بھارت میں ایوانوں تک پہنچنے کا معیار ہندو شدت پسندی
Posted date: April 28, 2020In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
بھارت بیس کروڑ مسلمانوں کا ملک ہے لیکن اس ملک میں اِن بیس کروڑ مسلمانوں کی حیثیت بس اتنی ہے کہ جس کا دل چاہا جہاں چاہا انہیں نشانہ بنا لیا جُرم کو ئی ہو نہ ہووہ مجرم بن جاتے ہیں اور ان کے خلاف کام کرنے والے ہیرو۔بی جے پی کا نریندرا مودی ہو یا کانگریس کی اندرا گاندھی ان کے عظیم ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ مسلمانوں کے قاتل ہیں چاہے وہ مسلمان بھارت کے اندر کا ہو یا پاکستان کا۔ان کو ووٹ ہی اسی بات کا ملتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی کتنی تذلیل کی ہے یا ان کا کتنا قتل عام کیاہے۔بھارت میں ہندو شدت پسند اس تسلی کے ساتھ ہی الیکشن میں جاتا ہے کہ جیت اُس کی ہو گی۔یہاں اچھی خاصی بڑی مسلمان آبادی کے حلقوں میں بھی مسلمان امیدوار کو کھڑا کرنے کا رسک کو ئی پارٹی نہیں لیتی اور خاص کر بی جے پی جیسی جماعتیں تو شدید نظریات کے حامل امیدوار وں کو ہی موقع دیتی ہے تا کہ اُسے حکومت کرنے میں آسانی رہے اور کہیں سے کوئی مزاحمت نہ آئے۔اب کے بھی اُس نے مدھیہ پردیش سے ایک ایسی امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے جو ثابت شدہ دہشت گرد ہے۔ سادھوی پر اگیا سنگھ ٹھاکر کا نام اس پارٹی کے لیے خاص کر قابل احترام ہے کہ اُس کے اوپر مسلمانوں پر حملوں کے نا قابل تردیدالزامات ہیں اور انہیں الزامات میں اُس نے نو سال جیل میں گزارے لیکن 2015 میں اُسے ضمانت پر رہا کیا گیا۔سادھوی نے29 ستمبر2008 کو مالیگاؤں میں دو بم دھماکے کروائے ان بموں کو ایک موٹر سائیکل پر فٹ کیا گیا اور شواہد اور ثبوتوں کے مطابق یہ موٹر سائیکل سادھوی پراگیا سنگھ ٹھاکر کی تھی ان دھماکوں میں سات افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے یہ دھماکے مسلمان اکثریت کی ایک مارکیٹ میں اُس وقت ہوئے جب مسلمان روزہ افطار کر رہے تھے۔اس دہشت گردی میں اُس کے ساتھ کئی دوسروں سمیت بھارتی فوج کے کاونٹر ٹیررازم کے کرنل سری کانت پروہت بھی شامل تھا۔اس واقعے کے تفتیشی افسر ہمنت کرکرے کو بعد میں قتل کر دیا گیا اور سادھوی کو ایک طرح سے عدالت سے کلین چٹ دے دی گئی تا ہم اُس پر مقدمہ جاری رکھا گیا۔یہ کوئی ایک جرم نہیں جو اس کے ذمے ہے اسی عورت نے 2007 میں اجمیر شریف کی درگاہ میں ہونے والے دھماکوں میں بھی اہم کردار ادا کیا یہ اور بات ہے کہ بھارت کے قومی تفتیشی ادارے این آئی اے نے نہ صرف اسے بلکہ آرایس ایس کے ایک لیڈر اندیش کمار دونوں کو بری کر دیا جبکہ آر ایس ایس کے لیڈر سوامی آسیم آنند نے یہ اقرار کیا کہ اس واقعے میں ہندو شدت پسند ملوث تھے بلکہ یہ تمام تر انہی کی منصوبہ بندی اور کارستاتی تھی لیکن یہ شدت پسند دہشت گردی کر کے بھی انتخابات میں حصہ لینے کے اہل قرار پاتے ہیں اور وہ بھی مذہبی انتہا پسندی بلکہ دہشت گردی کے بعد لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بھارت میں تو حکومتی ایوانوں تک پہنچنے کا معیار ہی ہندو شدت پسندی ہے ورنہ آج ایک شدت پسند اُس کا وزیراعظم نہ ہوتا۔ اگرچہ کچھ لوگوں کی طرف سے سادھوی کی نامزدگی کی مذمت بھی کی گئی ہے لیکن یہ بھی زیادہ تر مسلمانوں کی طرف سے ہے۔ محبوبہ مفتی نے نے اس نامزدگی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس غصے اور ناراضگی کا اندازاہ لگایئے جو اگر میں کسی دہشت گرد کو انتخابات کے لیے نامزد کرتی تو فوراََ اسے محبوبہ دہشت گردی کا نام دے دیا جاتا۔معروف فلمی نغمہ نگار اور سیاستدان جاوید اختر نے اسے شرم ناک قرار دیا۔