مادر پدرآزاد صحافتی موسم کے ۔بے ثمر اثرات
ذرائعِ ابلاغ کی مادر پدر آزادی کے بحث و مبا حث میں’اظہارِ جذبات ‘ کے اِن بنیادی پہلوؤں پر ماہرین‘ سیر حاصل گفتگو کرنے سے اپنا دامن بچانے کی فکر میں نجانے کچھ سے کچھ کہنے تک پر کیوں اتر آتے ہیں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے کہ میڈیا کی معروف اُصولی آزادی کے عالمی پیمانے پر تسلیم شدہ کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں میڈیا کی بے قواعد اور بے اُصولی آزادی کا فی الفور نوٹس اگر نہ لیا جائے اور اِسے کھلی چھوٹ دی جاتی رہے تو اِس کے نتیجے میں معاشرے کا نظریاتی اور ثقافتی تار وپود لمحہ بہ لمحہ نامحسوس طور پر بکھرنے لگتا ہے اور پتہ نہیں چلتا یقیناًمانتے ہیں کہ ’باضابطہ تحقیق ‘ آج کے جدید میڈیا کا ایک اہم شعبہ ہے دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیا جائے کہ آج کل ابلاغِ عامہ کی تحقیقی وقائع نگاری اندرونِ ملک رائےِ عامہ کو با خبر رکھنے کے علاوہ ایک فلاحی تعمیری سمت پر لانے میں سب سے زیادہ اہم خدمت انجام دیتی ہے اور اگر میڈیا کے درمیان سے کوئی ’ابلاغی گروہ ‘ جسے خود پر بڑا مان ہو جو بہ زعمِ خود اُصول پسندی کا چمپیئن بنا ہوا کسی کے قابو میں آنے کے لئے تیار نہ ہو اور میڈیا کا یہ خودسر و سرکش گروہ نہ صرف اپنی قوم پر غیر ملکی نظریات ٹھونسنے پر کمربستہ ہوجائے بلکہ ملک وقوم کے اہم قومی اداروں کے وقار سے کھیلنا اُن کی ایک عادت بن جائے ہماری آج کی بحث کا یہی موضوع ہے کوشش ہے اِس مسئلہ کو اجاگر کرسکیں ’اظہارِ جذبات‘ کے جس اہم پہلو کی جانب راقم نے بین السطور اشارہ کیا اِس بارے گزارش ہے کہ ملکی ذرائعِ ابلاغ کی آزادی کے حوالے سے ہمہ وقت ’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ‘ کے مصداق‘پیشہ ورانہ فرائض کے دوران ذہنی تعصب کی تلخیوں ‘ نفرت آمیز کرواہٹوں اور ذہنی وفکری پر اگندگی و قلبی انتشار کو بڑھاوا دینے اور ہوا دینے سے ذرائعِ ابلاغ کی کوئی خدمت بھی نہیں کی جارہی ہے بلکہ اُلٹا ایسے وہ رپورٹرز اور وقائع نگار نہ صرف اپنے ضمیر کو داغدار کررہے ہیں بلکہ اپنے نامی گرامی میڈیا ہاؤسنز کی ملکی عوام میں قدر ومنزلت اور مقبولیت کو اُس اعلیٰ سطح پر پہنچانے میں سدِ راہ بنے رکاوٹوں کی مانند ہوگئے ہیں ہمارے زیرِ نظر پاکستان کا میڈیا ہے مگر گفتگو یہ کہے بنا آگے نہیں بڑھ سکتی کہ دنیا کے معاشر وں میں جہاں ذرائعِ ابلاغ کے’جدید الیکٹرونک میڈیم ‘ مقبولیت حاصل کررہے ہیں اِس سلسلے میں اپنے اپنے طو ر پر ترقی وغیر ترقی یافتہ معاشرے اِن کے مثبت اور منفی اثرات کے بار ے میں اپنی دلچسپی وقتاً فوقتاً ظاہرکرتے رہتے ہیں ملکی حوالے سے بعض اوقات خصوصاً اُس وقت جب قومی میڈیا کا وہ خاص حلقہ (نوائے وقت اور وقت نیوز) کے علاوہ چند کچھ اور میڈیا ہاؤسنز ضرور ہونگے! مگر وہ’ مخصوص حلقہ ‘جن کا تذکرہ ہم اپنے کئی کالموں میں پہلے بھی کرچکے ہیں وہ ’طبقہ‘ کسی بھی واقعہ کی خبر کو جواز بناکر غیر ضروری یا ضرورت سے زیادہ متجّسس تجسس پسندی کے رجحان کے پیچھے ‘ بدگمانیوں کی راہ پر گامز ن رہنے کی اپنی مبینہ پالیسی کو چھوڑنے سے باز آنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اِس کی وجوہات آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئیں، ذرائعِ ابلاغ کی