Posted date: November 24, 2013In: Urdu Section|comment : 0
سیّد نا صررضا کاظمی
’غم حسین ‘ کا مخالف کوئی ایک بھی مسلمان فرقہ نہیں ‘ اما م حسین ؑ اُن کے معزز ومحترم اعزا ء اقربااور جانثار وفداکار رفقاء کی میدانِ کربلا میں والہانہ و دیوانہ وار پیش کیئے گئے اپنی قیمتی جانوں کے انمول نذرانوں کو سبھی تسلیم کرتے ہیں سبھی یہ مانتے ہیں کہ وقت کے حاکم ’یزید‘ نے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی اطوار اپنا کر دینِ اسلام کے آفاقی اصولوں کو نہ صرف ختم بلکہ ملیا میٹ کردیا تھا سن 61 ہجری میں دین اسلام کی سلامتی کے معنیٰ اُس نے عملاً الٹ پلٹ دئیے تھے یہ تبصرہ کسی شیعہ عالم کا نہیں ہے، یہ ثقہ اور ٹھوس تاریخی رائے امامِ الہند مولانا ابوا لکام آزاد ؒ نے اپنی معرکتہ لاآراء تاریخی تصنیف ’حریتِ فی الاسلام ‘ میں بیان کی ہے’ اسلام میں آزادی کا تصور‘ صفحہ نمبر 35 کے تیسرے پیراگراف میں مولانا ابوالکام آزاد نے جیسا بیباکانہ اندازِ تحریر اپنا یا اسے یہاں نقل کرنے سے ہمیں ’معذور ‘ سمجھئے ! اُن کی یہ اہم کتاب مارکیٹ میں موجودہے مولانا ابولکام آزاد نے اِسی حوالے سے ایک اور اہم کتاب تحریر کی ’شہادتِ حسینؓ ‘ ‘کے اہم خطبہ میں مولانا ابولکام آزاد فرماتے ہیں ’آج جس حادثہ ِٗ کبریٰ اور شہادتِ عُظمیٰ کے تذکار ودرس کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں‘ وہ وقائع و حوادثِ اسلامیہ کا وہ عظیم الشان واقعہ ہے جو تاریخِ اسلام کی اوّلین صدی سے لے کر اِس وقت تک اپنے عجیب وغریب تاثیرِ ماتم و درد اور حیرت انگیز بقائے ذکر وتاثیر کے لحاظ سے نہ صرف تاریخِ اسلام، بلکہ تمام حوادثِ محزنہٗ عالم میں ایک عدیم النظیر اہمیت رکھتا ہے، اگر وہ تمام آنسو جمع کیئے جائیں جو 61 ہجری سے لے کر آج تک اِس واقعہِ جاں سوز پر بہائے گئے ہیں اگر وہ تمام دردِ آہ وفغاں سوزاں کو یکجا کیا جا سکے جو اِ ن 13 صدیوں کی لاتعداد ولاتحصیٰ اسلامی نسلوں کی صداہائے ماتم کے ساتھ بلند ہوتا رہا ہے‘ اگر درد وکرب کی تمام چیخیںُ اضطراب والم کی وہ تمام پکاریں ‘ سوزش وتپش کی وہ تمام بے قراریاں اکھٹی کی جاسکیں جو اِس حادثہ ِٗ کبریٰ کی ناقابلِ فراموش یاد نے ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں کے اندرہمیشہ پیدا کی ہیں تو اے عزیزانِ ماتم شعار! کون کہہ سکتا ہے کہ خونِ فشاں ہائےِ حسرت کا ایک نیا انٹلانٹک واوقیاس نوس سطحِ ارضی پر بہہ نہ جائے گا؟ درد والم کی چیخوں اور ‘حسرتوں کی صداؤں ‘ تڑپ کی بے چینیوں کے ہنگامہ ِٗ خونین سے تمام عالم ایک شور زار نالہ و بکانہ بن جائے گا ؟ ‘‘ مولانا ابوالکام کا مسلک کیا تھا ؟ وہ مسلم دنیا کے نابغہ ِٗ روزگار فقیہ ‘ مفسرِ قرآن اور عالمِ دین بھی تھے‘ اُن کا مسلک قرآنِ پاک کا مسلک تھا ،مزید ملاحظہ فرما ئیے، مولانا ابولکام آزاد اپنے اِسی خطبہ امام حسین ؑ کے خونِ شہادت کی پکار کی وضاحت یوں کرتے ہیں ’’تیرہ صدیاں مع اپنے دورانِ محرم و عشرہِ ماتم کے اِسی پر گزر چکی ہیں، لیکن اب تک خاک کربلا کے وہ ذراتِ خون آشام‘ جن کو آج بھی اگر نچوڑا جائے تو خون شہادت کے مقدس قطرے اِس سے ٹپک سکتے ہیں، بدستور آنسوؤں کے لئے پکار رہے ہیں،
