ولی الرحمان کی ہلاکت اور تحریک طالبان کے اندرونی انتشار
(ایس اکبر)
تحریک ِ طالبان جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ہر ظلم اور شیطانیت کی حد سے گزرجانے کے درپے ہےاوراپنی ذاتی اور سیاسی مقاصد کی جنگ کو جہاد کا نام دے کر بہت سے معصوم نوجوانوں کو خودکش حملوں میں استعمال کر رہی ہے۔ آج خود اندرونی انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔ گزشتہ دنوں ڈرون حملے میں ہونے والی ولی الرحمان کی موت در اصل طالبان کے آپسی انتشار کا نتیجہ ہے۔ان کے ذاتی نظریات میں اختلاف اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ ولی الرحمان کی ہلاکت کے بعد نیا منتخب ہونے والے نائب امیر کے انتخاب پر بھی کئی اختلاف منظرعام پر آئے۔
ولی الرحمان کا لعدم تحریکِ طالبان کا نائب امیر تھا۔یہ بیت اللہ محسود کے دور میں اس تنظیم کا ترجمان بھی رہ چکا ہے اوراسے حکیم اللہ محسود کے بعد تنظیم کا دوسرا اہم ترین کمانڈر تصور کیا جاتا تھا۔ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تنظیم دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے ایک گروپ ولی الرحمان کے نظریات کا حامی ہے اور دوسرا حکیم اللہ محسود کے نظریات کا۔ آئے روز میڈیا میں ان دو گروہوں کے مابین پائے جانے والے آپسی اختلافات کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ تنظیم شدید آپسی اختلافات کا شکار ہے۔باوثوق ذرائع اور میڈیا کے مطابق بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ولی الرحمان اور حکیم اللہ کے مابین کئی عرصے تک اقتدار کی جنگ چلتی رہی ۔گو کہ ولی الرحمان حکیم اللہ کا نائب مقرر ہوا لیکن دونوں ہی تحریک طالبان کی قیادت کے خواہش مند تھے۔ اسی آپسی انتشار کی وجہ سے تحریک طالبان شدید توڑ پھوڑ کا شکار ہوئی، یہاں تک کہ یہ گروہ متعدد چھوٹے گروپوں میں بٹ گیا اور ایک گروہ کا دوسرے گروہ پر حملہ کرنا روز کا معمول بن گیا۔ اسی اثناء میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ولی الرحمان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر انعام کی رقم کے طور پر 5 ملین ڈالر مختص کئے گئے۔ اس رقم کے مختص ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد ولی الرحمان ڈرون حملے میں ہلاک ہوگا۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی گزشتہ دنوں شائع ہونے والے بیان کے مطابق ولی الرحمان کی ہلاکت تحریک طالبان کے کمانڈر حکیم اللہ محسود کے ایک ساتھی کی مخبری پر ہوئی۔ مقامی ذرائع کے مطابق حکیم اللہ نے آپسی اختلافات کم نہ ہونے پر ولی الرحمان کو قتل کروایا۔ قتل کی وجوہات بتاتے ہوئے مقامی عمائدین کا کہنا تھا کہ ولی الرحمان در اصل حکیم اللہ محسود کے برعکس قدرے امن پسند تھا جبکہ حکیم اللہ محسود امن وامان پر یقین نہیں رکھتا۔ نئی منتخب ہونے والی حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کو ولی الرحمان نے بہت مثبت جواب کے ساتھ قبول کیا تھا اور کہا تھا کہ ہماری تنظیم باقاعدہ لائحہ عمل تیار کر کے حکومت کی اس پیش کش کے بارے میں بات کرے گی۔یہی فیصلہ ولی الرحمان اور حکیم اللہ کے درمیان ایک بار پھر اختلاف کا باعث بنا۔ولی الرحمان کے خلاف مخبری ہی اس لیے کی گئی تھی کہ وہ امن مذاکرات کے لیے مثبت سوچ رکھتا تھا اس کی ہلاکت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ تنظیم کسی طور پر پاکستان میں امن کی خواہاں نہیں ہے بلکہ دہشت گرد قتل و غارت اور ظُلم و ستم کا بازار گرم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ یہ تنظیم ملک دشمن عناصراور غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی آلہ کار ہے اور ان کے ہی ایما پر کام کرتی ہے۔
تحریکِ طالبان کے مابین بڑھتی کشیدگی سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اسلام کے نام پر کھیلی جانے والی اس جنگ اور دہشت گردانہ کا روائیوں کو جہاد کا نام دینے والے یہ انتہا پسند عناصر دراصل ذاتی مفادات کی بناء پر معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان کے اختلافات کی اصل وجوہات بھی اس حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں کہ یہ دہشت گرد ایک دوسرے سے گروہ کی قیادت چھیننے کے لیے، ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کےلیے، غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ذریعوں سے حاصل کی گئی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے اورمسلم آبادیوں پر اپنا تسلط طویل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ان کا اسلام کی سر بلندی یاشریعت کے نفاذ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ مجاہدین نہیں بلکہ فسادیوں کا وہ گروہ ہے جن کا جینا اور مرنا صرف اور صرف ذاتی مفادات کی خاطر ہےاور یہ اپنے پوشیدہ مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہر مذہبی اور اخلاقی حد پار کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کے یہ اپنے قریبی ساتھیوں کی مخبری کرنے سے بھی نہیں چونکتے۔
ولی الرحمان کی ہلاکت سےاس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک طالبان اب اپنی تباہی کےدھانے پر آچکی ہے۔ کیونکہ کسی تنظیم کی تباہی کی وجہ اگر اس تنظیم کے اندرونی اختلافات ہوں تو اُسے زوال پذیر ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ ماہرین ملکی دفاع اور دہشت گردی سے متعلق تجزیہ نگاروں کے مطابق بھی تحریک طالبان اب شدید زبوں حالی کا شکار نظر آتی ہےجو اس کے زوال کی عین نوید ہے۔ ہماری دعا ہے کہ خدا وند کریم ہمارے پیارے وطن پاکستان کو جلد از جلد ان شیطانی طاقتوں سے نجات دلوائے تا کہ پاکستان کے لوگ ایک بار پھر امن و اطمینان سے زندگی بسر کر سکیں۔