Posted date: July 16, 2013In: Urdu Section|comment : 0
ایس اکبر
وطنِ عزیز میں دہشت گردی، بم دھماکوں اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنا پر قتل وغارت کا ہولناک سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے جس سے معاشرتی امن اور سماجی ڈھانچہ بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ دہشت گرد اپنی کاروائیوں کو جہاد کا نام دیتے ہوئے انھیں اسلامی تعلیمات کے عین مطابق قرار دیتے ہیں جبکہ درحقیقت ان کی تمام کاروائیوں کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ عناصر مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی حق دار نہیں۔اس صورتِ حال کے پیش ِ نظر دہشت گردوں کی کاروائیوں کے خلاف اسلام کے اکابرین و مفکرین متعدد بار فتویٰ اور اعلامیہ جاری کرتے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں سنی اتحاد کو نسل سے وابستہ پچاس مفتیوں نے کوئٹہ، پشاور اورنانگا پربت میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کےبعد خودکش حملوں، قتلِ ناحق ،بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف اجتماعی فتویٰ جاری کرتے ہوئے ان کاروائیوں کو اسلام میں حرام قرار دیا ہے۔فتوے کے مطابق قتل شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور غیر ملکی مہمانوں کو ہلاک کرنا بدترین جرم ہے۔ آپﷺ نے ہمیشہ غیر مسلموں کے نمائندوں سے حسنِ سلوک فرمایا اور صحابہ ؓ کو بھی یہی تعلیم دی۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق بد ترین دشمن قوم کا سفارت کار بھی اگر سفارت کاری کے لیے آئے تو اس کا قتل حرام ہے۔ شیطان کے یہ پیر و کار خدا کی تعلیمات و احکامات کے بر عکس پاکستان میں سیاحت کی غرض سے آنے والے غیر ملکیوں کے خلاف حملے کر رہے ہیں۔ اس فتویٰ کے مطابق غیر ملکی مہمانوں کو قتل کرنا حرام ہے۔فتویٰ کی روح سے مسجدوں، مزاروں، ہسپتالوں، جنازوں، تعلیمی اداروں، مارکیٹوں اور سکیورٹی فورسز پر حملے جہاد نہیں فساد ہیں۔ بے گناہ طالبات، غیر ملکی کوہ پیماؤں اور بے گناہ انسانوں کا خون بہانے والے اسلام کے غدار اور پاکستان کے باغی ہیں۔ دہشت گرد انسانیت کے مجرم اور جہنمی ہیں۔ سُنی اتحاد کونسل سے وابستہ مفتیوں کے مطابق خود ساختہ تاویلات کی بنیاد پر مسلم ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کرنے والوں کو کچلنا حکومتِ وقت پر لازم ہے اور اس جہاد میں حکومت کے ساتھ تعاون ہرپاکستانی شہری کا فرض ہے۔
دہشت گرد اپنی تمام غیر انسانی کاروائیوں کو پاکستان میں جہاد کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے اس فتویٰ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جہاد کا اصل میدان پاکستان نہیں افغانستان ہے۔افغان طالبان اپنے وطن کی آزادی کے لیے جارح ملک امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی طالبان پیشہ ور قاتلوں کا گروہ ہے جو ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں جنہوں نے جہاد کے نام پر پاکستان میں ظلم و بربریت کا بازار کچھ اس طرح گرم کر رکھا ہے کہ انسانیت بھی خون کے آنسو رو رہی ہے۔ افغان طالبان تو جنازہ گاہوں کو مقتل گاہ نہیں بناتے اور نہ وہ کسی پُر امن نہتے افغانی کو قتل کرتے ہیں پھریہ ظالم کس بنیادپر پاکستان میں اپنی انسانیت سوز کاروائیوں کو جہاد کا نام دیتے ہیں۔ دہشت گردوں کی تمام تر کاروائیوں کے پیشِ نظر انھیں دورِ حاضر کے خوارج قرار دیا گیا ہے جو مسلمانوں کے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔
دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں اب تک ہزاروں فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور نہتے معصوم لوگوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا ہے ۔ ان تمام لوگوں کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے اس فتویٰ میں انھیں شہید اور قوم کے ہیرو قرار دیا گیا ہے۔ اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے باعث سرکاری سکولوں کو غیر اسلامی تعلیم کے مراکز قرار دے کر انہیں تباہ وبرباد کرنا اور اساتذہ کو قتل کرناغیر اسلامی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی فعل ہے۔ انتہا پسند دہشت گردوں نے اب تک ہزاروں سکولوں کو نظرِ آتش اور تباہ و برباد کر کے معصوم بچوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کردیا ہے۔ اس فتویٰ کی روح سے یہ ظالم دہشت گرد دائرہ اسلام سے خارج ہیں کیونکہ ان کا ہر قبیع فعل اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
اسلام نے انسانی جان کی حرمت کو کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ اہم قرار دیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے واضح کر دیا ہے کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشادِ نبویﷺ ہے “ایک مسلمان کا خون اس کی جائیداد اور عزت دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے۔” حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ کسی پُر امن غیر مسلم شہری کو کسی دوسرے غیر مسلم افراد کے بدلے کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ ریاست کی رٹ اور اتھارٹی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور ریاست کے خلاف اعلانِ جنگ کر چکے ہیں ۔ایسے لوگوں سے مذاکرات کرنے کی بجائے ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے اور تب تک حکومت ان کے خلاف جنگی اقدام جاری رکھے جب تک کہ وہ ریاست کی حاکمیت کے تابع نہ ہو جائیں۔
دہشت گردوں کے منہ سے نکلا ہوا ہر حرف اور ان کی طرف سے اٹھنے والا ہر قدم مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث ہے۔ ان کے خلاف جاری کردہ تمام فتویٰ کی روح سے یہ عناصر دورِحاضر کے خوارج ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ خودکش حملوں، قتل وغارت، بم دھماکوں سے پاکستانی شہریوں اور غیر ملکیوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنا کر دہشت گرد یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں صرف قاتلوں اور دھماکوں کا راج ہے۔ اپنےذاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کو خطے میں تن تنہا کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ یہ پاکستانی عوام کےمذہبی جذبات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر انھیں دہشت گردی کی ترغیب دے رہے ہیں لیکن پاکستانی مسلمان انشاءاللہ انھیں ان کے گھناؤنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