جدید ٹیکنالوجی میں اِس حالت کو ’انویسٹی گیشن جرنلزم ‘ کہا جاتا ہے، صحافت کی دنیا میں جہاں یہ بڑا حساس ذمہ داری کا کام ہے، وہاں خالصتاً ایسے نازک اور حساس صحافتی اُمور کو بروئےِ کار لانے کے لئے تجربہ کار ،نیک نیت اپنے پیشہ میں خالص‘ دیانت وصداقت کے پیکر میں ڈھلے ’منتخب ‘ افراد کا انتخاب ہو تا ہے، کسی بھی واقعہ کے کیس میں نہ صرف حقائق تک پہنچنا ‘ بلکہ مجرموں کو ہمت وجراّت سے بے نقاب کرنا ’انویسٹی گیشن جرنلزم ‘کا طرہِّ امتیاز کہلاتا ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ زمانہ قحط الرجال کا زمانہ ہے؟ ہر شعبہ ِٗ زندگی کا ایسا ہی افسوس ناک حال ہے ’انویسٹی گیشن جرنلزم‘ کی صدائےِ استغاثہ پر کوئی کان دھرنے کے لئے تیار ہی نہیں ‘ تربیت ہر امور کا لازمی حصہ ہوتا ہے بڑی بدقسمتی کا مقام ہے ملکی میڈیا کے خودرو پودوں کے اِس بے ثمر موسم کی صحافت کو اب کو ن استخراج اور استنباط کے ضروری عمل سے گزار ے؟ کون
آئے گا ایسا مائی کالعل ‘ یہ تو نہ کسی اُصول وضوابط کو مانتے ہیں نہ تربیت کے قائل ‘ بس، ہم لکھ سکتے ہیں لکھیں گے‘ چونکہ ہمارے منہ میں زبان ہے ہم گونگے نہیں‘ بولیں گے اور بے تکان بولیں گے ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ‘ مرحوم فیض صاحب اگر آج زندہ ہوتے‘ یقیناًوہ یہ ضرور کہتے کہ ’ہمارا یہ مصرعہ آزاد میڈیا کے غیر تربیتِ یافتہ غیر ذمہ دار اور بے اعتماد رپورٹروں اور وقائع نگاروں کی دہائی کے لئے نہیں بلکہ مظلوم ومحکوم عوام کی بیداری کو نمایاں کرنے کے لئے کہا گیا تھا، گزشتہ دِنوں’ نام ‘کے ایک بڑے ‘ اشاعتی ادارے کے متجّسس ایک جواں سال رپورٹر نے اپنے ماضی کے اختیار کردہ متعصبانہ روش پر چلتے ہوئے کبھی ’لاپتہ ‘ افراد کی تفتیش کے نام پر ‘کبھی کسی صحافی کی جاں بحق ہونے کی تفتیش کے نام پر ازخود ہی ‘خود ساختہ’’ سچائی‘‘ کا علمبردار بننے کا زعم لیئے ایک مضمون اپنے مذکورہ اخبار میں لکھ مارا کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے نا چونکہ فیڈ بیک جو دینی تھی اخبار کے دفاتر میں خود کو اور وں سے نمایاں کرنا اپنے آپ کو ہمہ وقت اپنے بے خبر مالکان کی نظروں میں خود نما رکھنا ‘ اپنے نام کو زیر بحث رکھنا ‘ بحرانوں کا متلاشی بنا رہنا ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ظن وقیاس کے خود ساختہ دائر وں سے باہر نکلنے کے بعد بالکل بیکار کچروں کے ڈھیروں پر اکیلے کھڑے نظر آتے ہیں ایسے ’تیس مارخان‘ تفتیشی صحافی جب کسی بحرانی طلاطم خیز خبر کی سچائی کو ثابت کرنے میں خود کو ناکام ومراد پاتے ہیں تو جان لیجئے کہ آج کا سب سے زیادہ بکنے والا تشہیری سودا اِس کے علاوہ اور کوئی نہیں ‘ یہ دیر نہیں کرتے کہیں کوئی گم ہو جائے لاپتہ ہوجائے کیسی نامور شخصیت کا قتل ہوجائے پیشہ ورانہ محنت وکاہش سے جی چرانے والے یہ رپورٹرز چار انگلیاں اپنی جانب کرکے ایک انگلی ملک کی سپریم انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف بلا کھٹکے اُٹھادیں گے اِنہیں اِس سے کوئی غرض نہیں کہ قوم بدنام ہو گی اپنے ہی ملک کی رسوائی ہوگی ملکی سیکورٹی اداروں سے قوم کا وقار منسلک ہے آزاد پریس کو کسی بھی آزاد وخود مختار جمہوری ریاست کا پانچواں ستون کہتے ہیں دیگر پانچ ستون کون کون سے ہیں ؟ آزاد وخود مختار جمہوری ریاست پاکستان کا کوئی ایک ستون افواجِ پاکستان بھی یقیناًہوگا اِس ’ستون ‘ کی بنیادوں پر ’شکوک شبہات ‘ کی ضربات لگائی جاتی رہیں، ملکی فوج کے خلاف عوام کو دِن رات گمراہ اور بدظن کرنے کی ناکام کوششیں اگر یونہی جاری رہیں، توکیا یہ ملک وقوم کی جمہوری خدمت ہے؟ جمہوریت کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی سے کھیلنے کی اِن بچگانہ حرکات کا نوٹس لینا میڈیا ہاؤسنز کے مالکان کا اوّلین فرض ہے وہ اپنا یہ فرض کب نبھائیں گے؟ ۔
