ابو بکر البغدادی کی حقیقت اور پاکستان میں اس کے نادان حمایتی
[urdu]ابو بکر البغدادی کی حقیقت اور پاکستان میں اس کے نادان حمایتی
موجودہ دور میں اسلام، خلافت اور جہاد کے نام پر مختلف قسم کی خبریں اور افواہیں پھیلا کر مسلمانوں کو گمراہی اور تشدد کی ترغیب دی جا رہی ہےجبکہ اسلام کسی صورت بِلا تحقیق خبروں پر یقین کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔سورت الحجرات کی آیت نمبر6 میں ارشاد ہے کہ ” اے ایمان والو خبر کی تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ تم جہالت سے کسی پر ظلم کر بیٹھو اور تمہیں اپنے کیے پر شرمندگی اٹھانی پڑے”۔ ابو بکر البغدادی کے قیامِ خلافت کا خود ساختہ اعلان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہےجس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ موقع پرست دہشت گردوں نے بھی دہشت گردی کو مزید فروغ دینے کی کوششیں شروع کردی ہیں ۔ ابو بکر البغدادی کے گھناؤنے کردار اور ماضی میں اس کی تمام کار گزاری اور پسِ پردہ ایجنڈے کا مسلمانوں پر عیا ں ہونا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
درحقیقت خود کو خلیفہ ابراہیم نامزد کرنے والا ابو بکر البغدادی بدنام ِ زمانہ دہشت گرد گروہ القاعدہ کی پیداوار ہے اِسے عراق میں اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری نے القاعدہ کا امیر مقرر کیا تھا۔دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی فرمانبرداری کی دعوت دینے والے بغدادی کی شخصیت کا دوغلہ پن اسی امر سے سامنے آجاتا ہے کہ اس نےاسی ایمن الظواہری کے خلاف بغاوت برپا کر دی جس نے اسے القاعدہ میں جگہ دی تھی۔بغدادی کے ماضی کے مطابق کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا مگر خود اس کے دعوے کے مطابق اس نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہےجس کاتا حال کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔تا ہم یہ بات ثابت ہو چکی ہےکہ بغدادی کے پاس اسلامی علوم کی کوئی بڑی سند موجود نہیں ہے،جوکہ اس کے دعویٰ خلافت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔بھلا جب امت مسلمہ میں جیدعلماء،مفسرین ، محدث ،مفتی اور امام موجود ہیں تو بغدادی جیسے کم علم شخص کی کیا حیثیث ہے کہ وہ امت کی اطاعت و فرنبرداری کا حقدار ٹھہرے۔ویسے بھی خلیفہِ مسلمین بننے کے لیے اسلام نے مسلمان اور انسانیت کے بہت سے معیار مقرر کر رکھے ہیں ۔ دنیا میں کوئی بھی قتل وغارت کرنے والا شخص ،جس میں مسلمان اور مومن والی کوئی خوبی نہ ہو بلکہ وہ ایک دہشتگرد تنظیم کا رکن بھی ہو ا گروہ خلیفہ ہونے کا اعلان کرےتو وہ کسی بھی صورت مسلمانوں کا خلیفہ نہیں کہلایا جا سکتا ۔ یہی سبب ہے کہ اسے ہر طرف سے دھتکارا جا چکا ہے۔
