وزیراعظم نے کیا جنہیں عدالتوں نے نااہل قرار دیا اور اُس کے بعد اُنہوں نے ملکی اور قومی وقار کی دھجیاں بکھیرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا اور اسی جوش و جذبے میں ان محترم نے ممبئی حملوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی اور ارشاد فرمایا کہ یہ حملہ آور پاکستان نے بھیجے تھے۔ بات یہ ہے کہ یہ محترم نہ صرف بھارت کے عشق میں مبتلاء ہیں بلکہ پاک فوج سے ان کی نفرت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور پاک فوج سے ان کی نفرت اس سے کہیں بڑھ کر ہے جتنی ایک پاکستانی بھارتی فوج سے کرتا ہے ۔ وہی بھارت جس کی ہر پالیسی کا مرکزی نکتہ ایک ہی ہوتا ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچاؤ اس سے نفرت کرو وہی بھارت ہمارے سابق وزیراعظم کا محبوب بنا ہوا ہے ۔ میاں صاحب جنہیں فوج کا انتہائی ممنون احسان ہونا چاہیے جس نے اُن کی پر داخت کی انہیں پروان چڑھایا اُنہیں لاہور کے ایک کاروباری سے پنجاب کا وزیرخزانہ بنایا یعنی پیسوں کی مشین پر بٹھایا اور یہ محترم مشہور ہوئے، اِن کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ تک پہنچایا یوں فوج کی انگلی پکڑ کر چلتے چلتے یہ وزارت عظمیٰ تک پہنچے ،مجھے فوج سے بھی گلہ ہے کہ اُس نے اس شخص کی پہچان کیوں نہ کی جو اپنی ذات کے لیے ملک کی عزت کا سودا کر سکتا ہے ۔ اِن محترم کا قومی سلامتی کے اداروں پر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں ہے وہ تو مشرقی پاکستان میں بھی اپنی ہی فوج کو قصوروار اور قوم کے غدار مجیب الرّحمن کو بے قصور قرار دے چکے ہیں۔ یہ اپنے جلسوں میں جب تک فوج کے خلاف ہر زہ سرائی نہ کرلیں انہیں چین نہیں آتا یہی حال ان کی صاحبزادی مریم نواز کا ہے جو چند رٹے رٹائے جملوں کے ردو بدل سے ایک ہی بات دہراتی ہیں انہیں پر چی کی عزت اس لیے پیاری ہے کہ اسی کے ذریعے وہ پاکستان کی شہزادی بن جاتی ہیں ورنہ ان کی قابلیت سے تو وہ اس قابل بن نہیں سکتی، آج کل بھی یہ دونوں ’’عظیم‘‘ باپ بیٹی خود کو عوام کی قوت کا مظہر سمجھتے ہوئے ہر جائز و ناجائز منہ سے نکال رہے ہیں۔ پہلے خوب عدلیہ مخالف تحریک چلائی گئی جس نے انہیں ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ناہل قرار دیا خیر یہ تحریک چلاتے چلاتے وہ پھر پلٹ کر فوج کے اوپر گرجے اور ساری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنے۔ اِن صاحب کی بھارت نوازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اپنے کاروباری مفادات کی خاطر یہ اکثر بھارت کی مدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس بار تو انہوں نے حد کر دی کہ وہ الزام جس کا دفاع کرتے کرتے پاکستان نے دس سال گزار دیے، خود کو عوام کا انتخاب کہنے والے ملک کے ایک سابق وزیراعظم نے اپنی نا اہلیت کا بدلہ لینے کے لیے ملک کی عزت کا سودا کیا۔ یہ یاد رہے کہ اس حادثے میں ایک سوچھیاسٹھ افراد مارے گئے تھے اور ان میں دس افراد نے حصہ لیا نو مارے گئے اور صرف ایک زندہ بچا۔ زندہ بچ جانے والے اجمل قصاب کو بھارت نے پھانسی کی سزا دی اور ایک نکتہ نظر کے مطابق جلد بازی میں دی تاکہ ثبوتوں کو ختم کیا جائے۔ بھارت کے اندر سے بھی کئی لوگوں نے اس واقعے کو بھارت کی اندرونی سازش کہا تھا لیکن ہمارے نا اہل وزیراعظم اس بات کا الزام پاکستان کو دے رہے ہیں جبکہ انہی نواز شریف نے بھارت کے جاسوس کلبھو شن کے خلاف کبھی ایک لفظ نہیں بولا اپنی رائے تک نہیں دی۔ سمجھوتہ ٹرین میں زندہ پاکستانی جلائے گئے اور اس کا ماسٹر مائنڈ ایک بھارتی کرنل پروہت تھا لیکن اُس کا دکھ نواز شریف کو نہیں ستایا۔ وہ بڑی دردمندی سے پاک بھارت مسائل کو حل کرنے کی بات کرتے ہیں کہ جنگ نہ ہو اور مسائل حل ہوں لیکن اپنے ہی ملک پر الزام تراشی کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں یا شاید اس خواہش کے ساتھ کرتے ہیں کہ بھارت پاکستان پر حملہ آور ہو ۔ بھارت جو اپنے ہاں ہونے والی ہر دہشت گردی یہاں تک کہ بقول بعضے اپنے ہاں سڑک پر ہونے والے حادثے کا ذمہ دار بھی پاکستان کوقرار دیتا ہے اس کے منہ میں ہم ایک اور بات رکھ دیتے ہیں ایک اور الزام اسے خود پکڑا دیتے ہیں کہ یہ بھی ہم پر لگاؤ ۔بھارت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ مسلمانوں کے قاتل بھارتی وزیراعظم مودی سے ذاتی دوستی قائم کی گئی۔ اپنے لیے تجارتی شریک بھارت میں ڈھونڈے، تجارتی شریک پر اعتراض نہیں قومی مفادات کے سودے پر ہے ۔ کارگل پر متنازعہ بیانات بھی نواز شریف کا ہی کریڈٹ ہے ۔یہی نوازشریف جب لندن جاتے ہیں تو بھارتی سفارت خانے کی زیارت پر ضرور جاتے ہیں اسرائیلی سفارت خانہ بھی اِن کی پسندیدہ اور رازونیاز کی جگہ ہوتی ہے اور وہ وہاں کے سینئیر ترین افسران سے ملاقات فرماتے ہیں اور انہیں اُس وقت اُس ووٹ کی اہمیت اور حرمت کا کوئی خیال نہیں ہوتا ،اُسی عوام کے ووٹ کا جن کے لیے بھارت نے پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک مسائل ہی پیدا کیے ہیں ان کے ملک کو دولخت کیا سالہا سال سے ان کے لیے دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل کھڑے کیے رکھے ہیں۔ نواز شریف صاحب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عزت انہیں اسی پاکستان نے دی ہے وہ اگر بھارت میں رہ جاتے تو شاید اُسی آبائی کار و بار سے آگے نہ بڑھ پاتے انہیں تو ہر ہرقدم پراس ملک اور اِس کے عوام کا ممنون احسان ہونا چاہیے نہ کہ یوں اس کی سبکی کریں۔کسی فوجی جنر ل سے اُن کا ذاتی اختلاف یا دشمنی بھی قبول ہے لیکن اس ادارے کو یوں نشانہ بنانا ہر گز جائز نہیں۔وہ جس امن کو قائم کرنے کے دعوے کرتے پھرتے ہیں اس کے قیام کے لیے ان فوجیوں کی قربانیوں سے تو دشمن کو بھی انکار نہیں لیکن اپنے ہی ملک میں مختلف ناموں سے ان کا مذاق اُڑایا جا تا ہے شرپسندوں کے آگے کھڑے قوم کے قابلِ فخر جوانوں کو خلائی مخلوق اور معلوم نہیں کیا کیا کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ سیاستدان اپنے پھیلائے ہوئے گند کو جب سمیٹ نہیں پاتے تو فوج کو حکم دیا جاتا ہے اور فوج اُسے صاف کرنے کے لیے اپنا طریقہء کار اختیار کرتی ہے تو اُس پر ہزاروں الزامات لگا دیے جاتے ہیں۔ پھر ایک اجلاس بُلایا جاتا ہے اور پوری مشینری اپنے قائد کے بیانات کے لیے مختلف توجیہات اور معانی تلاش کرتی ہے۔جمہوریت کے گُن گانے والے یہ رہنما جمہوریت سے یہی مراد لیتے ہیں کہ جو چاہو کہہ لو یہ نہیں کہ یہ عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی نظام حکومت ہے لیکن یوں قومی اور قومی سلامتی کے اداروں اور ملکی وقار پر حملوں کا روا ج بند ہو جانا چاہیے اور اس کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہیے کہنے والے توکہہ جاتے ہیں لیکن ملک کونئی مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔ نواز شریف نے تو جو فرمانا تھا فرما لیا لیکن پوری دنیا سے پاکستان پر انگلیاں اُٹھ گئیں اور بھارت کی حکومت اور میڈیا نے تو جشن منایا انہیں تو ان ایک سوچھیاسٹھ افراد کا خون بھی بھول گیا بلکہ اس کی قیمت ادا ہو گئی۔ میاں صاحب! نااہلی اتنی بڑی بات نہیں تھی لیکن جب تاریخ آپ کے بارے میں اپنے الفاظ کا چناؤ کرے گی تو وہ تکلیف نااہلی کی تکلیف سے بہت زیادہ ہوگی ورنہ تو آزمائش شرط ہے۔