اسی سادھوی نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ اُسے فخر ہے کہ اُس نے بابری مسجد کے انہدام میں حصہ لیا اس سے یقیناََ بی جے پی کے نکتہء نظر کی مزید وضاحت ہو گئی ہے لیکن پھر بھی بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اُس کی ایجنسیاں ہندو کے کیے ہوئے جرائم پر پردہ ڈال دیتی ہیں بلکہ اُن کے کیے ہوئے کو مسلمانوں سے جوڑ کر انہیں جیلوں میں بھر دیا جاتا ہے ایسا ہی مالیگاؤں کیس میں ہوا جہاں بے گناہ مسلمان نوجوان لڑکوں پر الزام لگا دیا گیا۔آسیم آنند نے اعتراف ِجُرم کیا اور پھر اپنے بیان سے پھر گیا اور این آئی اے نے مُجرموں کے لیے سدا بہار جملے ”ناکافی ثبوتوں“ کی ادائیگی کے ساتھ بَری کر دیا۔بھارت میں عام عدالت ہو یا اس کی سپریم کورٹ مسلمانوں کے لیے اُس کے اصول الگ ہیں اور ہندؤں کے لیے الگ۔بھارت کی انہی عدالتوں نے ایسے کئی مواقع پر جب مسلمان ہی مارے گئے مسلمانوں کو ہی سزا دی اور پکڑے گئے ہندو چھوڑ دیے ایسا ہی ایک کیس ہا شم پورہ میں ہوا۔ 1987 میں 42مسلمان نوجوانوں کو اغوا کر کے قتل کیا گیا اور کچھ دن بعد اُن کی لاشیں ایک نہر میں تیرتی ہوئی سطح آب پر آگئیں۔19افراد کو اس الزام میں پکڑا گیاطویل مقدمہ چلا تین افراد اسی دوران مر گئے جبکہ باقی سولہ کو ”ناکافی ثبوتوں“ کی بِنا پر رہا کر دیا گیا۔بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمان خاص کر اور دوسری اقلیتیں بھی اسی طرح کے”انصاف“ کا شکار رہتی ہیں۔1984کا سکھ قتلِ عام بھی سب کی یادشتوں میں محفوظ ہے۔اس ملک میں نہ عیسائی محفوظ ہیں نہ نچلی ذاتوں کے ہندو نہ سکھ لیکن دنیا کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان جس مذہبی دہشت گردی سے گزرتے ہیں وہ خاص حکومتی سرپرستی کا شاخسانہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ این آئی اے جسے بظاہر دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بنا یا گیا وہ خود مسلمانوں کے لیے ایک دہشت گرد ادارہ بن چکی ہے جس نے کئی واقعات میں مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف ہی مُجرم ٹھہرایا اور ہندو شدت پسندوں کے لیے ڈھال بنا۔اس نے مالیگاؤں، اجمیر شریف، سمجھوتا ٹرین اور گجرات قتلِ عام سمیت کئی دوسرے واقعات میں ہندو شدت پسند دہشت گردوں کو کلین چٹ دے کر انہیں اگلی دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل کرنے کے لیے آزاد کر دیااور سادھو ی کو تو پارلیمنٹ تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوا۔سادھوی تو ایک دہشت گرد ہے جس کو اس کا تعاون حاصل ہے اور ایسے دوسرے کئی سدھوی اور سادھو موجود ہیں جو این آئی اے سے بے گناہی کے پروانے لے کر جرائم کر رہے ہیں اور دوسری طرف مسلمان اُس کے نشانے پر ہیں۔کشمیر کے آزادی کے لیے لڑتے ہوئے رہنما اُس کی نظر میں دہشت گرد ہیں لیکن آسیم آنندبے گناہ جو مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کو عین اعزاز سمجھتا ہے اور کھلے عام ”ہندوتا“ کے نظریے پر عمل کر کے بھارت کو دوسرے ہر مذہب سے پاک کر نے کی باتیں کرتا ہے، اس سب کچھ میں انہیں مکمل حکومتی تعاون حاصل ہے اور سادھوی کی نامزدگی اسی بات کا ثبوت ہے۔اس کا انتخاب ہو جانا یا نہ ہو نا ایک الگ بات ہے جو کہ بھوپال کے حلقے میں کافی حد تک متوقع ہے لیکن اس نے کم از کم بی جے پی کے متعصب ہونے کا ایک اور ثبوت فراہم کر دیا ہے اور بھارت کے سیکولرازم کے پردے میں ہندو جنونیت کا راز بھی فاش کر دیا ہے جس کی اسمبلیوں تک بیس کروڑ مسلمانوں میں سے گنتی کے چند ہی مشکل سے پہنچ پاتے ہیں لیکن سادھوی جیسے دہشت گرد بڑی آسانی سے یقینی جیت کے حلقوں سے انتخاب لڑسکتے ہیں تو کیا یہ بہتر نہ ہو کہ اگر ایک ملک کا وزیر اعظم اور ممبران اسمبلی دہشت گرد ہیں تو اُسے دہشت گرد قرار دے دیا جائے یا کم از کم ایسا سمجھ ہی لیا جائے۔