Posted date: February 11, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
برس جیسے تیسے گزر گئے پیچھے مڑکر دیکھنے کی بجائے آج ہمیں دیکھنا ہوگا ہمارا آنے والا کل پُرامن گزرے گا یا نہیں؟ہمارے معاشرے میں امن قائم ہو پائے گا یا یونہی سماجی ومعاشرتی عدم تحفظ اور بے یقینی کی کیفیتوں میں مبتلا ‘ دہشت گردی جیسی لعنتوں کا شکا ر بنے ہم مجبوروں کی سی زندگی گزار تے رہیں گے؟ بحیثیتِ پاکستانی ہم اپنے آپ کو موجودہ حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں یسے ناگفتہ بہ حالات میں؟جہاں قدم قدم پر انتشار پسندی ‘خو د غرضی ‘ اور مفاداتی حرس وہوس کی منفی دوڑ میں ہماری سیاست ہر روز نئے سے نئے رنگ ڈھنگ میں ہمیں لبھاتی و پچکارتی ہے کیا یہ ہی ہے ہمارا ازلی وابدی نصیب ؟کیا یہ ہی وہ اسلامی فلاحی ریاست ہے؟جس کے حصول کی جدوجہد میں ہمارے بزرگوں کا لہو شامل ہے، یہ ہے وہ نئی سوچ‘ وہ نئے خیالات جو یقین وعزم کی سربلندی سے سرشار پاکستانی نوجوانوں کو اب یہ احساس دلانے لگی ہیں کہ نہیں اب اُنہیں خود میدانِ عمل میں اتر کر پاکستان کی سماجی و ثقافتی شناخت کو دنیا بھر میں منوانا پڑے گا،دہشت گردوں کی انسانیت سوز سرکشی وبغاوت کے سامنے پاکستانی قوم نے نہ کل اپنے سر خم کیئے نہ ہی آج وہ اُن کے کسی غیر آئینی مطالبے کو خاطر میں لانا پسند کرتے ہیں پاکستانی سیکورٹی فورسنز سمیت ملکی عوام میں سے پچا س ہزار سے زائد قیمتی جانوں کا نذرانہ کم نہیں ‘یہ بے گناہوں کا خون تھا کسی قیمت معاف نہیں کیاجاسکتا دیکھ لیا قوم نے اپنے جمہوری سیاست دانوں کو ‘ اِن کے اپنے دامن بڑے داغدار ‘ کئی نوع کی سماجی ومعاشرتی آلودگیوں سے کثیف ‘اِن کا ہر قدم ناکامی کا پَرتو‘ اِن کا ہر فیصلہ خوف زدہ و شکست خوردہ ‘ اِن کا ہر کلمہ ہر خطبہ ڈرا ہو اسہما ہوا ‘ دنیا کو دکھانے کے لئے اللہ کا نام لیتے ہیں دہشت گردوں کی دہشت ناکیوں سے اَن کے دلوں کی دھڑکن’دھڑکانا‘ ڈگمگاجاتی ہے آزمائش وابتلا میں قوم کو ’صبر ‘ کی دعائیں دینے کے علاوہ کچھ اور کر گزرنے کا یہ حوصلہ ہی نہیں ر کھتے
افسوس ! 2013 کے عام انتخابات ہوئے دس ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا، ملک کے کسی بھی صوبے میں’ تبدیلی‘ نام کی کوئی چیز نہیں آئی جنہیں انصاف کرنا تھا وہ انصاف نہیں کرپائے جنہیں مردانگی ‘جراّت مندی ‘دانش مندی سے سیاسی طور دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ کرنا تھا وہ آج ہمیں دہشت گردوں کے سامنے کتنے بے بس دکھائی دیتے ہیں ،گزشتہ سات آٹھ برسوں سے پے درپے ‘مسلسل دہشت گردی کی ہولناکیوں سے ملک بھر کو یرغمال بنائے رکھنے والے دہشت گردوں کو قصداً اِنہوں نے بطور ایک ’ ریاست ‘ یعنی ،اسٹیک ہولڈر‘ تسلیم کرلیا اُن سے باقاعدہ مذاکرات ہو رہے ہیں ڈرون حملوں کے خلاف اختیار کردہ سیاسی حکمت عملی سمجھ میں آتی ہے اِس سے انکار نہیں ‘ مگر پاکستانی سماج کو مجموعی طور پر ملکی معاشرے کو اُن کے اپنے لہو میں لت پت کردینے والوں سے آئین کے دائرے میں مذکرات کو قوم کیا سمجھے ؟پاکستانی نوجوانوں کے سمجھ میں یہ نکتہ نہیں آرہا ! وزیراعظم پاکستان نے اب تک غالباً کئی بار عوامی اجتماعات میں دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنے کی بات کی، عین وقت پر قومی اسمبلی میں وزیر اعظم نے اُنہیں ’ جنگی بندی ‘ کے نام پر امن مذاکرات کی پیشکش کرڈالی ؟کیا سیاست اِسی طرح کی جاتی ہے کل تک قبائلی علاقوں میں پھلنے پھولنے والے یہ دہشت گرد گروہ القاعدہ اور افغان طالبان کے ’کل پُرزے ‘ بنے ہوئے تھے پاکستانی فوج پر الزام دیاجاتا تھا کہ وہ امریکا کی جنگ لڑی رہی ہے؟ جبکہ یہ صرف بے تکاسا تزویراتی عملیت پسندی سے بالکل ناواقفیت کی بناء پر واقعی ایک الزام ہی تھا پاکستانی فوج نہ امریکا کی جنگ لڑرہی تھی نہ افغانیوں کی جنگ وہ صرف مغربی سرحدوں پر پاکستانی مفادات کے سرحدی تحفظ کا آئینی فریضہ اداکررہی تھی اپنے بہادر ‘ جانثار اور بیباک سرفروشوں کی قیمتی جانوں کا بیش بہا نذرانہ پیش کرکے ملکی آئین کی تھارٹی کو بحال کرانے میں ہماری فوج جیسے کل مصروفِ عمل تھی ویسے ہی آج بھی ہماری پاک فوج اپنے اسی اہم آئینی فریضہ کی بجا آوری میں مصروفِ عمل ہے لیکن آج کا جدید تعلیم یافتہ ‘ذہنی و باشعور اور تحقیق و تجسس میں مگن ہر پاکستانی نوجوان حکمرانوں سے یہ پوچھنے کا کیا حق رکھتا ہے جنابِ والہ! فاٹا کے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی دہشت گردوں نے آخر اتنی طاقت کہاں سے حاصل کرلی کوئی ازبک کوئی چیچین‘ کوئی کازیک اور کوئی کرغیزستانی ہے یہ کون ہوتے ہیں جو پاکستانی قبائلی علاقوں میں بیٹھ گئے ہیں یہ کون ہوتے ہیں مطالبہ کرنے والے کہ ’پاکستان میں شریعت کا نظام نافذ کیا جائے ‘ یا اِن دہشت گردوں کا یہ کہنا کہ ’ ’پاکستان کا آئین غیر اسلامی ہے ‘‘ خبیر پختونخواہ میں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے جسے پاکستانی نوجوانوں نے بہت زیادہ تعداد میں قبولیت عام کی سند بخشی ،جہاں تک امریکی ڈرون حملوں کے خلاف عمران خان کی بات ہے اُس میں وزن ہے، مگر کالعدم دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی کے لئے عمرا ن خان کے دل میں پائے جانے والے نرم گداز گوشہ نے پاکستانی نوجوان کو حیرت زدہ کیفیت میں مبتلا کردیا ہے عمران شائد ہی اِس حیرت زدہ سچ کا کوئی جواب دے پائے گا انسانوں کی کھوپڑیوں کو ’فٹ بال‘ بناکر دلپشورکرنے والے طالبان نے عمران خان کا نام اپنی جانب سے پیش کرکے یہ بتلا دیا ہے وہ بھی پاکستان کے قدیمی سیاست دانوں کی طرح کا ’سان‘ پر چڑھا ہوا ایسا ہیرو ہے جس کے نظریات کا اپنا کوئی دائرہ ہی نہیں ‘جوتاریخ کے تقاضوں کے حدودوقیود سے آشنا نہ ہو ‘معاف کیجئے گا یہ الفاظ تاریخ کے ہیں ایسوں کو ہر عہد کی تاریخ نے ’استبداد ‘ کہا ہے ، اِنہیں جاننا چاہیئے تھا کہ کے پی کے سے ملحق فاٹا کی آزاد ایجنسیوں میں گزشتہ کئی صدیوں سے قبائلی جرگہ سسٹم رائج چلا آرہا ہے، پھر یہ دہشت گرد افغانستان کے کنٹر اور نورستان صوبوں ے بے دخل ہوکر فاٹا میں ہتھیار بند ہوکر بیٹھ گئے، کل جب امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی، عالمی خفیہ منصوبوں کے نتیجے میں افغانستان میں بھارتی عسکری انفراسٹریکچر امریکیوں کی جگہ لے گا تو کیا یہ سمجھنے میں کوئی مشکل امر ہے پاکستانی مغربی سرحدیں اور غیر محفوظ نہیں ہوجائیں گی فاٹا میں دہشت اور تباہی کا خوف پیدا کرنا ہی عالمی ایجنسیوں کا ایک نمایاں مقصد ہے جن میں بھارتی ایجنسی ’را‘ پیش پیش ہے جبکہ ہمارے سیاسی بزرجمہرے اُن کے ہاتھوں کھلونا بنے تنگی کا ناچ ناچ رہے ہیں لگتا ایسا ہی ہے ہماری ای میل پر ملکی نوجوان طبقات نے بھرمار شروع کی ہوئی ہے اُن کا کہنا ہے کہ ’’سیاست دانوں پر اخلاقی و سماجی دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ دہشت گردوں کے دباؤ کی بالکل پرواہ نہ کریں ملکی نوجوان اپنے جمہوری نظام پر صدقِ دل سے قائم جمہوریت کو مزید پھلتا پھولتا ہوا دیکھنے شدید آرزومند ہیں بس بہت ہوچکا دہشت گردوں کو مزید ڈھیل دینا مناسب نہیں ‘ اگر حکمران اپنے میں طاقتور قوتِ فیصلہ پیدا کرلیں، دہشت گردی کے شیطانی فتنہ کی جڑ بیخ کو اکھاڑ پھنکیں تو اُن کا یہ کارنامہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھا جائے یاد رہے کہ ’موجودہ دہشت گردی کا خاص مقصد پاکستان کے اندرونی امن وامان کو یونہی تہہ وبالا کیئے رکھنا ہے تاکہ پاکستانی قوم کا اعتماد متزلزل رہے یہ قوم سیاسی حکمرانوں سے متنفر ہوجا ئے آج فاٹا میں دہشت گردوں سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو کل کلاں کو بلوچستان کے ناراض طبقوں سے اسلام آباد کیسے نمٹے گا ؟ ۔