آل پارٹیز کانفرنس ۔ قومی استحکام کی جانب ایک مثبت قدم
ایم خان چشتی
پاکستان کو درپیش دہشت گر
دی اور انتہا پسندی کے مسئلےسے نبردآزما ہونے کے لیے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں پاک فوج کے سربراہ اور خفیہ ایجنسی کے رہنما بھی شامل ہوئے جنہوں نے دہشت گردی کے مسئلے پر ایک تفصیلی بریفنگ دی۔ کانفرنس کا اختتام 6 نکاتی اعلامیے پر کیا گیا جس کے مطابق شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے ساتھ فوری مذاکرات کیے جانے پر اتفاق رائےکا اظہار کیا گیا اور کہا کہ ڈرون حملوں کے مسئلے کو حکومتِ پاکستان کی جانب سےاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اُٹھایا جائے گا جو ڈرون حملوں کے خلاف ایک اہم پیش رفت ہوگی۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ملکی سالمیت کا ہر صورت احترام کیا جائے گا اور ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ مشترکہ اعلامیے کے دیگر نکات میں کہا گیا کہ بلوچستان میں قیامِ امن کے لیے وزیر اعلیٰ بلوچستان اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ناراض بلوچ قوم کو افہام تفہیم سے قومی دھارے میں لائیں ۔جبکہ کراچی میں امن و امان کی بحالی کے لیے تمام سٹیک ہولڈر زکو اعتماد میں لے کراُٹھائے گئے اقدامات اور وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ حکومت کی حمایت کی تعریف کی گئی۔ اے پی سی میں ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو حد درجہ ناگزیر قرار دیا گیا اوربہادر مسلح افواج پر مکمل ِ اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ علاوہ ازیں قومی یکجہتی کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ اور قومی مفادات کے تحفظ کے لیےبھرپور حمایت کی گئی۔ شرکاء نے واضح کیا کہ اس جنگ کو لڑنے کے طریقے کا تعین اپنے قومی مفاد کے مطابق کریں گے اور اس کے لیے امریکہ یا کسی دوسرے ملک کی رہنمائی نہیں چاہیے۔
اے پی سی کے شرکاء نے ملک سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے اور قومی سلامتی کے بحران پر غور کے لیے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ فوری طور پر مذاکرات شروع کیے جائیں جس کے لیے حکومت ایک مناسب میکنزم تیار کرنے کے ساتھ ساتھ رابطہ کاروں کی نشاندہی سمیت تمام ضروری اقدامات کرے۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری قرار داد کے مطابق شرکاء نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے ملک میں امن و مان کی صورتحال بگڑ رہی ہے اور دہشت گردوں و انتہا پسند عناصر کو کنڑول کرنے کے لیے ماضی میں ہونے والی کوششیں مطلوبہ نتائج نہیں دے سکیں۔کانفرنس میں بلوچستان کی خراب صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم اپنے بلوچ بھائیوں کے خدشات سے پوری طرح آگاہ ہیں تاہم ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے انہیں قومی مرکزی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔ کُل جماعتی کانفرنس نے افغانستان میں جاری امن کے عمل کو سراہا اوراس یقین کا اظہار کیا کہ ایک پُر امن اور مستحکم افغانستان ایک مستحکم پاکستان کے لیے ضروری ہے۔ کانفرنس نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ افغان حکومت اور عوام کے ساتھ مسلسل رابطوں کے ذریعے وہاں امن لانے کے لیے تمام کوششیں کرے۔
