مردان نمازِ جنازہ پر خودکش حملہ
مردان کے علاقے شیر گڑھ میں نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے دوران دھماکے کے نتیجے میں رکن صوبائی اسمبلی عمران خان مہمند سمیت ۳۴ افراد شہید جبکہ ۶۰ سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ گزشتہ روز نامعلوم افراد کی فائرنگ سے قتل ہونے والے مقامی پٹرول پمپ کےمالک کی نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے دوران خودکش بمبار نے سلام پھیرتے ہی نو منتخب صوبائی اسمبلی عمران خان مہمند کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔خود کش حملہ آور کی عمر25 سال تھی اور اس کا تعلق ازبکستان سے تھا۔ پہلےبولان کمپلیکس پر حملہ اور اب مرادان میں جنازہ گاہ کو بربریت کا نشانہ بنانے سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ملک دشمن عناصر اس ملک میں جمہوریت کے قیام اور امن و امان کے فروغ کے مخالف ہیں جو صرف اور صرف اس ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ نو منتخب صوبائی اسمبلی عمران خان مہمند ان سیاست دانوں میں سے ایک تھے جو طالبان سے مذاکرات کے حامی تھے اور اس کے لیے انھوں نے عملی اقدام کے طور پر خیبر پختونخواہ کے علاقے سے کئی چیک پوسٹ بھی ختم کر دی تھی۔ طالبان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے حامی بھرلی تھی لیکن ولی الرحمان کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ہمیشہ کی طرح اپنے قول سے پھر گئے اور حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔درحقیقت خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کے ذریعے معصوم و بے گناہ انسانوں کی جانیں لینے اور ریاستی اتھارٹی کے علاوہ ملک کی سلامتی کو چیلنج کرنے والے سفاک دہشت گردوں کے ساتھ ملک کے کسی بھی طبقہ ِ فکر کو قطعاً ہمدردی نہیں ہے۔
یہ پہلی دفعہ نہیں کہ دہشت گردوں نے کسی جنازے کو اس وحشیانہ کاروائی کا نشانہ بنایاہو۔ دہشت گردوں کے بار بار سرانجام دئیے گئے یہ بہیمانہ اقدام اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ دہشت گرد عناصر کبھی بھی فاٹا اور خیبر پختونخواہ میں امن کے خواہاں نہیں ہو سکتے۔ اپنی غیر انسانی اور بزدلانہ کاروائیوں کے ذریعے یہ ملک دشمن عناصر لوگوں کو ہراساں کر کے اپنے دہشت گردانہ عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ان حملوں کا مقصد سراسر یہ ہے کہ صوبے کو غیر مستحکم اور پسماندہ رکھا جائے اور ایسے ہر اقدام کو ناکام بنایا جا سکے جس کے ذریعے علاقے میں طالبان کے اثرو رسوخ میں کمی واقعہ ہوتی ہو۔
اس دلخراش اور افسوناک واقعے کا سُن کر ہر ذی ہوش یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا یہ دہشت گرد مسلمان ہیں جو اتنی سفاکی اور بے دردی سے معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں کہ انسانیت بھی خون کے آنسو رو رہی ہے؟ یہ دہشت گرد ان کاروائیوں کے ذریعے اپنے کونسے شیطانی مقاصد کی تکمیل کرنا چاہ رہے ہیں؟ کونسی اقدار اور مذہبی تعلیمات کے تحت یہ ظالم جنازہ گاہ کو مقتل گاہ بنا رہے ہیں؟
خود کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھنے والے دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے قیمتی جانوں کےضیاع کو نہایت معمولی فعل تصور کرتے ہیں۔ ان کے لیے نہ ہی دینی تعلیمات کی کوئی قدروقیمت ہے اور نہ ہی پختون ولی کے صدیوں پرانے رسم و رواج کا پاس۔ یہاں تک کہ جنازہ گاہ کو مقتل گاہ بنانے جیسے قبیع فعال سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ظالم دہشت گردوں نے پاکستان میں خوشحالی اور ترقی کی راہیں بند کرنے کی قسم کھائی ہو ئی ہے۔ ہر طرف قیامتِ صغریٰ کامنظر برپا رکھنا ان سفاک دہشت گردوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ نئی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی ان کی ظالمانہ کاروائیوں میں مزید تیزی آگئی ہے۔ نومنتخب افراد کو نشانہ بنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ صوبے اور ملک میں آنے والی ترقی اور امن و امان کی ختم کیا جا سکے۔
دہشت گردجمہوریت کے مخالف ہیں اور اس کا خاتمہ کر کے ملک میں ایک جابرانہ نظام رائج کرنے کے خواہشمند ہیں جس کے ذریعے وہ لوگوں میں خوف و ہراس اور طالبان کی بربریت کا خوف پیدا کر سکیں۔ اس دھماکے میں عام لوگوں کو نشانہ بنانے میں عسکریت پسندوں کا یہی مقصد تھا کہ لوگوں کو خوفزدہ کرکے انہیں حکومتی صفوں میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ پہلےبھی حکومتی اہلکاروں اور قبائلی مالکان کے خلاف انفرادی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اسی مقصد کے حصول کے لیے تھے ۔ نمازِ جنازہ پر حملہ کر کے دہشت گردوں نے اپنے بے دین اور منافق ہونے کا کُھلا ثبوت دیا ہے۔دہشت گردوں کا اپنا ایک ایجنڈا ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے بلکہ ملک میں صرف افراتفری اور عدم استحکام کی فضا برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ تاکہ انھیں جمہوریت اور ملک کی سالمیت کے خلاف اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کا موقع مل سکے۔
قیام امن کے لیے نہ صرف پولیٹیکل انتظامیہ بلکہ مقامی لوگوں، عمائدین، ملک و مشران سمیت سب کو ہی اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دہشت گرد پاکستان کے زیرِ انتظام ان علاقوں میں پھر سے قدم جما سکیں۔ پاک فوج نے بیشتر علاقوں سے ان کا صفایا کر کے جو حکومتی عملداری بحال کی اب ایک بار پھر سے اسے ختم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے او ر پاک فوج کی کامیابیوں کو ناکامی میں بدلنے کے لیے بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد افغان سرحدی علاقوں سے پاکستانی حدود میں گھس کر کاروائیاں کرتے ہیں اور گمراہ ذہنوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان حملوں میں بھی ایسے ہی عناصر ملوث ہو سکتے ہیں ۔ اگر دہشت گردی میں ملوث ایسے دہشت گردانہ عناصر کی راہ نہ روکی گئی تو پاکستان میں امن و سلامتی کے ماحول کو نقصان پہنچے گا۔ان عناصر کی بروقت روک تھام وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ پاکستان میں امن وامان قائم کیا جا سکے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے ملک دشمن عناصر کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکیں۔