مسیحی برادری پر حملہ۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش
Posted date: October 02, 2013In: Urdu Section|comment : 0
ایس اکبر
پشاور کے علاقہ کوہاٹی گیٹ چرچ روڈ پر واقع عیسائی برادری کی سب سے قدیمی عبادت گاہ آل سنیٹس چرچ میں یکے بعد دیگرے دو خود کش دھماکے ہوئے جس کے نتیجہ میں 81 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 147 سے زائد افراد شدید زخمی ہو گئے۔ جان بحق ہونے والے افراد میں 11 معصوم بچے، 34 خواتین اور دوپولیس اہلکاربھی شامل ہیں۔ دھماکوں کی آواز دور دراز علاقوں تک سُنی گئی۔ خودکش حملوں میں کم از کم چودہ کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا ہے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور کونسل برائے عالمی مذاہب کی جانب سے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس گرجا گھر میں تقریباً 400 سے 500 کے قریب مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ہفتہ وار عبادت کے لیے آئے ہوئے تھے جن میں خواتین اور بچے شامل تھے۔ مسیحی برادری کی بڑی تعداد عبادت ختم ہونے کے بعد باہر آ رہی تھی کہ خودکش حملہ آوروں نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں بھاری جانی ومالی نقصان ہوا۔
خیبر پختونخواہ میں سال 2013 میں اب تک دہشت گردی کے 162 سے زائد دھماکے اور خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ ان میں 450 سے زائد افراد جان بحق جبکہ 1200 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ دہشت گردی کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا سنگین ترین واقع ہے۔ پورے ملک میں اس واقعہ کی وجہ سے اہلِ پاکستان شدید غم وغصے کی حالت میں ہیں ۔مسیحی برادری پر حملے کی دو بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو مسیحی برادری کو ظُلم کو نشانہ بنانے کی وجہ حال ہی میں ہونے والی امن کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔ دوسرا مسیحی برادری پر حملے کر کے اقلیتوں کومشتعل کرنا ہے تا کہ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال کو مزید بگاڑا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ہے جہاں اقلیتی برادری کی جان و مال کی کوئی حفاظت نہیں ہے۔
اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کو ہمیشہ بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ عہد رسالت مآب ﷺ ہو یا دورِ صحابہؓ، اسلامی تاریخ غیر مسلم شہریوں سے مثالی حسن سلوک کے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دیگر مذاہب اور اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد اسلامی ریاست میں ہمیشہ سے ہی پُر سکون زندگی گزارتے رہے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں بھی ہمیشہ سے ہی امن و امان سے اپنی زندگیاں بسر کرتی رہی ہیں جہاں انھیں اپنی مکمل مذہبی آزادی رہی ہے ۔ لیکن موجودہ دور میں دہشت گردایک سوچی سمجھی سازش کےتحت انھیں اپنے ظلم و بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان سفاک دہشت گردوں کے قبیح افعال اسلام کے چودہ سو سالہ روشن چہرے کو بھی داغ دار بنا رہے ہیں اور اسلام کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ ان ظالم دہشت گردوں کے ہاتھوں مساجد ، مدارس، امام بارگاہوں، میلاد کے جلوسوں ۔ محرم کی مجالس اور نمازِ جنازوں کی مسلسل پامالی ہو رہی ہے۔ کسی بھی عبادت گاہ کا کوئی تقدس سلامت نہیں ہے۔
پچھلے دنوں کُل جماعتی کانفرنس میں دہشت گردوں سے امن مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا ا ور ان مذاکرات کا لائحہ عمل کی تیاری کی بھی بازگشت سنائی دے رہی تھی کہ یکے بعد دیگرے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جس سے امن مذاکرات کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔حکومتِ وقت کی جانب سے دی گئی امن مذاکرات کی پیشکش کا دہشت گردوں کے بعض حلقوں میں خیر مقدم کیا گیا تھا جبکہ کچھ دہشت گردوں کے گروہ ان مذاکرات کے خلاف تھے۔ پھر بہت سے اندرونی اور بیرونی عناصر ملک میں امن قائم نہیں ہونے دینا چاہتے اور اپنے آقاؤں کے ایماء پر ایسے حادثات اور ظُلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں کہ امن مذاکرات کے حامی خود بخود ہی اس ظُلم کو دیکھ کر ان مذاکرات کے خلاف ہو جائیں اور اعلان جنگ کر دیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت حتیٰ الوسع کوشش کر رہی ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے امن قائم کرنے کے لیے ہر کوشش کر گزریں لیکن ملک دشمن عناصر کسی طور نہیں چاہتے کہ ملک میں امن و امان قائم ہو۔
امن مذاکرات کرنے والے فریقین کو بہت محتاظ رہنے کی ضرورت ہے ۔ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ اقلیتی برادری کے جان و مال کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں غیر ملکی سیاحوں کا قتلِ عام کے بعد اب مسیحی برادری کو اپنے ظُلم کا نشانہ بنانے والے صرف یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان دنیا میں صرف غیر مستحکم ملک کے طور پر جانا جائےجہاں کوئی غیر ملکی اور کوئی اقلیت محفوظ نہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ پاکستان کے دشمن کا خواب ہے جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ ہمیں من الحث القوم اس مشکل وقت میں یکجہتی اور یگانگت کا ثبوت دیتے ہوئے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے تا کہ ہمارا دشمن کبھی بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