Posted date: April 12, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
برطانوی فری لینس صحافی’’کائرلوٹا گال‘‘ نے اپنی صحافتی پیشہ و ر انہ کیرئیر کا عملی آغاز 1994 میں ماسکو ٹائمز سے کیا اِن محترمہ کے والد بھی صحافی تھے مس کائر نے مسلم دنیا کے لئے خاندانی ورثے میں پائی جانے والی نفرت ‘ مسلمانوں کے لئے تعصب اور مخاصمت کے اظہار کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی، ابتداء سے اِس خاتون صحافی نے سوویت یونین کے بکھرنے کے بعدچیچنیا کے مسلمانوں کو سب سے پہلے ا پنیِ تنقید کا نشانہ بنا یا ایک عرصہ تک وہ ماسکو کے ممتاز اخبارات اور رسائل کے لئے مسلم مخالفانہ سنسنی خیزی پر مبنی رپورٹنگ کرتی رہی ، جس میں اپنے زہریلے، تیکھے اور نفرت بھر ے لفظوں کے اظہار کے ذریعہ چیچنیا کے مسلمانوں کو انسان سمجھنے کی بجائے اُنہیں وہ دردندہ صفت حیوانوں میں شمار کر نے جیسی غیر انسانی مثالیں دیا کرتی ، مسلمانوں کے خلاف اِس کا یہ اندازِ تحریر مسلم مخالف مغربی دنیا میں خاص کر امریکا اور اسرائیل میں خاصا پسند کیا جاتا ، جس کی وجہ سے مس کائر گال دنیا بھر میں ’معتبر ‘ درجہ پر پہنچ گئی ناجائز شہرت طلبی کی حرص جب کسی طبیعت پر حاوی ہو جائے کہ تو ایسا فرد اچھائی اور بُرائی میں تمیز نہیں کرتا ایسی ’سیمابی خواہشا ت ‘ کے حامل فر د چاہتا ہے کہ وہ کوئی ایسا ’صور‘ پھونکے جو اُسے ایکدم شہرت کی بلندیوں پر پہنچادے اِس کی فی الحال دوصورتیں تو یوں بنتی ہیں ایک صورت ہے ’ مثبت دوسری ’منفی‘ مثبت اور خیر کی دانشمندی سے مزین قابل ستائش ایک صورت وقت کے ساتھ پنپتی اور نمایاں ہوتی جاتی ہے جب اُس قابلِ رشک شہرت کو مسلسل لگاتار محنت اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ مسلسل اور بلا تعطل بطور مقدس فرض سمجھ کر ادا کیا جائے تو یہ ’مثبت ‘اور ’یقینی شہرت برحق کہلائے جانے کی مستحق ہوتی ہے جبکہ ماضی وحال کی دنیا گواہ ہے مثبت اور خیر کے مقابلے میں منفی اور پراگندہ آلودگیوں سے لتھڑی کوئی بھی شہرت جب وہ خیر اور حق کو للکارتی ہے، دنیا فی الفور ا س کی جانب مبذول ہوجاتی ہے حق اور سچائی کو جس نے کسی زمانے یا عہد میں جھٹلا یا وہ دیکھتے ہی دیکھتے وقتی لحاظ سے یقیناًشہرت تو ضرور پا گیا یہاں
پر یاد رہے اس قسم کی شہرت کی پاکیزگی اور کثافت پر کسی سوال کی ضرورت نہیں ‘بس دیکھنا یہ ہے کہ ’دنیا میں مشہور ہوئے یا نہیں ؟‘برطانوی فری لینس صحافی مس لوٹاگال ‘ کا تعلق بھی دنیا کی ایسی ہی دیگر کئی اور نام نہاد نامور اور ممتاز شخصیات کی صفوں میں آچکا ہے ،غیروں کا کیا تذکرہ کریں، بحمداللہ ! خود ہمارے اپنے پاکستان میں بھی ایسے کئی نام نام نہاد د ممتاز افراد خود کو ڈنکے کی چوٹ پر ’عالمی شہرت یافتہ صحافی ‘ سمجھتے ہیں بلکہ تسلیم کیئے جاتے ہیں مس کیئر لوٹا گال تو رہی ا پنی جگہ، خیر سے ہمارے اپنے ایک سابق ہزایکسی لینسی مسٹر حسین حقانی کیا کسی سے کم ’چرب زبان‘ تھے مس کائر لوٹاگال نے نیو یارک ٹائمز میں حسین حقانی ٹائپ کی ایک اسٹوری کی تھیم کو اپنی نئی کتاب کا عنوان بنا دیا اِس متنازعہ کتاب کے ابواب میں ہمیں کوئی نئی بات نظر نہیں آئی صرف پاکستان ‘ پاکستانی فوج اور ملکی سپریم انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے خلاف تصوراتی من گھڑت پیراگرا ف کے اُن کی کتاب میں کچھ نہیں ہے، (یہاں ایک مفت مشورہ اُن کے لئے، جو مغرب یا امریکا کی طاقتور اور ’ڈالر کی بارآور‘ لابیوں میں جگہ بنانا چاہتے ہیں وہ کچھ نہ کریں بس اوّلاً تقسیمِ ہند کی مخالفت کرنا شروع کردیں ‘ اسلام کی بنیادی آفاقی تعلیمات کی اصولی تشریحات میں اپنے نظری پیراگراف شامل کرنا شروع کردیں ‘ پاکستان کی ایٹمی اثاثوں کو محفوظ ومامون سمجھنے کے خلاف ممکنہ خطرات کا یقینی اظہار کرنا شروع کردیں ،پاکستانی ثقافت وسماج کے برخلاف بھارت کی بالادستی کو علاقہ کی اسٹرٹیجک