دہشت گردوں کا معصوم لڑکیوں سے شادیاں کرنے کا گمراہ کن عمل

[urdu]

Young girls abused by terrorist in the name of marriage

 فائزہ خان

اس وقت عالمِ اسلام ظلم و ستم کا شکار ہےاورشام،عراق اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں دہشت گردی کی بڑی تحریکیں چل رہی ہیں جن کے انتساد کے لیے متعدد ملک فوجی کاروائی میں لگے ہوئے ہیں ۔مسلمانوں کی یہ حالت ان کا      سیاسی ،معاشی ،تہذیبی اور تعلیمی زوال ہے۔بظاہر خود کو اسلام کا محافظ کہنے والی دہشت گرد تنظیموں نے خود ہی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہی تنظیمیں روز نت نئے حربے استعمال کر کے اسلام اور مسلمانوں کو ملعون کرنے میں کو شاں ہیں جس میں سے ایک حربہ عورتوں کو ناجائز کاروائیوں کا حصہ بننے پر اُکساناہے۔دہشت گردوں کے دیئے گئے زخم ابھی مند مل نہ ہو پائے تھے کہ اس سے زیادہ وحشت و بربریت کی ترجمان خواتین اپنا گمراہ کن ایجنڈا لے کر اس میدان میں اترتی نظر آئیں۔

خواتین کا گروہ در گروہ دہشتگردانہ کاروائیوں میں مداخلت کا عمل کئی نسلوں سے چلتا آرہا ہے۔تا ریخ کا یہ باب انیسویں صدی کے نئے طرز کی خود کش حملہ آور ‘تامل ٹائیگرز’ اور چچنیا کی ‘بلیک وڈوز’ نے رقم کیا۔بتدریج خواتین کا دہشت گردی میں کردار منظرعام پر آگیا۔لیکن ماضی میں عورتوں کی دہشتگردانہ کاروائیوں میں شمولیت رنگ،نسل اور تفریق کے بنیادی حقائق کے حصول کے گرد ہی گھومتی رہی جبکہ دورِ حاضر میں دہشتگرد خواتین کا مقصد نام نہاد مذہبی تنظیموں کے شدت پسند ایجنڈوں کی تکمیل ہے۔

نوجوان لڑکیوں اور بچیوں کا القاعدہ اور داعش جیسی مذہب کے نام پر دہشت گردی کو فروغ دینے والی تحریکوں کا حصہ بننا بھی اس عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے جو حفاظتی اداروں کی کاروائیوں کو اس جنسی تفریق کے باعث کمزور بنا رہا ہے۔حال ہی میں کراچی میں داعش سے منسلک عورتوں کے ایک گروہ کو گرفتار کیا گیا جو معصوم لڑکیوں کی شادیاں دہشت گرد گروہوں کے باشندوں سے کرانے میں ملوث تھا۔انہی خواتین ملزمان میں سے ایک خاتون ملزم خالدیوسف باری کی اہلیہ تھی جو لڑکیوں کا ایک مدرسہ چلا رہی تھی اور داعش سے متعلقہ وڈیوز فراہم کر کے کم سن لڑکیوں کے دلوں میں ان کے لیے ہمدردی پیدا کر رہی تھی تاکہ انھیں خطرناک دہشت گردوں سے شادیاں کرنےپر رضا مند کیا جائے۔

داعش جیسی انتہا پسند تنظیموں کا خواتین کو اپنے پروپیگنڈہ کا حصہ بنانے کا اصل مقصد ان سے رشتہ ِازدواج میں منسلک ہو کر ان کی خدمات حاصل کرنا اور اپنی نسل کو فروغ دینا ہے۔جیسا کہ 29 سالہ تاشفین ملک اپنے شوہر کے ساتھ کیلفورنیا پر ہونے والے حملےمیں ملو ث تھی۔خواتین کا ایسی انتہا پسند کاروائیوں میں ملوث ہونا حفا ظتی اداروں کے اقدامات کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔جہاں میاں بیوی ایک ہی کمرے میں آمنے سامنے بیٹھ کر خودکش حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں وہاں ان کی نگرانی کےلیے کوئی آلات نصب نہیں کیے جا سکتے ۔نیز خواتین کو اسلامی معاشرے میں بے پناہ عزت حاصل ہوتی ہے جسکی وجہ سے قانون نافذ کرنیوالے ادارے ان کی جامعہ تلاشی نہیں لیتے۔اس لیے دہشت گرد گروہ اسلحے اور بارودی مواد کی نقل وحمل کے لیے خواتین کو استعمال کرتے ہیں۔پاکستانی معاشرے میں چادر اور چار دیواری کے تقدس کا لحاظ رکھا جاتا ہے جس کے سبب سے گھروں کی تلاشی لینا آسان کام نہیں ہے ۔اسی بات کا فائدہ اٹھانے کے لیے دہشت گرد معصوم لڑکیوں سے شادیا ں رچا کر کو معاشرے کےمعزز خاندان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

