Posted date: October 13, 2013In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
پاکستان اور بھارت بر صغیر کے دو بڑے ممالک ، دو ایٹمی قوتیں اور دو پڑوسی ممالک ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے دراصل پاکستان کا وجود میں آنا ہی بھارت نے قبول نہیں کیا تھا۔ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے تابع رکھ کر پورے ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتا تھا اور اسکی یہ خواہش اب بھی مری نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ دہشت گردی اور سازش کے ذریعے اب بھی پاکستان کے وجود کے درپے ہے بلکہ کچھ عرصے بعد لائن آ ف کنٹرول کی خلاف ورزی اور چند ایک نہتے پاکستانی دیہاتوں کو شہید کر دینا بھی اس کے معمولات میں شامل ہے، پاکستانی فوج کے ساتھ جھڑپوں کا ماحول پیدا کرنا اور گولہ باری بھی اسکی نیت کی غماز ہے یہ اور بات ہے کہ پاکستان کی جوابی کاروائی پر ان کی توپیں اور بندوقیں خاموش ہوجاتی ہیں ۔ پچھلے چند ماہ سے وہ بڑی باقاعدگی سے اپنا یہ مجرمانہ کردار جاری رکھے ہوئے ہے وہ مسلسل ایل او سی کی خلاف ورزی بھی کر رہا ہے اور پاکستان پر الزامات بھی لگا رہا ہے۔ اس کا میڈیا خبر بناتا ہے اور اچھا لتا ہے اور اس کی فوج ، حکومت، حزب اختلاف ، عوام اور سرکاری حکام کبھی سب کے سب پاکستان کے خلاف بیک زبان ہرزہ سرائی شروع کر دیتے اور کبھی باری باری یہ کام کیا جاتا ہے ۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کو دہشت گردی کا گڑہ قرار دیا لیکن جب پھر بھی کسی نہ کسی طرح دونوں وزرائے اعظم مل لیے تو بھارتی میڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں سمبا کے ہیرا نگر تھانے اورملٹری کیمپ پر ہونے والے حملے کو پاکستان سے منسوب کردیا اگرچہ اس حملے کی ذمہ داری شہدا بریگیڈ نے قبول کرلی جو خود بھارت کے اندر کی تنظیم ہے ۔ پاکستان نے اس دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ۔یہ دہشت گرد بھارتی فوج کی وردی میں ملبوس تھے اس حملے میں ایک لیفٹیننٹ کرنل ،آرمی اور پولیس افسران سمیت چودہ افراد ہلاک ہوئے۔یہ سب کچھ نسبتاََ پر امن علاقے میں ہوا اور الزام حسبِ معمول پاکستان پر لگا دیا گیا۔
بھارت کی طرف سے پاکستان مخالف واقعات و بیانات میں یہ تیزی کچھ اتنی خلاف معمول بھی نہیں بلکہ بھارت میں جب بھی انتخابات کا زمانہ قریب آتا ہے تو ایسی ہی پاکستان مخالف کاروائیاں زور پکڑلیتی ہیں تاکہ پاکستان مخالفت کا ووٹ حاصل کیا جا سکے ۔ بی جے پی کی پاکستان دشمنی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے اور اگلے سال ہونے والے انتخابات کی تیاری کے طور پر وہ پھر سر گرم عمل ہے۔ خوش فہمی کانگریس کی طرف سے بھی کوئی نہیں کیونکہ اسی کے دورِ حکومت میں سرحد ی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور بھارتی آرمی چیف ، پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیانات جاری کر رہا ہے لیکن بی جے پی کا طریقہ واردات تو سیاسی حد سے آگے نکل کر مجرمانہ انداز اپنا لیتا ہے مذکورہ حملہ بھی غالب گمان یہی ہے کہ اُس نے ہی کرایا ہے۔ بات یہ ہے کہ چاہے یہ حملہ شہداء بریگیڈ نے کیا یا بی جے پی نے کرایایہ بھارت کا اندرونی معاملہ اور اندرونی جرم ہے اگر وہ اپنے مجرم خود اپنے بیچ میں تلاش کرلیا کرے تو بر صغیر کے حالات میں بہت بہتر تبدیلی آسکتی ہے اور ساتھ ہی اگر ہمارا میڈیا بھارتی میڈیا کا موئثر جواب دے سکے اور یک طرفہ امن کی بجائے دوطرفہ امن کے لیے کوشش کرے تو شاید امن کے قائم ہونے کی کوئی اُمید بھی پیدا ہو۔
اور یہ امن قائم رکھنے کی ذمہ داری دونوں ممالک پر ڈالی جائے اگر بھارت اپنے رویے کی تبدیلی پر آمادہ ہو جائے اور اپنے میڈیا کو بھی پروپیگنڈا مہم کے لیے وقف نہ کرے بلکہ اسے خبروں کی صحت کے بارے میں پابند کرے تو بھی حالات بہتر ہو سکیں گے ساتھ ہی اپنی انتہا پسند تنظیموں کو لگام دے اور ہر واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر نہ ڈالے تو وہ اپنے ہاں ہونے والے جرائم اور دہشت گردی کے مجرم تلاش کرنے میں کامیاب ہو سکے گا اور بدلے کے طور پر پاکستان میں بھی ایسی کاروائیوں سے احتراز کرے، یہاں اپنے دہشت گرد نہ بھیجے اور دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کوششوں میں تعاون کرے تو برصغیر کو دہشت گردی اور بد امنی سے پاک علاقہ بنایا جاسکے گا۔