آزادی مارچ۔انقلاب مارچ اور پاکستان کا یومِ آزادی!!

 سیّد ناصررضا کاظمی


azadi march
پاکستان کا67 واں یومِ آزادی14 ؍ اگست 2014 آیا اور گزر گیا گزشتہ برسوں کی طرح اِس برس قوم نے اپنا ’یوم آزادی ‘ کس طرح منایا پاکستانیوں کی کتنی تعداد نے اِس برس اپنے گھروں پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم خلوصِ قلب کے والہانہ جذبوں سے لہرایا؟ ہوسکتا ہے کہ بہت سے اہلِ وطنوں نے آزادی کا یہ خاص دن بھرپور متحرک روایاتی جذبوں سے ضرور منا یا ہوگا! مگر ہمار ے الیکٹرونک میڈیا کے چینلز نے ( وقت نیوز چینل اور چند ایک کے سوا) اِس بار گزر جانے والی ہماری قومی آزادی کی بے پایاں اور پُر مسرت نعمتوں کی گراں قدر سا عتوں کو قومی امنگوں اور نظریاتی آرزوؤں کی بھرپور ترجمانی کے ساتھ نبھا نے کا اپنا قومی فریضہ ویسے ادا نہیں کیا جیسا کہ ماضی میں ہم اپنی آنکھوں سے د یکھنے کے عادی ہیں ‘ اِس بار ایسا کیوں ہوا ملکی عنانِ حکومت کے سیاسی زعماؤں نے قومی آزادی کے اِس تاریخی موقع پر ایسی منصوبہ بندی کیوں نہیں کی سوائے اِس کے کہ ایک تقریب ماضی کے برعکس 13 مارچ کی شب ڈی چوک اسلام آباد میں منعقد ہوئی، جس میں پرچم کشائی ہوئی اور وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے خطاب فرمایا قوم یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کیا سرکاری سطح پر 14 ؍ اگست کی آزادی کی تقریب یوں بے دلی سے منائی گئی اتنا ہی ہونا چاہیئے تھا ؟ نہیں جناب!
سوال یہ ہے کہ ماضی کی تاریخی روایات پر سمجھوتہ کیوں کیا گیا اسلام آباد میں جمع ہونے والے سیاسی دھرنوں کے خوف کے پیشِ نظر 14 ؍ اگست کی صبح منعقد ہونے والی تقریب کا وقت تبدیل کیوں کیا گیا جیسا کہ برسوں سے قوم نے د یکھتی چلی آرہی ہے کہ ہر برس یومِ آزادی کی یہ تقریب پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے باہر کشادہ لان میں پوری سج دھج‘آب وتاب اور شاندارباوقار انداز میں منعقد ہوا کرتی تھی ‘ باوقار ‘خود دار ‘اپنے ارادوں میں پختہ اور اپنے قومی عزائم پر مستحکم اور اٹل دلائل کی حامل قومیں اور اُن کے بے داغ دلیر قائد کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر نہ اپنے قومی نظریات سے سرِ مو انحراف کر تے ہیں اور نہ کسی سیاسی خوف میں مبتلا ہوکر وہ اپنے ارادوں پر ڈگمگاتی نظر آتی ہیں کاش؟ ہماری سیاسی قومی قیادت چاہے اُن کا تعلق حزبِ اختلاف سے ہو یا حزب اقتدار سے ‘ یہاں ہمیں سبھی ایک جیسے ذاتی مفادات کے چنگل کے اسیر نظر آئے کسی نے ’آزادی مارچ ‘ منایا کسی نے ’آزادی انقلاب ‘ کے نام سے اِس سال پاکستان کی قومی آزادی کے تاریخی اہمیت وافادیت کی نئی نئی اصطلاحیں گھڑ کر14 ؍ اگست کی قومی آزادی کے اِس اہم ترین دن کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا تادمِ تحریر19 ؍ اگست تک اسلام آباد میں کئی ہزار لوگوں پر مشتمل دونوں دھرنوں میں شریک پُرجوش افراد کا ہجوم اکھٹا ہے عین ممکن ہے کہ زیر نظر کالم پڑھتے وقت کوئی اور ہی نئی صورتِ حال قارئین کے سامنے ہو جہاں ہمارا یہ نکتہِ نظر ہے وہاں ہمارے بہت سے قابل اور لائق و فائق اور صاحبِ بصیرت احباب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ موجودہ سیاسی حکمرانوں نے ماضی کی طرح ہمیشہ جلد بروقت فیصلے کر نے کوتاہی برتی، یہ فیصلے چاہے اندرونی حساس اعلیٰ نوعیت کے اہم انتظامی معاملات کے بارے میں ہوں یا پھر مغربی سرحدوں کے قریب فاٹا اور شمالی وزیر ستان میں دہشت گردوں کی سر کوبی کرنے کے بارے میں‘ اُنہیں فی الفور بصیرت آفروز اور دوٹوک اقدامات اُٹھانے میں دیر نہیں کرنی چاہیئے اگر ہم نہایت دردمندی کے ساتھ اِس برس 14 ؍ اگست کو قومی آزادی کا یہ تاریخی دن قومی اجتماعی اتحاد واتفاق کا مظاہر نہ بنانے کی ذمہ داری اپنے حکمرانوں پر عائد کریں تو کیسی کو متعجب ہونے یا اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں ‘ چونکہ اُن کی آئینی ذمہ داری ہے جو اُنہوں نے نبھانے میں اپنی نا اہلیت کو عملاً ظاہر کردیا ہے عمرا ن خان ہوں یا علامہ طاہر القادری‘تقریبا دوماہ قبل عندیہ دے چکے تھے کہ اگر اُن کے مطالبے ( چاہے وہ حکومت کی نظر میں جمہوری ہوں یا غیر جمہوری )اِس سے قطعِ نظرحکومتِ وقت کو احساس کیوں نہیں ہوا وہ اِس گمان میں کیوں رہی کہ یہ دونوں قائد اپنے کہنے کے مطابق پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں ’10 لاکھ ‘ کا مجمع اکھٹا نہیں کرپائیں گے، بات 10 لاکھ یا 10ہزار کے مجمع کی نہیں ‘ وقوعہ کی دن تاریخ کی ہے یعنی ’14 ؍ اگست ‘ اور ساتھ ہی پاکستان کے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے امن وامان کو ’یومِ پاکستان ‘ کے روز کس قدر تشویش ناک حد تک ’پیرالائز‘ کردیا گیا آخر کیوں متبادل حکمتِ عملی اختیار نہیں کی گئی حکومت سے خفا دونوں سیاسی جماعتوں کو قبل از وقت ’اینگیج ‘ کرکے اِس برس کے یومِ آزادی کے دن کو اور بھرپور اور زیادہ باوقار انداز میں منانے کے اقدامات کیوں نہیں اُٹھائے گئے اگر متبادل اسٹرٹیجی اعلیٰ پیمانے پر اپنا لی جاتی ہوسکتا ہے 14 ؍ اگست کو پاکستانی عوام یوں اضطرابی خلفشار کی دردناک کیفیتوں سے نہ گزرتے افسوس ‘ جمہوریت کو بچاتے رہنا چاہے ریاستی عزتِ نفس اور قومی وقار کی دھجیاں اڑتی رہیں قوم کے ساتھ دنیا نے بھی دیکھ لیا‘
13 ؍ اگست کی شب سے’تاحال‘ الیکٹرونک میڈیا کے سبھی کیمروں کا اور مائیکروفونز کا رخ ’آبپارہ ‘ اور ’سرینا چوک‘ کے دھرنوں کی جانب دکھائی دیتا ہے ظاہر اب کوئی سوال بھی اُٹھائے گا کہ ’عمران خان اور علامہ طاہر القادری ‘یہاں بیٹھ کر اپنے ساتھ لائے گئے ہزاروں ورکرز سے بار بار لیئے جانے والے ’عہد وپیمان’’ پیچھے تو ہٹیں رہو گے‘وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے استعفے لیئے بغیر واپس جاؤگے‘ الیکشن کمیشن کی آئینی اصلاحات کا فیصلہ کیئے بغیر جاؤگے‘ کرپشن سے لوٹی گئی ملکی دولت کا حساب لیئے بغیر واپس جاؤگے‘ قادری صاحب اور خان صاحب اِسی طرح کے عوامی مقبولیت کے ہر عہد کا حلف اپنی اپنی ریلی کے شرکاء سے بار بار لیا ہمارا آئین اِس بارے میں ہمار ی رہنمائی کرتا ہے یا نہیں کرتا یہ سوچنے کا اب وقت نہیں ‘ اب سوچنا یہ ہوگا کہ ہزاروں بپھر ے ہوئے ہجوم کا یہ مجمع جیسا آیا تھا کیا ویسے ہی کچھ لیئے دئیے بغیر ’پُرامن ‘ واپس چلا جائے گا ؟ لوگ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ ملک میں جو جمہوریت اِس وقت رائج ہے کیا اِسی طرح کی اپنائی گئی طرز حکمرانی معروف عالمی جمہورتیوں میں تسلیم کی جاتی ہے گزشتہ پانچ سالہ دور میں اور موجودہ 14-15 ماہ میں ایک دوفیصد ریلیف عوام کو ملا بھی ہے ؟ اگر نہیں ملا تو پھر عوام کیوں ’جمہوری اصلاحات ‘ کا مطالبہ نہ کریں عمران خان یا علامہ طاہر القادری کی ریکارڈ تقریروں ‘ بیانات ‘ اخبارات اور ٹی وی کے انٹرویوز ‘پڑھیں ‘ دیکھیں اور سنیں وہ کہہ کیا رہے ہیں؟ امام حضرت علی کرم اللہ وجہُ فرماتے ہیں’ یہ نہ دیکھوکون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے‘ دونوں قائد خان صاحب اور علامہ صاحب 1973 کے آئینِ پاکستان میں درج آئینی دفعات کی روشنی میں جہاں شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کی باتیں بار بار دہرارہے ہیں وہاں اُن کے مطالبات کی تان ‘ محور اور مرکز جو قوم اب تک سن رہی ہے کیا حکمرانوں کے کان بند ہیں جو وہ سن نہیں رہے قوم کو ذہنی وفکری انتشار سے بچانے اور قومی طبقات میں ’پاکستانیت ‘ کا شعور بیدار کرنے والے خصوصی ایّام کی ساعتوں کو متنازعہ بنانے کے یہ رویے کسی بھی سچے پاکستانی کو زیب نہیں دیتے لہذاعوامی نظم وضبط اور فکری و نظر ی تنظیم کو یکجا کرنے والوں کی پاکستان کو جس قدر آج ضرورت ہے شائد پہلے کبھی نہ تھی۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top