Posted date: September 03, 2013In: Urdu Section|comment : 0
ایس اکبر
گزشتہ ماہ دہشت گردوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر حملہ کر کے 243 قیدیوں کو آزاد کروالیا۔ پچھلے سال بنوں جیل پر حملے کے بعد یہ جیلوں پر دوسرا بڑا حملہ تھا۔بنوں کی طرز کا ہی ایک حملہ ڈیرہ اسماعیل خان کی سنٹرل جیل پر ہوا۔ جس میں درجنوں حملہ آور جیل پر حملے کی غرض سے آئے جن میں خودکش حملہ آور بھی شامل تھے۔
بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر کامیاب حملوں کے بعد دہشت گردوں کا جیلوں پر حملوں کی دھمکیوں کا ایک تانتا سے بندھ گیا ہے۔ اب یہ ظالم دہشت گرد ملک میں تمام سنٹرل جیلوں کو دھمکیاں دیتے پھر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں اب اپنے گرفتار ساتھیوں کو موت کی سزا سے بچانے کے لیے انھوں نے دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں کہ اگر انھیں پھانسی دی گئی تو اس کے نتائج بہت سنگین ہو نگے۔ کالعدم تنظیم کے دو کارندے عطا اللہ اور محمد اعظم کو 2004 کو سزائے موت سنائی گئی تھی جنہیں 20 اگست کوپھانسی ہونی تھی۔ ان کی حمایت کے لیے دہشت گردوں نے جنوبی اور شمالی وزیرستان کے علاقے میں پمفلٹ تقسیم کیے ہیں جس میں حکومت وقت کو دھمکی دی گئی ہے۔ اس دھمکی کے بعد سکھر جیل میں سکیورٹی کے انتظام مزید سخت کر دئیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سینٹرل جیل حیدر آباد پر بھی دہشت گردوں نے حملے کی دھمکی دی ہے جہاں دہشت گرد شیخ عمر سمیت جہادی تنظیموں کے 5 مجرم قید ہیں۔ جن میں سے بیشتر کو سنگین جرائم میں پھانسی کی سزا ہو چکی ہے اطلاعات پر رینجرز اور پولیس فوری طور پر حرکت میں آگئی اور اس جیل کی سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔
گزشتہ ماہ موجودہ حکومت نے دہشت گردوں کو سزائے موت پر عمل در آمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت اگست کے مہینے میں سنائی گئی سزائےا موات کو عملی جامہ پہنایا جانا تھا۔ طالبان سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد ڈاکٹر عثمان کو 23 اگست کو پھانسی دی جانی تھی۔ جونہی حکومت نے یہ اعلان کیا پنجابی طالبان کے سر غنہ عصمت اللہ معاویہ نے حکومت کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ اگر انھیں مو ت کی سزا دی گئی تو پورے ملک میں جنگ مسلط کر دی جائے گئی۔ اس کے علاوہ تحریکِ طالبان نے فیصل آباد جیل پر بھی حملے کی دھمکی دی ہے۔ کچھ سیاسی اور انتظامی وجوہات کی بنا پر یہ سزائے موت کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دی گئی ہیں۔ تا ہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ متعلقہ ادارے اور حکومت ان ظالموں کی دھمکیوں سے ڈر گئی ہے بلکہ درحقیقت یہ ملک میں امن و امان چاہتے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے افہام و تفہیم کے ساتھ تمام مسائل حل کیے جا سکے۔
پچھلے کئی سالوں سے پاکستانی عوام نے دہشت گردی کی جنگ میں ناقابلِ فراموش قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردوں نے اس ملک کا امن و امان تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ۔ وہ جہاں چاہتے ہیں جب چاہتے ہیں ایک معصوم نہتے انسان کو اپنے ظُلم کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ ان ظالم دہشت گردوں کو ان کی ظالمانہ کاروائیوں کی وجہ سے ہی سزائے موت سنائی گئی ہے۔ ان شیطان کے چیلوں کی سزائے موت وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ انھیں عبرت کا نشان بنایا جا سکے اور یہ باور کروایا جائے کہ بُر ے کاموں کا بُرا نتیجہ ہوتا ہے۔ دہشت گردوں کے چُنگل میں پھنسنے والے نوجوان بھی ان ظالموں کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تا کہ وہ ان انسانیت دشمن دہشت گردوں کی حقیقت سے آگاہ ہو سکیں اور کبھی بھی ان ظالموں کے شکنجےمیں نہ پھنس سکیں۔ حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ دیر کیے بغیر ان ظالموں کو قرار واقع سزا دے کر انھیں کیفرِ کردار تک پہنچائے۔
جہاں تک جیلوں پر حملوں کا تعلق ہے تو اسکی روک تھام کے لیے حکومت کو باقاعدہ منظم حکمتِ عملی ترتیب دینی پڑے گئی۔ تمام خطرناک مجرموں کو سزا ان کے مقررہ وقت پر ہی دی جانی چاہیے۔علاوہ ازیں اگر ایسے دہشت گردوں کی سزا میں ابھی کچھ وقت باقی ہے تو ان خطرناک مجرموں کو خصوصی جیلوں میں رکھا جانا چاہیے۔ ہمارے ملک میں جیلیں پرانی اور ناقص ہیں یہ اتنے ملزموں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی اس لیے قیدیوں کے تحفظ کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔ جس کے لیے چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کےمقدمات کا فوری فیصلے ہونے چاہیے تا کہ جیلوں سے بوجھ کم کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام جیلوں پر حفاظتی اقدامات سخت سے سخت کر دینے چاہیے۔ سکیورٹی پر موجود نفری کو جدید ترین اسلحے سے لیس کرنا حکومتِ وقت اور متعلقہ اداروں کی اولین تر جیح ہونی چاہیے تا کہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹ سکیں اور اس طرح کے بڑے حملوں کو ناکام بنایا جا سکے۔