ٹی ٹی پی سے مذاکرات؟۔ آئینی وقار کا خیال رکھا جائے
Posted date: October 08, 2013In: Urdu Section|comment : 0
سیّد نا صررضا کاظمی
اسلام آباد میں گزشتہ ماہ ستمبر میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا’کامیاب‘ ا نعقاد ہوا،ملک کی سبھی سیاسی جماعتوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے ساتھ حکومت کو مذ اکرات کر نے کا مینڈیٹ ہو گا یہ مذاکرات کب، کس مقام پر حکومتی ٹیم کے کون سے نمائندے ٹی ٹی پی کے ہتھیار بند لیڈروں سے بات چیت کر یں گے مکمل تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں مگر، نہایت دکھ اور افسوس کا مقام ہے گزشتہ ماہ مذاکرات کی خبروں کی تفصیلات ملکی وغیر ملکی میڈیا پر آنے بھی نہ پائی تھیں کہ فاٹا کے دوردراز علاقہ”دیر بالا“میں دہشت گردی کی انتہائی خوفناک واردات ہوگئی، اِس سانحہ میں پاک فوج کے ایک میجر جنرل اور لیفٹنٹ کرنل سمیت ایک جوان کو ٹارگٹ کرکے شہید کردیا گیا یاد رہے کہ میجر جنرل ثناء اللہ سوات کے گیریژن کمانڈر تھے جنہوں نے گز شتہ پانچ چھ برسوں کے دوران سوات سمیت صوبہ خیبر پختونخواہ کے بعض علاقوں کے عوام کو مسلح دہشت گردوں کے ظلم وستم سے نہ صرف نجات دلائی بلکہ متاثرہ علاقوں سے گرفتار شدہ نوعمر کچے ذہنوں کے حامل پختون بچوں کی مثبت و فعال ذہنی تربیت کا انسانی فریضہ کی ادائیگی کے لئے سوات میں ایک ادارہ قائم کیا ہے جہاں پر درجنوں نوعمر اور جواں سال بچوں کی ’بحالی ٗ ِ ذہن‘ کا نفسیاتی علاج کی سہولتیں مہیا کی گی ہیں اُنہیں دینی ودنیاوی علوم کے علاوہ مختلف شعبہ ٗ ِ زندگی کے پیشہ ورانہ ہنر سے آراستہ کرکے ’کار آمد زندگی‘ بسر کرنے کے قابل بنایا جارہا ہے، یہ بچے وہ ہیں، جنہیں ’ملا فضل اللہ‘ نے اپنی پھیلائی گئی دہشت و قوت کے زور پر نفرت اور جنونی تعصب کی لاعلاج نفسیاتی جادوئی کیفیتوں کے سحر میں مبتلا کرکے خود کش بمبار بننے کے لئے تیارکیا تھا مینگورہ کے اِس اصلاحی ملٹری انسٹی ٹیوٹ میں اِن معصوم بچوں کو مسلمانوں کے فرقہ ورانہ طبقات کے خلاف شدت پسندی کی جنونی نفسیات کے متعصب اور بھیانک تصوراتی حصار سے نکالنے اور اُنہیں یہ باور کرانے کا مشکل ترین فریضہ کہ’پاکستان سب مسلمانوں کا وطن ہے’یہاں مسلمان بستے ہیں مسلمانوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنے سوا دوسرے مسلمان کو ’کافر‘ سمجھے اُ سے بے دریغ قتل کردے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا خون بہانا غیر اسلامی فعل ہے، بلکہ غیر مسلم انسانوں کا خون مسلمانوں کو نہیں بہانا چاہیئے‘ بے گناہوں کا بے گناہ خون بہا نا‘ اِن پر ظلم وستم کرنا اللہ تبارک و تعالیٰ اور قرآن کی تعلیمات اور دروس کی رُو سے اور ہمارے پیغمبر بنیﷺ کی احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں بھی بڑی سخت ممانعت‘ تنبیہ اور تاکید کی گئی ہے وادی ٗ سوات میں سحر انگیز نفرت پر مبنی جنونیت پسند شیطانی ذہنیت کی بیخ کنی کر نے کی غرض سے قائم یہ ادارہ شہید میجر جنرل ثناء اللہ کا بے مثال تاریخی کارنامہ ہے جو اُن کی مردانہ وار شہادت کے بعد تاقیامت بطور اجر ِ ثواب اُن کی بلندی ٗ درجات کی صورت کا واسطہ بنا رہے گا، متذکرہ بالا اے پی سی کے اعلامیہ کے بعد سے اب تک دہشت گردی کا یہی واحد افسوس ناک سانحہ نہیں ہوا بلکہ خیبر پختونخواہ کے صوبائی دارلحکومت پشاور میں لگاتار پے درپے کئی اور خوفناک بم دھماکوں کے واقعات رونما ہوچکے ہیں تین چار سو سے زائد بے گناہ معصوم پاکستانی اِن دھماکوں میں شہید اور لاتعداد زخمی ہوئے ہیں،
