بھارت ایک نسل پرست ریاست

نغمہ حبیب

جمہوریت کو انسانی حقوق کا علمبردار طرزِ حکومت سمجھا اور مانا جاتا ہے اور دنیا کے اکثر ممالک جمہوری اقدار پر بجایا بے جا فخر کرتے ہیں بے جا اس لیے کہ ہر ملک میں کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طور پر کسی نہ کسی کے جمہوری حقوق کسی حد تک پامال یا متاثر ہو رہے ہو تے ہیں لیکن کچھ ممالک میں یہ حد بہت آگے تک بڑھ جاتی ہے ایسا ہی ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی ہے ۔ کہلاتا یہ ملک خود کو جمہوریہ اور سیکولر ہے لیکن ہے یہ ہندو اکثریتی ہندو ریاست۔ اس کی ایک بد قسمتی یہ ہے کہ اس کے اندر ایک تو اقلیتیں کروڑوں کی تعداد میں ہیں مسلمان اٹھارہ بیس کروڑ دنیا کے آبادی کے لحاظ سے بڑے ترین ملکوں جتنی آبادی، سکھ دو کروڑ یورپ کے بڑے ملک جتنی آبادی ،بدھ تقریباََ ایک کروڑ خود ایک ملک جتنی آبادی ، عیسائی تقریباََ تین کروڑ ایک بہت بڑی آبادی ۔پھر یہاں دوسرا نظام ذات پات کا ہے اور سب سے نچلی ذات والے دلت ہندو جو ہندو ازم میں مذہبی طور پر ناپاک اور اچھوت ہیں یعنی اُنہیں چھولیا تو برہمن ملیچھ اور ناپاک ہوگیا چاہے برہمن عرصے سے نہ نہایا ہو اور دلت ابھی نہا کر آیا ہے سو انہی دلتوں کی آبادی تین کروڑ اور یوں کل ناپسندیدہ آبادی کی تعداد اٹھائیس سے تیس کروڑ ہے لہٰذا ہندو بچارہ کیا کرے اُسے اپنے غیر منطقی مذہب کو بھی بچانا ہے اپنے تعصب کو بھی اور اس تسلی کو بھی کہ پورے کرۂ ارض پر ایک ہندو ملک موجود ہے۔ اس کی حکومت اُسے زبان سے ہندو ریاست نہیں کہتی مگر دل میں ضرور سمجھتی ہے اور موجودہ وزیراعظم تو گاہے بگاہے زبان سے بھی اس کا اقرار کرتے ہیں اور وزارت عظمیٰ سے پہلے تو وہ علی الاعلان مسلم کش تھے اور اس مذہبی دہشت گردی پر فخر کرتے تھے۔ اُس نے اعلانیہ اقرار کیا کہ اُس نے بنگلہ دیش بنانے کے جرم میں اپنا حصہ ڈالا تھا یعنی ایک ملک توڑنے کا جرم ایک کھلی دہشت گردی۔ یہی حال بہت سے بھارتیوں کا ہے جو خود کو آر ایس ایس اورشیوسینا جیسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں یہ اونچی ذات اور نیچی ذہنیت کے ہندو خود نچلی ذات کے ہندؤوں کو بھی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے گٹر صاف کرتے ان کے گند اٹھاتے دلت اِن کی تضحیک ان کی توہین اور ان کے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں ان ہی تمام پہلوؤں کو محقق ڈاکٹر جنید احمد نے اپنی کتاب بھارت ایک نسل پرست ریاست میں اُجاگر کیا ہے۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی تو ابھی چند دن پہلے India An Apertheid State کے نام سے ہوئی لیکن بھارت میں یہ اقلیتیں اور نچلی ذات کے ہندو بھارت کی آزادی کے وقت سے ہی مظالم سہہ رہے ہیں ۔خود کو روشن خیال اور سیکولر کہنے والے بھارت میں اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اُس پر ایک نہیں کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ہندو ذہنیت ابھی بھی ہزاروں سال پہلے کی جہالت سے نہیں نکلی اور یہی وجہ ہے کہ ہر نسل اور مذہب کے غیر ہندو یہاں تکلیف دہ زندگی ہی گزارتے ہیں۔ مسلمان یہاں دنیا کی سب سے بڑی اقلیت کی حیثیت سے موجود ہیں لیکن نہ تو تعلیم میں ان کا وہ تناسب ہے نہ ملازمتوں میں۔ بھارت میں ملازمتوں میں اقلیتوں کا کوٹہ 8.57 فیصد ہے لیکن اسے کہیں بھی قائم نہیں رکھا جا رہا پولیس میں صرف 6% اورصحت میں 4.4% غیر ہندو کام کررہے ہیں۔ نصاب تعلیم کو لیں تو پورا نظام تعلیم ہندو مذہب کے گرد گھومتا ہے۔ مان لیا کہ اکثریت ہندؤں کی ہے لیکن کہنے کو تو ملک سیکولر ہے پھر ایسا کیوں ہے کہ مسلمانوں سمیت ہر مذہب کے بچوں کو دیوی اور دیوتاؤں کے بارے میں پڑھا یا جا رہا ہے جبکہ یہ بھارت کے آئین کے بھی خلاف ہے لیکن وہی ملک جو اپنی جمہوریت پر فخر کرتا ہے اپنے ہی قانون اور آئین کے خلاف کام کرتا ہے اس ملک میں بیس کروڑ مسلمانوں میں سے 50% غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ان کی نسل کشی کئی کئی طریقوں سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ان کی ثقافت کو مختلف ذرائع سے ختم کیا جا رہا ہے اردو زبان کو چند اخبارات نے ہی شاید زندہ رکھا ہوا ہے ورنہ یہ نہ تعلیم کی زبان ہے نہ دفتر کی نہ عدالت کی نہ رابطے کی مجھے ایک پڑھی لکھی ایسی مسلمان خاتون سے ملنے کا اتفاق ہوا جن کا تعلق بھارت کے شہر ممبئی سے ہے اردو ان کی مادری زبان ہے لیکن وہ اردو کو رومن میں لکھتی ہیں نہ ہی وہ اردو لکھ سکتی ہیں اور پڑھ سکتی ہیں یہی حال وہاں کے دوسرے پڑھے لکھے لوگوں کا ہے کیونکہ اردو کو نہ پرائمری لیول پر پڑھایا جارہا ہے نہ سیکنڈری لیول پر اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ایک بچہ کسی زبان کو سیکھتا ہے۔ مسلم ثقافت اور تہذیب تو ویسے ہی نصاب تعلیم سے غائب ہے اور جب بہت سارے مسلمان اپنے عقیدے سے ٹکراؤ کی وجہ سے تعلیم حاصل ہی نہیں کریں گے تو ظاہر ہے کہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہی رہیں گے۔ بھارت یہ سب کچھ اپنی تمام اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندؤں کے ساتھ کر رہا ہے کمترین نوکریاں اور پیشے انہی کے لیے ہیں، تعلیم میں وہ پیچھے، سہولتوں پر ان کا حق نہیں، فسادات میں وہ مارے جاتے ہیں اور اگر وہ اپنی جانیں اور مال بچانے کے لیے کوئی تحریک چلائیں یا کوشش کریں تو حکومت ان کے خلاف سخت ترین اقدامات کرتی ہے اور یوں وہ صدیوں سے جمے ہوئے پانی کے طرح رہ رہے ہیں اور یا پھر کشمیریوں اور نکسل باڑیوں کی طرح ان کی گولیوں کی زد میںآکر اپنی جانیں ہارتے رہتے ہیں۔ لہذا یہ ہے بھارت کا وہ چہرہ جسے نہ صرف ڈاکٹر جنید احمد نے مرتب کیا بلکہ بیشمار دوسرے گواہوں نے بھی اِسے کتابوں کی صورت میں جمع کیا ہے۔ تاریخ جو بھی لکھے وہ اِن گوشوں کو چھپا نہیں سکے گا اور بھارت اپنی جمہوریت کے نقاب کے پیچھے سے دنیا کے سامنے نظر آتا رہے گا،شاید آج کی عالمی قواتیں اپنے اس ’’دوست‘‘ کے گناہوں سے نگاہیں چُرالیں اور آنکھیں بند کر لیں لیکن آنے والے وقتوں میں جب اس کا مسلمان، عیسائی اور دلت تاریخ لکھے گا تو اپنی نسلوں کے ساتھ ہونے والے زیادتی پر اسے ہرگز معاف نہیں کرے گا۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top