خواتین کا اپنے شوہروں کاایسی شدت پسند کاروائیوں میں ساتھ دینا بہت شازو نادر ہی دکھائی دیا ہےلیکن غیر ارادی ہونے کے باوجود عورتوں کی ایسی دہشت گرد تنظیموں میں بڑھتی ہوئی شمولیت اور دہشت گرد نظریے کی تقلید ایک پریشان کن عمل ہےجو کہ حفاظتی ادارو ں کی کاروائیوں میں رکاوٹ حائل کر رہا ہے۔اس سلسلے میں بین الاقوامی قانونی اداروں نے کولوراڈو کی 3 نوجوان لڑکیوں کو جرمنی سے گرفتار کیا جن کا تعلق داعش سے بتایا گیا ۔گزشتہ سال اپریل میں مزید 2 خواتین کو نیو یارک سے گرفتار کیا گیا جو کہ خودکش بم دھماکے کی منصوبہ بندی میں مشغول تھیں اپنی کاروائیوں کا حصہ ایک اور شادی شدہ جوڑا جراد اور آماند مائلر کی صور ت میں سامنے آیا جس نے لاس ویگاس میں فائرنگ کر کے 3 معصوم افراد کو اپنی شدت پسندی کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح اینٹی دیفیمثن لیگ نے داعش سے متعلقہ 15 خواتین کا داعش سے اتحاد کے اعلان کا انکشاف 2015 میں         کیا ۔جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی داعش پر شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق داعش کے 300 سے زائد ٹوئٹر اکاونٹس کو چلانے میں ایک تہائی سے زائد خواتین ملوث ہیں۔داعش میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت کا جواز توصحیح سے معلوم نہ ہو سکا لیکن قانون نافذ کر نے والے اداروں نے دشمن کے اس ایجنڈے کو بھانپ کر اس کی خوفناک کاروائیوں کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں۔

خواتین کا اپنے شوہروں کے ساتھ یوں دہشت گردی کا حصہ بننا گمراہ کن اور غیر اسلامی ہے۔احادیث کی کتابوں میں روایت ہے کہ نبی اکرمؐ کی خدمت میں ایک صحابیہ رضی تعالی ٰعنہا حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ”حضورؐ میں تمام عورتوں کی طرف سے قاصد بنا کر آپکی خدمت میں بھیجی گئی ہوں۔سب کی طرف سے میرا آپؐ سے یہ سوال ہے کہ مردوں پر تو خدا نے یہ مہربانی کی ہے کہ ان کےلیے جہاد مقرر کیا گیااور وہ جہاد میں غالب آجائیں تو اجروثواب ملا اور دنیوی مالِ غنیمت بھی ہاتھ آیا اور اگر ہار گئے اور مارے گئے تو شہادت کا عظیم درجہ نصیب ہوا، رب کے پاس زندہ رہے اور روزیاں کھاتےرہے۔ہم عورتیں تو آخر انہی کی خدمت میں رہتی ہیں ہم اس درجہ جہاد سے محروم ہیں؟ تو نبی اکرمؐ نے ارشا د فرمایا’جاؤ! جو عورت بھی تم سے ملے میرا یہ پیغام ان تک پہنچا دو کہ عورتوں کا جہاد یہی ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی فرمانبداری کریں اور ان کے حق کا اقرار کریں اللہ تعالیٰ انھیں جہاد کا ثواب عنایت فرمائے گااورایسا کرنے والی عورتیں تم میں بہت کم ہیں۔” حدیث کی روشنی میں یہ ثابت ہوا ہے کہ شوہر کی اطاعت و فرمانبداری میں عورت کا جہاد ہے اور اسے جہاد میں جانے کے برابر کا ثواب ملے گا۔دہشت گردمسلمان خواتین کے اسی کردار کا فائدہ اٹھا کر انھیں گمراہ کر رہے ہیں اور جہاد کے نام پر دہشت گردی میں ملوث کر رہےہیں۔

داعش نے خواتین کے تقدس کا ذرا بھی لحاظ نہیں رکھا اس لیے ہماری خواتین کو اس کے دہشت گردوں کے چنگل میں نہیں پھنسنا چاہیے ۔مسلمان علماء کا اتفاق ہے کہ خود کش حملے اسلام کی روح سے حرام ہیں مگر داعش نے عراق اورشام میں خواتین سے مسجدوں پر خودکش حملے کرانے جیسا مکروہ کام کرایا۔نیز داعش کےبار باراعترافی بیانات سامنے آئے ہیں کہ وہ خواتین کو اپنی غلامی میں لے رہے ہیں۔حریت کا جو پیغام قرآن وسنت نے خواتین کو دیا ہے داعش کایہ عمل اس سے متصادم ہے۔لہذا داعش کے دہشت گردوں کے چنگل میں پھنس جانے والی خواتین کو جلد از جلد اپنی نجات کی کوششیں کرنی چاہیں۔ان خواتین کو بھی ضرور بے نقاب کرنا چاہیے جو معصوم لڑکیوں کو بھٹکاکر ان کی شادیاں دہشت گردوں سے کرا رہی ہیں۔

[/urdu]

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top