جہاں بغدادی کی اپنی ذات کی خامیاں اسے اسلامی خلافت جیسی مقدس ذمہ داری کے لیے نا اہل بنا دیتی ہیں وہیں اس کی تنظیم ،ساتھیوں ،حمایتیوں اور اہلکاروں کی غیر اسلامی سرگرمیاں قرآن و سنت کی روح سے نا قابل قبول ہیں۔ اس عمل میں داعش نے ہزاروں صلافی اوروہابی جہادیوں کو ہلاک کردیا ہے۔عراق اور شام میں تا حال جاری لڑائی داعش جیسی تنظیموں کی تنگ نظری کی عکاس ہے جس کی ابتداء بغدادی نے القاعدہ میں پھوٹ ڈال کر کی۔بھلا جوشخص اور تنظیم اپنے ہی فرقے کے لوگوں کے قتل کے جنون میں مبتلا ہو وہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کو کیونکر رحم اور شفقت کی نظر سے دیکھے گانیزوہابی اور صلافی فرقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تعداد دنیا بھر کے مسلمانوں کی آبادی کے دس فیصد حصے سے بھی کم ہیں۔پھر ہم اسے کس بنیاد پر سبھی مسلمانوں کا رہنما تسلیم کرسکتے ہیں۔
بغدادی اور اس کی تنظیم کی چارہ دستیوں کا نشانہ صرف جہادی خود ہی نہیں بن رہے بلکہ ان کے بیوی بچوں کو بھی معاف نہیں کیا جارہاہے۔عورتوں اور بچوں کو لونڈیوں اور غلاموں کا درجہ دیا جا رہاہے۔ داعش کے اہلکار عورتوں کی تجارت اور جنسی کاروبار میں بھی ملوث ہیں جس کی بہت سی وڈیو زمنظر عام پر آچکی ہیں۔اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی بجائے اپنی بے محل دلیلوں کو جا ئز قرار دینے کے لیے قرآن و سنت کے نا م پر جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔زندہ مسلمانوں کے جان ومال کی حرمت کی پا مالی سے روکنا تودرکنار ،مقدس ہستیوں کے مزاروں کو دھماکے سے اڑا یاجا رہا ہے۔حضرت زینب بنت علی اور خالد بن ولید جیسی شخصیات کے مزاروں پرحملے کیے گئے۔بنی شیش اورحضرت یونس تو عیسائیوں کے لیے بھی مقدس ہیں۔مگر داعش نے عراق میں ان کےمزاروں کو بھی تباہی کا نشانہ بنایا۔جن دہشتگردوں کا اثاثہ اور پہچان ایسی سرگرمیاں ہوں انھیں اسلام اور مسلمانوں کا خیر خواہ تسلیم کرنا گمراہی اور نادانی کےسوا کچھ بھی نہیں۔
دہشت گردوں کے خلاف مسلح افواج کی کامیابیوں کے سبب پاکستان میں دہشتگردوں کو نا کامی اور مایوسی کا سامنا ہے جسکی وجہ سے اور وہ اپنے لیے نئی پناہ گاہوں اور سر پرستوں کی تلاش میں ہیں۔تحریک طالبان کے چند اہلکاروں کا بغدادی کی بیعت کرنے کا اعلان کرنا ایسی ہی ایک کوشش تھی جو محض ایک دعویٰ ہی ثابت ہوئی اور خود شاہد اللہ شاہد ایک وڈیو پیغام میں یہ رونا رو چکا ہےکہ بغدادی اور داعش نے انھیں کوئی گھاس نہیں ڈالی۔تحریک طالبان کے کمانڈروں کا یہ عمل خود اپنی تنظیم کے ساتھ اور غیر مخلصانہ طرز عمل کی نشان دہی کرتا ہے جنہوں نے القاعدہ کی حمایت بھی بغیر تحقیق اور علم کے کی تھی اور اب ابو بکر البغدادی سے گٹھ جوڑ بھی بغیر اسے جانے اور پرکھے کر رہے ہیں۔داعش کی حمایت میں پرچے اور اشتہارات بانٹنےوالے انتہا پسندوں کو بھی اس حقیقت کا ادراک نہیں ہے۔ جامعہ حفصہ کی طالبات کی بغدادی کے حق میں آنیوالی وڈیو بھی نادانی اور کم علمی کا ہی نتیجہ ہے۔
یہ تمام حقائق قارئین کو ابو بکر البغدادی اور داعش کی اصل حقیقت سے آگاہ کر نے کے لیے کافی ہیں ۔لہذا ان کے حق میں جاری سرگرمیوں سے بھی متاثر ہو نا گمراہی اور شر کے سو ا کچھ نہیں۔ ہمیں اپنے عزیزو اقارب دوستوں اور معاشرے کے دیگر افراد کو ان دہشتگردوں کے چنگل سےبچانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیےتاکہ معاشرے سے انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے ناسور کو نیست و نا بود کیا جا سکے۔[/urdu]