معاشرتی اور اخلاقی اقدار۔۔۔شکست و ریخت کا شکار
نغمہ حبیب
معاشرتی اور اخلاقی اقدار کسی بھی معاشرے کی شناخت اور پہچان ہوتے ہیں۔ہر معاشرے کی بنیاد کچھ اچھی روایات سے مل کر بنتی ہے۔یہ اپنے لیے آئیڈیل قسم کے اصول وضع کرتا ہے اور پھر ضروری قرار دیتا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنا یا جائے۔یہ اچھی اقدار ازل سے پسندیدہ سمجھی جا رہی ہیں اور اس کے خلاف عمل کرنے والے ناپسندیدہ افراد کہلاتے ہیں۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارامعاشرہ اچھے اصولوں اور عادات سے دور ہوتا جا رہا ہے اور ایسی شکست و ریخت کا شکار ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارے حال پر رحم کرے۔ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا اور بقول قائد اعظم کے یہ ایک تجربہ گاہ ہے جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم کہتے تو خود کو عظیم مسلمان ہیں لیکن ہم نے عظیم اسلامی اصولوں کو بھلا دیا۔ہمارے معاشرے میں وہ برائیاں در آئیں ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قدیم قوموں پر عذاب نازل کیے تھے لیکن ہم بلا خوف و خطر یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ اگر میں اہل سیاست کو لوں تو سیاست جو ایک باعزت اور باوقار فعل تھاآج شائستگی سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے سیاست دان منبروں پر کھڑے ہو کر ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کرتے ہیں کوئی مہذب شخص کم از کم اپنے گھر میں وہ زبان برداشت کرنے کو تیار نہیں اور یقینا یہ سیاست دان بھی اپنے بچوں کو تاکید کرتے رہے ہوں گے کہ وہ یہ الفاظ استعمال نہ کریں لیکن سیاست جو اعلیٰ اخلاق کی توقع رکھتی ہے وہی اس سے عاری ہوتی جا رہی ہے حالانکہ مقابلہ بغیر ایک دوسرے کی بے عزتی کے بھی کیا جا سکتا ہے بلکہ کیا جانا چاہیئے۔پھر یہی اہل سیاست جب حکومت میں آتے ہیں تو کسی بھی قسم کی بد عنوانی یعنی کرپشن کو اپنے لیے جائز سمجھنے لگتے ہیں اور یوں عام عوام کے لیے ایک غلط مثال پیش کرتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ مرض عوام میں کچھ کم ہے اس کی یہاں بھی بہتات ہے اور”فکر ہر کس بقدر ہمت اوست“یعنی جس کی جتنی پہنچ ہے اتنا حصہ وہ ڈال رہا ہے اور اتنا ہی دوسرے کو متاثر کر رہا ہے۔ قابلِ معافی وہ بھی نہیں جو صرف افسرانِ بالا سے ملاقات کروانے کے ہزار پانچ سو روپے لیتا ہے لیکن وہ ایک شخص کو متاثر کرتا ہے کیونکہ اس کی بساط اِتنی ہے اور حکمران پورے ملک کو متاثر کرتا ہے کیونکہ اس کی بساط اُتنی ہے۔اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کرپشن نے پورے معاشرے کو بیمار کر رکھا ہے۔ٹیلنٹ دور کھڑا کہیں رو تا ہے جب سفارشی نوکری پاتے ہیں۔برائے نام انٹرویواور ٹیسٹ منعقد کروائے جاتے ہیں جبکہ نوکری اُسی کو دی جاتی ہے جس کا نام اوپر سے آتا ہے یا جو زیادہ رشوت دینے کی حیثیت رکھتا ہے۔یہی حال آپ کی عدالتوں کا ہے کہ ہزار روپے کا چور جیل کے اندر ہے لیکن اربوں کی گندم اور چینی کھا جانے والے بڑے طمطراق سے اپنی اپنی جاگیروں پر اپنے اپنے محلات میں آرام سے رہ رہے ہیں اور تو چھوڑئیے یہاں تو دوا دارو پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اگر ایک معاشرہ زندگی بچانے والی دوائیوں کو بھی پہنچ سے باہر کر دے تو اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے۔دراصل کرپشن یہاں ہر شعبہء زندگی میں سرایت کر چکی ہے جس کا جتنا بس چلتا ہے اتنی بدعنوانی کر رہا ہے۔اگر پھل والا خراب پھل بیچتا ہے تو کارخانہ دار سستا خام مال استعمال کرتاہے اور مصنوعہ یعنی پراڈکٹ مہنگے داموں بیچتا ہے جس کی اصل قیمت کہیں کم ہوتی ہے۔اب اگر معاشرے کے دوسرے اخلاقی پہلوؤں کا جائزہ لیں تو اس کی حالت بھی کچھ کم خراب نہیں، ہم جھوٹ بولتے ہیں، بہتان طرازی کرتے ہیں،عدم برداشت کا ہم شکار ہیں اور یہی بظاہر چھوٹی نظر آنے والی خامیاں بڑی بڑی برائیوں کو جنم دیتی ہیں۔