اگرچہ دہشت گردی کے موضوع پر رواں سال یہ تیسری کانفرنس تھی تا ہم تمام سیاسی جماعتوں کی دہشت گردی کے مسئلے پر اتفاقِ رائے نے اس کانفرنس کو گزشتہ دونوں کانفرنسوں سے مختلف اور منفرد کر دیا۔ جبکہ مشترکہ اعلامیے پر عمل درآمد کے لیے اگلے ہی روز وفاقی کابینہ کا اجلاس پاکستان حکومت کی سنجیدگی اور مخلص جدو جہد کا واضح ثبوت ہے۔ گزشتہ دو اور اس کُل جماعتی کانفرنس میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اس بار حکومت ِ وقت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُر عزم ہے۔ حکومت کے اس عزم کا ثبوت ہمیں اس بات سے ملتا ہے کہ اس بار حکومت نے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات سے پہلے کوئی شرائط نہیں رکھیں۔ حکام نے نہ ہی دہشت گردوں کو ہتھیار ڈال دینے کی شرط سامنے رکھی اور نہ ہی سیز فائر کا مطالبہ کیا۔ حکومتِ وقت اور فوجی حکام کی اس اعلیٰ ظرفی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اب دہشت گردوں کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور ایک حتمی فیصلے کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر کے امن کے قیام کے لیے اپنا کردار اداکرنا ہو گا۔مذموم عناصر کی گزشتہ کوششوں کی طرح اس دفعہ بھی امن مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کی جائے گی تا ہم امن مذاکرات کے دونوں فریقین کو ان سازشوں کا حصہ بننے کی بجائے امن مذاکرات کو بخوبی طور پر پایہء تکمیل تک پہنچانا ہو گا۔ گزشتہ کئی بار مذاکرات کے دوران اور اس سےقبل امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے کیے گئے جس سے دہشت گردوں نے مشتعل ہو کر مذاکرات کی مخالفت شروع کر دی۔ ولی الرحمن کی ہلاکت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جبکہ مولوی نذیر کو بھی اسی مذموم مقصد کی پاداش میں قتل کیا گیا۔ اس لیےحکومت اور طالبان دونوں کو بے جا طور پر مشتعل ہونے کے بجائے امن مذاکرات کو عمل میں لانا ہو گا۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ اس دفعہ طالبان کے کسی ایک گروہ سے نہیں بلکہ سب کے ساتھ مذاکرات کو عمل میں لایا جائے تا کہ تمام طالبان گروہ ان اقدامات کو سنجیدگی سے لیں۔
دیگر نکات کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کل جماعتی کانفرنس قومی استحکام کے طرف ایک نہایت مثبت پیش رفت ہے۔ ڈرون حملوں کے مسئلے کو اقوامِ متحدہ کے آگے پیش کرنا یقیناً ملک و قوم کی سلامتی کے لیے خوش آئند نتائج برآمد کرے گا۔ تاہم اس سے قبل پاکستان کو ڈرون حملوں کے خلاف ایک مضبوط اور دلائل سے بھرپور مقدمہ اقوامِ متحدہ کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔پھر یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ کس طرح امریکہ کو اس غیر قانونی اور غیر انسانی فعل سے باز رکھتی ہے ۔ کانفرنس کا یہ فیصلہ کہ قومی سلامتی کے کسی مسئلے پر امریکہ کی تجاویز نہیں لی جائیں گی ایک اور مثبت سوچ ہے۔ اس فیصلے سے کئی ناراض عناصر اورسیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے مسائل پر باریک بینی سے غور کرنا یقیناً وقت کی اہم ضرورت تھی جسے اعلامیے کے نکات میں شامل کر کے حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔
یقیناً آل پارٹیز کانفرنس مثبت نتائج مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ انشاء اللہ تمام سیاسی جماعتوں کی اس کوشش سے جلد دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا اور پاکستان کو مزید مستحکم بنایا جائے گا۔ البتہ حکومت کو مذاکرات کے لیے ایک باقاعدہ فریم ورک بنانے کی ضرورت ہے تا کہ کوئی بھی قوت اس بار مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش نہ کر سکے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ حکومت اور فوج کا مکمل ساتھ دیتے ہوئے اس ا علامیے کے نکات کو کامیابی سے ہمکنار کریں۔ بے شک ایک پُر امن اور مستحکم پاکستان ہی ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہے۔