ز ادیب و دانشور خلیل جبران نے ’ذہنی غلاموں ‘ کے چھپے چہروں کو ہر عہد کے لئے بے نقاب کیا ہے’ وہ جو سقراط کے کردار کوسمجھنے سے قاصر ہیں سکندر کے جادو سے مسحور رہتے ہیں، اُ ن کی زندگی کا ایک ایک پل سیزر کی جبہ بوسی کرنے اور اُس کی تعریفیں کرنے میں گزرتا ہے اِیسوں کا دل و دماغ آ زادی ِٗ فکر و خیال کی سرخوشیوں کا حقیقی لطف حا صل کر ہی نہیں سکتا اپنا سنکھ اور نقارہ ایسے ذہنی افراد نپولین کے لئے بجا نے راحت محسوس کرتے ہیں، میں نے یہ دیکھا ہے کہ جو سکندر‘ سیزراور نپولین کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں اِن کے دلوں اور اُن کے ذہنوں میں ’’جبری غلامی‘‘ کا ایک گوشہ ہمہ وقت موجود اور تازہ دم رہتا ہے ‘‘ اِلا ماشااللہ !ملک میں جموریت کا ڈنکا بج رہا ہے اور جمہوری سیاست دان جمہوریت کا ڈھول پیٹنے میں اِس قدر محو و منہمک ہیں اُنہیں یہ خیال ہی نہیں ہے کہ اُن کی زبانیں قابو میں نہیں‘