بنی پاک حضرت محمدﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور اپنی کچھ برائیوں کا ذکر کیا اور فرمایا مجھے نصیحت کیجئے کہ کونسی برائی چھوڑ دوں آپﷺ نے بڑے بڑے گناہ کے کام مثلاََ بد کاری اور جواء چھوڑ کر فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو اُس نے جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کر لیا کہتا ہے رات کو جب شراب نوشی کا خیال آیا تو ہاتھ نہ لگایا کہ جب رسول اللہ ﷺ صبح پوچھیں گے تو جھوٹ بولنا پڑے گا اس طرح بد کا ری کا سوچا اور جھوٹ بولنے کے ڈر سے چھوڑ دیا جواء نہ کھیلا کہ پھر اسے چھپانے کو جھوٹ بولنا پڑے گا اور یوں تمام گناہوں سے بچ گیالیکن ہم اپنے ہر گناہ کو جھوٹ کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کرپشن، رشوت، سفارش،ذخیرہ اندوزی،بدکاری، بہتان طرازی اور الزام تراشی سب کچھ کیے جاتے ہیں کہ جھوٹ بول کر اسے چھپا لیں گے اور یوں خرابیاں آگے ہی آگے پھیلتی جاتی ہیں اور ہم پیچھے ہی پیچھے ہٹتے جاتے ہیں کیونکہ ہمیں کوئی خوف نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سب ایک ہی بیماری میں مبتلاء ہیں اسی لیے ایک دوسرے کا خوف نہیں اور خوفِ خدا سے ہم لوگ ویسے ہی بہت دور ہوتے جا رہے ہیں ہم اپنے دیے کو چاند بنانے کے واسطے بستی کے سارے چراغ بھی بجھادیں تو بھی ہمیں کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ہم سفارش سے نوکری حاصل کر لیتے ہیں لیکن بالکل نہیں سوچتے کہ ہماری سفارش کروانے سے ہم نے تو نوکری حاصل کر لی لیکن پیچھے کتنے حقدار کتنے گولڈ میڈلسٹ اپنے حق سے محروم ہو گئے وہ جنہوں نے پوری پوری رات بیٹھ کر اس لیے پڑھا تھا کہ وہ اچھے نمبر لیں اور یہ اچھی تعلیمی قابلیت نوکری کے حصول میں اس کی مدد کرے گی۔ہم اپنے اخلاقی اقدار کو اس سطح سے پامال کرنا شروع کرتے ہیں جب ہمارا بچہ سیکھنے کی عمر میں ہوتا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے ادارتی سطح پر طلباء کو نقل کراتے ہیں جب شاگرد اپنے استاد اور یا ادارے کے سربراہ کو یہ سب کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو ظاہر ہے کہ اگر تمام نہیں تو ایک بڑا حصہ اس سب کو جائز سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور ساری عمر کے لیے اسے اپنا وطیرہ بنا لیتا ہے وہ تعلیم کے دوران بھی اور بعد میں عملی زندگی میں بھی یہی طریقہ اپنائے رکھتا ہے اور یوں تعلیمی معیار کی تنزلی کا باعث بھی بنتا ہے اور جب سفارش سے نوکری حاصل کر لیتا ہے تو اسی طرح اس ادارے کی بربادی کا باعث بن جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہت اچھے اچھے ادارے اپنی ساکھ کھو بیٹھے ہیں۔پی آئی اے اس کی زندہ مثال ہے اوریہی سلوک سفارشی ٹولہ دوسرے اداروں کے ساتھ کرتا ہے۔افسوس ہی اس بات کا ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم، بحیثیت ریاست اور بحیثیت معاشرہ عروج نہیں بلکہ زوال کی طرف ہی سفر کیا ہے اور اس کے اسباب میں کرپشن، جھوٹ،دھوکہ دہی، عدم برداشت اور وہ سارے نا پسندیدہ عوامل شامل ہیں جن کو کرتے ہوئے ہم کوئی ندامت محسوس نہیں کرتے بلکہ”نظریہ ء ضرورت“ کے تحت سب جائز سمجھتے ہیں۔کسی زمانے میں جو الفاظ بہت قابلِ اعتراض اور معاشرتی برائی سمجھے جا تے تھے سیاسی جلسے کھلم کھلا استعمال کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر تو جیسے سب کچھ جائز ہے۔سیاسی جلسے شریفوں کے سننے کے قابل نہیں رہے اور انہی جماعتوں نے سوشل میڈیا ٹیمیں بنائی ہوئی ہیں جو اخلاق سے گرے ہوئی الفاظ کو بڑے فخر سے استعمال کرتے ہیں اگر سوشل میڈیا کو ہی لگام ڈال دی جائے تو بھی کافی فرق پڑے گا اور اسی طرح اگر ہم نے کرپشن،جھوٹ اور دھوکہ دہی کو ہی قابو کر لیا تو یقینا ہم ایک بہتر راستے پر چل پڑیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک مستحکم قوم بنانے کا عزم کر لیں اور قرآن و سنت کو اپنا رہنما بنا لیں تو ہم اچھے معاشرے کی تعمیر کر سکیں گے۔