آئے گا ایسا مائی کالعل ‘ یہ تو نہ کسی اُصول وضوابط کو مانتے ہیں نہ تربیت کے قائل ‘ بس، ہم لکھ سکتے ہیں لکھیں گے‘ چونکہ ہمارے منہ میں زبان ہے ہم گونگے نہیں‘ بولیں گے اور بے تکان بولیں گے ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ‘ مرحوم فیض صاحب اگر آج زندہ ہوتے‘ یقیناًوہ یہ ضرور کہتے کہ ’ہمارا یہ مصرعہ آزاد میڈیا کے غیر تربیتِ یافتہ غیر ذمہ دار اور بے اعتماد رپورٹروں اور وقائع نگاروں کی دہائی کے لئے نہیں بلکہ مظلوم ومحکوم عوام کی بیداری کو نمایاں کرنے کے لئے کہا گیا تھا، گزشتہ دِنوں’ نام ‘کے ایک بڑے ‘ اشاعتی ادارے کے متجّسس ایک جواں سال رپورٹر نے اپنے ماضی کے اختیار کردہ متعصبانہ روش پر چلتے ہوئے کبھی ’لاپتہ ‘ افراد کی تفتیش کے نام پر ‘کبھی کسی صحافی کی جاں بحق ہونے کی تفتیش کے نام پر ازخود ہی ‘خود ساختہ’’ سچائی‘‘ کا علمبردار بننے کا زعم لیئے ایک مضمون اپنے مذکورہ اخبار میں لکھ مارا کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے نا چونکہ فیڈ بیک جو دینی تھی اخبار کے دفاتر میں خود کو اور وں سے نمایاں کرنا اپنے آپ کو ہمہ وقت اپنے بے خبر مالکان کی نظروں میں خود نما رکھنا ‘ اپنے نام کو زیر بحث رکھنا ‘ بحرانوں کا متلاشی بنا رہنا ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ظن وقیاس کے خود ساختہ دائر وں سے باہر نکلنے کے بعد بالکل بیکار کچروں کے ڈھیروں پر اکیلے کھڑے نظر آتے ہیں ایسے ’تیس مارخان‘ تفتیشی صحافی جب کسی بحرانی طلاطم خیز خبر کی سچائی کو ثابت کرنے میں خود کو ناکام ومراد پاتے ہیں تو جان لیجئے کہ آج کا سب سے زیادہ بکنے والا تشہیری سودا اِس کے علاوہ اور کوئی نہیں ‘ یہ دیر نہیں کرتے کہیں کوئی گم ہو جائے لاپتہ ہوجائے کیسی نامور شخصیت کا قتل ہوجائے پیشہ ورانہ محنت وکاہش سے جی چرانے والے یہ رپورٹرز چار انگلیاں اپنی جانب کرکے ایک انگلی ملک کی سپریم انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف بلا کھٹکے اُٹھادیں گے اِنہیں اِس سے کوئی غرض نہیں کہ قوم بدنام ہو گی اپنے ہی ملک کی رسوائی ہوگی ملکی سیکورٹی اداروں سے قوم کا وقار منسلک ہے آزاد پریس کو کسی بھی آزاد وخود مختار جمہوری ریاست کا پانچواں ستون کہتے ہیں دیگر پانچ ستون کون کون سے ہیں ؟ آزاد وخود مختار جمہوری ریاست پاکستان کا کوئی ایک ستون افواجِ پاکستان بھی یقیناًہوگا اِس ’ستون ‘ کی بنیادوں پر ’شکوک شبہات ‘ کی ضربات لگائی جاتی رہیں، ملکی فوج کے خلاف عوام کو دِن رات گمراہ اور بدظن کرنے کی ناکام کوششیں اگر یونہی جاری رہیں، توکیا یہ ملک وقوم کی جمہوری خدمت ہے؟ جمہوریت کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی سے کھیلنے کی اِن بچگانہ حرکات کا نوٹس لینا میڈیا ہاؤسنز کے مالکان کا اوّلین فرض ہے وہ اپنا یہ فرض کب نبھائیں گے؟ ۔