خون فشانیوں کے لئے داعی ہیں، آہ وفغاں کے لئے تشنہ ہیں، اضطراب والتہاب کے لئے بے قرار ہیں اور فضائےِ ریگز ارِ کربلا کا ایک ایک گوشہ اب تک دیدہ ہائے اشک فشاں ‘ جگر ہائے سوختہ دلہائےِ دونیم اور زبانِ ہائے ماتم سرا کے لئے اِسی طرح چشم براہ ہے، جس طرح61 ہجری کی ایک آتش خیز دوپہر میں خون کی ندیوں کی روانی ‘ تڑپتی ہوئی لاشوں کے ہنگامہِ اختضار اور ظلم ومظلومی ‘ جرح ومحرومی ،قتل ومقتولی کی ہنگامہ الیم کے اندر سے نالہ ساز طلب‘ اور فغان، فرمائے دعوت تھا ‘‘ مولانا ابولکام آزاد نے’ شہادتِ حسین ؑ ‘ کے اہم حسا س موضوع پر جس ’عالمانہ‘ بے خوفی ‘ فقہا نہ دلیری اور بے مثال ذمہ دارانہ سچائی سے اظہار خیال کرکے امتِ مسلمہ کے مابین پھیلائی گئی فرقہ ورانہ تعصب کی جڑ بیخ کو نکال باہر پھنکنے کامیاب اہم فریضہ ادا کیا وہ اُن کا حق اور حقیقی منصب تھا اپنے اِسی خطبہ میں مولانا اابولکام آزاد فرماتے ہیں ’ہاں یہ سچ ہے کہ رونے والے اِس پر بہت روئے ‘ ماتم کرنے والوں نے ماتم میں کمی نہ کی ‘ آہ ونالہ کی صداؤں نے ہمیشہ ہنگامہِ الم کی مجلس طرازیاں کیں اور یہ سب کچھ اب تک اِتنا ہوچکا ہے، جتنا آج تک شاہد ہی دنیا کے کسی حادثہ ِٗ غم کو نصیب ہوا ہو ‘تاہم حاضرین یقین رکھیں کہ باایں ہمہ اِس حادثہ ِٗ عظیمہ کی دعوتِ اشک و حسرت اب تک ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ اِس دعوتِ درد کے اندر جو حقیقی طلب تھی وہ اب تک ’لبیک ‘ کے سچے استقبال سے محروم ہے ‘‘ مولانا ابولکام آزاد کی دواہم کتابوں کا مختصراً تذکرہ کرنا یہاں آج اِس لئے ضروری سمجھا گیا باہمی فرقہ ورانہ تعصب کی آگ اپنے سینوں میں بھڑکائے آج ہم ایک بار بھر اُسی تشویش ناک موڑ پر آکھڑے ہوئے ہیں کہ ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہو رہا کہ ’کون ہمیں ‘ کن مذموم مقاصد کے لئے ‘ کہا ں استعمال کرنا چاہتا ہے؟ آنکھیں رکھتے ہوئے ہم اندھے ‘ کان رکھتے ہوئے ہم بہرے ‘ منہ میں زبان رکھتے ہوئے ہم گونگے‘ کتنے کمزور وناتواں ہیں ہم ‘ قرآنِ پاک کی طرف رجوع نہیں کررہے، بھئی، آخر کیوں ؟گزشتہ جمعہ10 محرم یوم عاشورہ ملک بھر میں بخیر وعافیت گذر گیا مگر‘ پنڈی کے راجہ بازار چوک پر یہ کیسا خونریز ہنگامہ اُٹھ کھڑا ہو؟
لمحہ بھر میں جس کے مضر اثرات نے ملک کے دیگر حصوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا انتظامیہ کو فوج طلب کرنا پڑی یہی نہیں ہوا، بلکہ کرفیو نافذ کرکے صورتحال کو کنٹرول کیا گیا یاد رہے کہ اسلامی یکجہتی اور اخوت کا طرہِّ امتیاز صرف اور صرف مرکزِ قرآن ہے اور کہیں نہیں ‘ ہم سب بھلا بیٹھے کہ اللہ کیا فرماتا ہے ’’اللہ اور رسول کی اطاعت کرو باہم تنازعہ نہ کرو اور اختلاف کو نزاع کی صورت نہ دو (اِس لئے کہ )تم کمزور ہوجاؤگے اور تماری ہوا اُکھڑ جائے گی اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘ ‘ پاکستانی مسلمانوں کے فرقوں کے مابین گزشتہ چند برسوں میں بڑھتے ہوئے فاصلے نہ تو سمٹ رہے ہیں نہ بدگمانیاں کم ہونے پر آ رہی ہیں، قرآنِ پاک میں صراحت سے بار بار تکرار ہے، مسلمانوں کے مابین شریعت کے نظری وفروعی اختلافات کے حساس موضوعات پر کھلی آیات موجود ہیں ،مگر قرآنی احکامات کی انسانیت نواز روش کو اختیار نہیں کی جارہا 10 محرم کو راولپنڈی میں جو انتہائی افسوس ناک اور قابلِ مذمت سانحہ رونما ہوا 70% ذمہ داری اِس سانحہ کی مقامی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے قرآنی تعلیمات کے دعویدار متحارب مسلم فرقوں کے علماء اور صاحبانِ علم ونظر چاہے دیوبندی‘شیعہ‘ سنی اور اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھتے ہوں یہ علما ء بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یقیناًجوابدہ ہونگے اِن کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ یہ مسلم فرقوں کے مابین باہمی ایمانی اخوت ویگانگت کے مثالی جذبات کو فروغ دینے میں اب تک ناکام کیوں رہے ؟راولپنڈی کے حالیہ فرقہ ورانہ فسادات نے ملکی سلامتی کے لئے بھی سنگین سوالات اُٹھا دئیے ہیں کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہر مسلک وعقیدے کے علماء کو اپنے سروں سے کفن باندھ کر اتحادِ امت کے عزم سے سرشار ہو کر میدانِ عمل میں اتر آئیں؟