Posted date: October 08, 2013In: Urdu Section|comment : 0
ایس اکبر
کُل جماعتی کانفرنس میں بلوچستان کی صورتِ حال کو بہتر کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ بلوچستان کویہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ قومیت پرست رہنماؤں سے ملاقات کریں اور صوبے کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے کوئی باقاعدہ حکمتِ عملی واضح کریں۔ جو کہ نہایت خوش آئند ہے۔ اسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بلوچستان کی صوبائی حکومت نے باقاعدہ طور پر تمام ناراض بلوچ قوم پرست جماعتوں سے بات چیت کرنے کے لیے گٹھ جوڑ شروع کر دیئے ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا ہے کہ قومیت پرست جماعتوں سے باضابطہ مذاکرات کا عندیہ دیا گیا ہے جس سےپوری قوم کو بالعموم اور بلوچستان کے لوگوں کو بالخصوص بہت سے توقعات وابستہ ہیں جو آنے والے دنوں میں بلوچستان کے لیے یقیناً امن و آشتی کا پیغام لے کر آئے گا۔ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ناراض قومیت پرست رہنماؤں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ۔ ایک گروہ وہ ہے جو بلوچستان میں موجود ہے جبکہ دوسرا گروہ وہ ہے جو ملک سے باہر ہیں۔ پہلے ملک میں موجودبلوچ رہنماؤں سے گفت وشنید کی جائے گی۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس میں معدنی ذخائر کی بہتات ہےجبکہ گوادر پورٹ کی وجہ سے یہ خاص اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اگر گوادر پورٹ سے بھر پور تجارت شروع ہو جاتی ہے تو یقیناً گوادر بھی سنگا پور اور دبئی جیسی ترقی یافتہ بندرگارہوں میں شامل ہو جائے گا۔ لیکن پاکستان کے دشمن کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ بلوچستان میں استحکام ہو اور یہ بھی باقی صوبوں کیطرح ترقی کرئے۔ کیونکہ اس صوبے کی مضبوطی اور استحکام پاکستان کی سالمیت اور بقا کی ضامن ہے۔ ملک دشمن عناصرنے قوم پرست بلوچیوں کے دلوں میں نفرت کا ایسا بیج بو یا ہے کہ اب انھیں قومی دھارے میں واپس لانا تھوڑا مشکل نظر آتا ہےتاہم نا ممکن نہیں ۔ صوبہ بلوچستان ہمیشہ سے ہی حکومت کی بے اعتنائی کا شکار رہا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کی اسی بنیادی محرومی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے غیر ملکی ایجنسیوں نے یہاں بسنے والے معصوم لوگوں کو اپنے ناپاک عزائم کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہاں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت فرقہ واریت اور لسانیت کی بنیاد پر ایسی آگ لگائی گئی جو دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ۔ اہلِ تشیع کا قتل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچستان میں سرگرم انتہا پسند گروہ درحقیقت ملک دشمن عناصر کےہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں۔ بلوچستان میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان خود مسلمانوں کے لیے بھی غیر محفوظ ہے۔ قومیت پرست تنظیموں نے ایک عرصے سے معصوم بلوچیوں کو ملک کے سیاسی اور عسکری قیادت کی خلاف بہت استعمال کیا ہے لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر بلوچیوں کو ان کی محرومیوں سے آزادی دلوایں اور ایک سچا اور محبِ وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔حکومت اور پاک فوج نے مل کر بلوچستان کی نوجوان نسل کے لیے بہت سے ترقیاتی منصوبوں کا اجراح کیاہے جن میں سے بہت سے منصوبے پایہء تکمیل تک پہنچ چکے ہیں۔ بلوچ قوم پرست جماعتوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ بلوچستان کی تعمیر و ترقی کے لیے حکومت ِ وقت کے ساتھ مل کر کوئی لائحہ عمل اختیار کریں۔ بلوچستان کی نوجوان نسل میں جدید علم سیکھنے اور ترقی کرنے کی لگن ہے اور وہ بہت محنتی ہیں۔ ان کی اسی لگن اور محنت کو پاکستان کی ترقی کے لیے استعمال کرنا حکومتِ وقت اور بلوچ قوم پرست تنظیموں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ آج اگر حکومتِ وقت ناراض بلوچیوں کو راضی کر کے ان کے مسائل حل کر کے انھیں قومی دھارے میں واپس لانا چاہتی ہے تو سب بلوچیوں کی من الحث القوم اکٹھا ہو کر اس سے بھر پور فائدہ اُٹھانا چاہیے تا کہ جلد از جلد بلوچستان بھی ترقی یافتہ صوبوں کی دوڑ میں شامل ہو جائے۔
حکومتِ وقت کی جانب سے بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کے لیے امن مذاکرات نہایت خوش آئند ہے۔ دونوں فریقین کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کو بھلا کر صرف اور صرف ایک ترقی یافتہ بلوچستان کے خواب کو مدِ نظر رکھنا ہو گا۔ ناراض بلوچیوں کے حقوق کا تعین کرنا اور ان کی فراہمی یقینی بنانا اب قومیت پرست تنظیموں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تا کہ بلوچستان کے لوگوں کو قومی دھارے پر لایا جا سکے۔ ملک دشمن عناصر ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ جس کے لیے دونوں فریقین کو نہایت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ قومیت پرست تنظیموں کو چاہیے کہ وہ باقاعدہ ایسی حکمتِ عملی واضح کریں جو بلوچ قوم کے حق میں ہو۔