ضرورت سمجھیں اور پاکستانی عوام کی ثقافتی توجہات کو بھارتی ثقافت کی جانب موڑنے کی عملاً کوششیں شروع کردیں خاص طور پرِ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کا نام لے کر اُنہیں افغانستان کی داخلی خود مختاری میں دراندازی کرنے میں ملوث کرنے جیسے صریح الزامات عائد کریں، اِس کے ساتھ تصوراتی من گھڑت ممکنہ ’ثبوت ‘ پیش کرنے کے دعویٰ کریں ایسا کوئی ’فنکار‘ صحافی چاہے وہ کہیں دوردراز کوٹ مٹھن میں ہی کیوں نہ بیٹھا ہو شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائے گا ) کیسا تفصیلی ’ڈالرآور‘ مشورہ ہے؟ آزما کر دیکھ لیں، حسین حقانی کو لوگ نجانے اتنی جلدی بھول گئے؟ اُس بیچارے نے یہ ہی کچھ تو کیا تھا، پورا پینٹاگان اُس کے پیچھے امریکا سے پاکستان چلا آیا بحفاظت اپنے ساتھ واپس بھی لے گیا ’عدل کے افتخار‘ افتخار چوہدری نے پہلے اُس کانام ای سی ایل میں ڈلوایا پھر یکایک اُس کانام ای سی ایل سے نکلوانے کا حکم صادر کیا غداری کے کیس میں ملوث یہ ملزم حسین حقانی وعدے کے مطابق آج تک سپریم کورٹ میں پیش ہو ا نہ عدالتِ عظمیٰ کے بنائے گئے اہم کمیشن کے سامنے آیا؟’ اسامہ بن لادن کے بارے میں پاکستان کو علم تھا‘ مس کائر لوٹا گال کی اِس کتاب کے مواد پر ہم کوئی بات نہیں کرنا چاہتے چونکہ اُس میں کوئی ایسی بات ہے ہی نہیں اِس پر کالم لکھنے کی وجہ یہ بنی کہ امریکی میڈیا کو نجانے کب عقل آئے گی، پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا تو کل آزاد ہوا مگر امریکی میڈیا کی آزادی کو صدیاں گزر گئی مگر آج تک پیشہ ورانہ ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں وہ اِس سے جان بوجھ کر بے خبر بنا پاکستان سے بغض وعناد کی آگ میں جلا جا رہا ہے اِس سے ہم انکار نہیں کررہے کہ مس کئیر لوٹا گال نے افغانستان میں گزرے گئے اپنے کئی برسوں میں جو کچھ بھی دیکھا ہے جس کی بے سروپا روداد کے انکشافات اپنی کتاب میں شائع کیئے اُنہوں نے وہ سب کچھ پاکستان مخالف عالمی رائےِ عامہ سے متاثر ہوکر لکھا سرزمینِ افغانستان کو وہ حامد کرزئی کی فراہم کردہ پاکستان مخالفت کے ذاتی عیبوں سے دیکھتی رہی کوئٹہ کی شوریٰ کی یہ فتنہ پُرور فسانے اُنہیں حامد کرزئی نے سنائے ہونگے ہاں ایک سوال‘ جو اُنہوں نے اپنی لغویات سے پُر کتاب میں اُٹھایا جس میں خاص کر ’ لال مسجدواقعہ ‘ کا تذکرہ ہے غلط یا سہی؟ اُس وقت کی حکومت نے اپنے دارلحکومت میں اِس سنگین مسئلہ سے جس طرح نمٹا اگر ایسی نوعیت کا کوئی سنگین واقعہ برطانیہ یا امریکا میں کوئی عیسائی مذہبی جنونی گروہ کسی گرجہ کو یرغمال بناکر وہاں یہ تماشا لگا دیتا تو برطانوی یا امریکی حکومت کا رویہ کیا ہوگا ؟ دوسرا مس لوٹا گال نے ابیٹ آباد کی اسامہ کی رہائش سے حافظ سعید اور ملا عمر کے درمیان ہونے والی خط وکتابت کی ’سورس‘ کا ذکر نہیں کیا ‘ بے نظیر بھٹو کے قتل میں پاکستانی ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کو ملوث کرنے والی بات مس گال نے اپنی کتاب میں لکھی ‘ یقیناًاُنہیں اِس بارے میں کسی اور نہیں حامد کرزئی نے یا پھر بہت ہی موثر اور ٹھوس ذرائع جس کی ’ڈوریاں‘ خلیل زلمے زاد کی ہاتھوں میں آج بھی ہیں اُنہوں نے مس گال کو یہ ’مشکوک مگر ‘ ہاٹ کیک لائن ‘ دی ہوگئی؟ آج نہیں تو کل شہید بھٹو کے قتل میں ملوث سی آئی اے سمیت ملکی ٹولز یقیناًجلد بے نقاب ہونگے، نسل برطانوی ہو یا امریکی یہ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے ان کے دل زنگ آلود لوہے کے مانند‘ جیسے زنگ‘ لوہے کو کھا جاتا ہے اُسے نابود کردیتا ہے، اُسی طرح سے مستقبل قریب میں یقیناًوہ عہد ضرور آئے گا جب شکست خوردہ ’حسد ‘ کی جلن سے متغیر ہوکر محکوم اور کمزور قوموں اور ملکوں کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے والی یہ عالمی شیطانی قومیں باہم ٹکراکر زنگ آلود لوہے کی مانند نابود ہوجائیں گی۔