بپن راوت! پاکستان کا سپاہی بھارت کے جرنیلوں سے زیادہ تجربہ کار ہے
نغمہ حبیب
بھارت کے آرمی چیف بپن راوت نے بھڑک ماری اور بے سوچے سمجھے ماری کہ پاکستان کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے جنرل صاحب بھول گئے کہ پاک فوج اور پاک عوام کو پہلے ہی پورا سبق یاد ہے اُسے معلوم ہے کہ دشمن چاہے اُس سے کئی گنا بڑی فوج رکھتا ہے ہتھیار بھی ہر سال خریدتا ہے اور ڈھیروں ڈھیر خریدتا ہے اُس سے کیسے نمٹناہے اُس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے وہ یہ بھی بھول گیا کہ پاکستان کا نوجوان افسر اور سپاہی اْسی یعنی بھارت کی سازشوں کے نتیجے میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ لڑکر اُس کے جرنیلوں سے زیادہ تجربہ کار ہو گیا ہے وہ تو چھپے دشمن سے بڑی کامیابی سے لڑ رہا ہے تو جانے پہچانے سے جنگ تو اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ۔ وہ اِس دشمن کی ہر چال سے آگاہ ہے کہ آگے سے کیسے وار کرتا ہے اور پیچھے سے کس طرح چوروں کی طرح آتا ہے کیونکہ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کامنصوبہ ساز کون ہے ہاں بپن کو یہ بھی یاد دلانا ہے کہ پاکستان بھوٹان اور سکم نہیں جو بھارت کی گود میں جا گرے گا ایک مسلمہ اور مصدقہ ایٹمی قوت ہے اور بھارت کا دور ترین شہر بھی ہمارے ایٹمی میزائلوں سے بس چند منٹ کے فاصلے پر ہے دلی، امرتسر اور چنائے جیسے شہر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں اور جہاں تک بپن راوت یہ بولا ہے کہ پاکستان کو درد محسوس کرانا ہے تو بپن صاحب جو کچھ آپ نے پاکستانی عوام کے ساتھ کیا ہے اور جس دہشت گردی میں اُسے جھونکا ہے اپنے جتنے پالتو تم نے افغانستان میں لا کر بٹھائے ہیں اور وقتاََ فوقتاََ وہ تمہاری پکار پر دم ہلاتے ہوئے نکل کھڑے ہوتے ہیں اگر یہ سب انسانی حقوق کے کسی حقیقی اور منصف ادارے کے سامنے رکھ دیا جائے اور غیر جانبدار فیصلہ ہو تو بھارت یقیناًانسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا بہت بڑا مجرم قرار دیا جائے گا۔ بھارت ساری دنیا میں پاکستان کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ وہ اس کے ملک میں دراندازی کر رہا ہے اب بھی اُس نے ایک ایسے ہی واقعے کو بہانہ بنا کر مذاکرات سے انکار کیا ان کے ایک پولیس آفیسر کا کشمیری مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوا ہے اور پھر اس کی لاش کی بے حرمتی کی گئی ہے دراصل مودی سرکار نے غلطی سے مذاکرات کی دعوت قبول تو کر لی جو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے دی گئی تھی لیکن بعد میں اُس نے اِن مذاکرات سے انکار کیا اور یوں بین الاقوامی اصولوں کی دھجیاں بکھیر دیں اور ساتھ ہی دو کام کیے ایک یہ کہ اپنی سرحدوں کے اندر ہونے والے ایک واقعے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا دوسرا یہ کہ اُس کے آرمی چیف نے پاکستان کے لیے دھمکی آمیز لہجہ اور الفاظ استعمال کیے بغیر یہ سوچے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔بھارت کی طرف سے یہ رویہ کوئی پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا وہ اکثر اوقات اپنی طاقت کے زعم میں بہک کر ایسی باتیں کرتا ہے اور خود کو خطے کا چودھری تسلیم کروانے کی کوشش کرتا ہے پاکستان کے بارے بھارت یہ پروپیگنڈا کرتا پھرتا ہے کہ وہ کشمیر میں تحریک آزادی کو مالی، عددی اور تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے بلکہ اس تحریک کو چلارہا ہے اور آئی ایس آئی ہی وہ ادارہ اور قوت ہے جو مجاہدین کشمیر کو بھارت کے خلاف آمادہ پیکار رکھتاہے چلیں مان لیا کہ ایسا ہے لیکن درجن بھر آزادی کی دیگر تحریکوں کے بارے میں بھارت کا کیا خیال ہے وہ کس کی ایما پر چل رہی ہیں کیا اُدھر بھی پاکستان کا ہاتھ ہے اور کیا وہ سب بھی پاکستان کے اشارے پر چل رہے ہیں اگر ایسا ہے تو کیا پھر بہتر نہیں کہ بھارت کی حکومت پاکستان کے حوالے کر دی جائے۔ دراصل جب بھی بھارت سے اپنے مسائل نہیں سنبھلتے تو اپنے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے وہاں کی حکومت یا کوئی بڑا عہدہ دار پاکستان کے خلاف کوئی بیان دے دیتا ہے اور پورا بھارتی میڈیا جنونی انداز میں اسے موضوع بحث بنا لیتا ہے معلوم نہیں بپن بچارے نے کس کیفیت میں یہ بیان دیا اور بھارت کے جنونیوں نے اسے سنجیدگی سے لے لیا اُس کی حکومت نے بھی مذاکرات سے انکار کر دیا لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ پاک فوج نے بڑی متانت اور سنجیدگی سے بڑا کرار جواب بھارت کو دیا اور اُسے یاد دلایا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اس کی فوج دنیا کی بہترین اور بہادر ترین افواج میں سے ہے اور یہ بھی کہ بحیثیت بہترین مسلمان فوج اور ایٹمی قوت کے وہ ایسی گری ہوئی حرکت نہیں کر سکتا کہ ایک لاش کو خراب کرے لہٰذا اُس کا الزام سراسر بے بنیاد ہے ہم جنگ کے لیے تیار ہونے کے باوجود امن کی خواہش رکھتے ہیں لیکن امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔بھارت کو پہلے بھی جب بھی جنگی جنون ہوا ہے اور اُسے یہ یاد کرو ا دیا گیاکہ وہ کسی معمولی ملک سے بات نہیں کر رہا بلکہ ایٹمی قوت سے مخاطب ہے تو اُس کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے لیکن پھر کمزور یاد داشت کے باعث کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ کسی ایسی حرکت کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ بسا اوقات اُس کے اندرونی مسائل اور ناکامیاں ہوتی ہیں۔ اس وقت بھی بھارت وہ ملک ہے جس میں ترقی کے بے شمار دعوؤں کے باوجود غربت انتہا درجے پر پہنچی ہوئی ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ غریب یعنی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے اسی ملک میں بستے ہیں، پورے پورے خاندان فٹ پا تھوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت اسی بات سے پریشان ہے کہ ان کے لیے لٹرین کیسے بنائے جائیں گھر اور چھت تو دور کی بات ہے۔ حکومت بد عنوانیوں کے الزامات اور اقدامات میں الگ بُری طرح جکڑی ہوئی ہے عوام اس سب کچھ پر سراپا احتجاج ہیں۔ علحدگی کی تحریکیں اس کا سب سے بڑا درد سر ہے تری پورہ کو بھگتے تو خالصتان وہاں سے فرصت ملے تو نا گا لینڈ وہاں سے جان چھوٹے تو جھارکنڈکس کس کو بھارت روئے ایسے میں وہ بچارہ یہی کر سکتا ہے کہ کشمیر اور پاکستان پر سارا غصہ نکالے لہٰذا ایسے میں بپن اپنے عوام کو کسی اور رُخ لگائے گا اور یہی اُس نے کیا اور پاکستان کو دھمکی دیتے وقت اس نے اپنی سیاسی حکومت کے نمائندے کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی تا ہم پاکستانی عوام سیاسی جماعتوں اور حکومت سب نے جس طرح بیک زبان اُسے جواب دیا وہ اُسے آئینہ دکھانے کو کافی تھا۔ بپن کے لیے تجویزیہ ہے کہ اپنی حکومت کی ناکا میوں کو چھپانے کی کوشش نہ کرے بلکہ اُسے اپنے وسائل کو عوام کے مسائل پر خرچ کرنے کا مشورہ دے نہ کہ اُسے خطے میں بدامنی پر خرچ کرے اور اسلحے کے ڈھیر لگائے۔ اسلحے کے ڈھیر کی بجائے وہ فٹ پاتھوں پر کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے خاندانوں کے لیے کوئی گھر بنادے تو زیادہ بہتر ہوگا ورنہ پاکستان کو دھمکیاں دیتا رہے گا جو کہ اُس کے لیے مہنگا سودا ثابت ہو گا۔