پشاور کے ایک بارونق بازار میں اتوار کی ہفتہ وار عبادت کے لئے ایک گرجا میں عیسائیوں پر بہت بڑی افسوس ناک دہشت گردی کی قیامت ڈھائی گئی‘ دیر بالا کی طرٖ ح دہشت گردی کی اِن مذموم کارروا ئیوں کی ذمہ داری کالعدم عسکری تنظیم ٹی ٹی پی نے قبول کی‘ گزشتہ ماہ حکومت ِ وقت نے اسی تنظیم کے ساتھ ہ مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے اخباری اطلاعات ہیں کہ ’ٹی ٹی پی‘ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتی ہے نہ جمہوری طرز ِ حکومت کو‘ ٹی ٹی ٹی سے مذاکرات کے حامیوں اِ س خیال کو عوامی سطح پر کتنی پذیرائی ملی؟
گزشتہ ماہ میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے قوم کے نام اپنے نشری خطاب میں دہشت گردوں سے مذاکرات کا ذکر ضرور کیا تھا لیکن وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ دہشت گردوں کو پہلے اپنے ہتھیار پھینکنے ہونگے اگر اُنہوں نے ہتھیار نہیں پھینکے تو حکومت آئینی رٹ ہر قیمت پر نافذ کر نے کا حق رکھتی ہے وزیر اعظم کے خطاب کے غالباً دوسرے ہی روز دہشت گرد وں نے قبائلی علاقوں میں اپنی ’رٹ‘ دہشت گردی کی لہو رنگ کارروائی انجام دے کر اسلام آباد حکومت کو اپنی ’تازگی‘ کا برملا احساس دلادیا ملکی عوام اِس بے یقینی کی تشویش ناک صورتحال میں اپنے آپ کو سخت مشکل ترین حالات میں گھرا ہوا دیکھ کر زیادہ فکرمند ہوگئے مثلاً،حکمرانی کا موجودہ جمہوری طرز ِ انداز اور کئی برسوں سے پاکستان میں جاری وحشیانہ دہشت گردی کی ہولناک انسانیت سوز مذموم اور انتہائی قابل ِ نفریں سرگرمیاں مزیدکتنے عرصہ تک یونہی باہم اکٹھی چل سکتی ہیں؟مانا کہ جمہوری پارلیمانی طر ز ِ حکمرانی کے ذریعے سے ہمارا ملک سیاسی واقتصادی ترقی کے زینے زیادہ تیزرفتاری سے طے کرسکتا ہے، اگر ملک میں اندرونی امن وامان کی صورت ِ حال قرار واقعی اطمنان بخش نہ ہو‘ کراچی مسلسل دہشت گردوں‘ بھتہ خوروں‘ اغواہ کاروں جیسے کئی غنڈہ مافیاز کی کارستانیوں کا شکار ہو، جہاں پولیس سمیت پیرا ملٹری فورسنز شہری اندرونی امن وامان بحال کرانے کی نت نئی انتظامی تدبیریں روبہ ٗ ِ عمل لارہی ہوں، ملک کی مغربی ومشرقی سرحدوں پر افواج ِ پاکستان کو ہر روز جنگ جیسے چیلنجز سے نمٹنا پڑرہا ہو، ملک بھر کے عوام اگر عدم تحفظ کا شکار بنے مطمئن زندگی بسر کرنے سے قاصر ہوں تو پھر یہ پارلیمانی یا صدارتی سسٹم کی جمہوریت کے فوائد کیسے نافذ ہو نگے یہ بہت ہی تلخ حقائق ہیں حکمران اِن حقائق کی تلخیوں سے پوری سے آگاہ ہیں اُوپر سے نئے منی بجٹ کی گردن توڑ مہنگائی کے طوفانی اعلانات نے عوامی حلقوں میں شدید مایوسی کے اندھیرے پھیلا دئیے آزاد وخود مختار قوم کی شناخت کے کیا ایسے ہی لوازما ت ہوتے ہیں ’بقائے ِ پاکستان‘ کا اہم کام ایسی مایوس زدہ قوم کے تھکے‘ اکتائے اور جھنجھلائے ہوئے افراد سے لیا جا سکتا ہے ایسی قوم، جس پر مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے کمزور اور ناپسندیدہ فیصلے زبردستی تھونپے جا رہے ہوں کیا یہ قوم آزاد وخود مختار کہلانے کی حق دار ہے؟ مغربی میڈیا‘ پاکستان کے اندر پل پل بھر میں رونماہونے والے تشویش ناک حالات پر اپنی گہری نظر رکھے زہریلے منفی تبصرے اور تجزیئے نشر اور شائع کررہا ہے دنیا نے جب یہ حیرت ناک اور متعجب خبریں سنیں کہ 40-50 ہزار پاکستانیوں کو دہشت گردی کی انتہائی مذموم کارروائیوں کے نتیجے میں موت کے منہ میں دھکیلنے والے دہشت گرد گروہوں سے حکومت بلا مشروط مذاکرات کرنے جارہی ہے حکومت نے دہشت گردوں کے سامنے اپنے سر خم کردئیے اور اُنہیں ’اسٹیک ہولڈر‘ کا مقام دیدیا گیا یہ پیغام دنیا کے لئے اچھا نہیں ہے‘ مذاکرات سے کوئی انکار نہیں مگر جو فیصلہ بھی کیا جائے وہ فیصلہ قومی حمیّت اور آئینی اتھارٹی کے وقار کے منافی نہ ہو۔