Posted date: November 19, 2013In: Urdu Section|comment : 0
ایس اکبر
محرم الحرام کے مقدس مہینے کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ وہ پاک اور حرمت والا مہینہ ہے جس میں خدا کے رسول حضرت محمدﷺ کے نواسے حضرت امام حسین ؓ نے اپنے اہل وعیال کے ہمراہ صعوبتیں برداشت کیں۔ حق بات پر ڈٹے رہے لیکن غیر اسلامی و غیر شرعی نظریات کے مالک یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو قبول نہیں کیا۔یہ مہینہ تمام مسلمانوں کو اس بات کا درس دیتا ہے کہ حق بات کی دل وجان سے حمایت کرنا اور غلط بات کی صریحاً مخالفت کرنا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے۔ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ انھوں نے دینِ اسلام میں اپنی مرضی سے ردوبدل کرنے والی طاقتوں کے آگے سر نہ جھکایا اور اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے صاف انکار کر دیا جس کی زندگی اسلامی اصولوں کے عین مخالف تھی۔
آپﷺ کے اُمتی ہونے کے ناطے ہم سب کا یہ اہم فرض ہے کہ ہم بھی حضرت امام حسینؓ کی پیروی کرتے ہوئے دینِ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں اور ہر اس شخص کے خلاف آواز بلند کریں جس کی من گھڑت تعلیمات اسلام کی سچی تعلیمات کے منافی ہیں اور دینِ اسلام کے تشخص کو نقصان پہنچا سکتی ہوں۔ اسلام تو امن و آشتی اور بھائی چارے کا مذہب ہے ۔ اس کی بنیادی تعلیمات سب مسلمانوں کے لیے ایک سی ہیں۔ ہمارا قرآن ایک، خدا ایک، نبی ایک اور قبلہ ایک ہے۔ مذہبی عبادات کی ادائیگی میں قلیل سے فرق کی وجہ سے اگر مسلمان فرقوں میں بٹ چکے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایک فرقے کو دوسرے فرقے پرفوقیت حاصل ہے یاایک فرقہ مسلمان ہے تو دوسرا نعوذ بااللہ کافر ہے۔ اہلِ سنت ہوں تو وہ آپﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ اہلِ حدیث ہوں تو وہ آپﷺ کی احادیث کے پیروکار ہیں۔ حدیث کیا ہے؟ حدیث وہ بات ہے جو آپﷺ کی زبانِ مبارک سے جاری ہوئی اور سنت وہ احکامات ہیں جو آپﷺ نے عملی طور پر ادا کیے۔ حدیث ہو یا سنت دونوں کا تعلق آپﷺ کی ذاتِ مبارکہ سے ہے اور حدیث اور سنت دونوں میں آپﷺ نے مسلمانوں کو آپس میں پیارومحبت سے رہنے کا درس دیا ہے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے اور ایک کا قتل دوسرے پر حرام فرمایا ہےیہاں تک کہ مذاق سے بھی دوسرے مسلمان کی طرف ہتھیار کا رُخ کرنے سے صریحاً منع کیا گیا ہے۔
عالمِ اسلام کو اس وقت جس فرقہ پرستی کا سامنا ہے وہ بنیادی مسئلہ ایک دوسرے کے مسلک پر شرک کی الزام تراشی کا رجحان ہے، مسلمانوں کے فرقوں میں چند انتہاپسند اپنے علاوہ دوسرے تمام فرقوں کو مشرک اور کافر قرار دے رہے ہیں۔ یہی وہ نازک اور قابلِ فکر لمحہ ہے جس کی طرف آپﷺ نے اپنی زندگی میں اشارہ فرمایا۔ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ بے شک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسا آدمی ہوگا جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ اس پر قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اللہ نے چاہا اسلام کی پُشت پناہی کرتا رہا پھر ایک وقت وہ آیا کہ اس کا خول اتر گیا اس نے قرآن کو بھی پسِ پشت ڈال دیا۔ پھر وہ اپنے پڑوسی یعنی دوسرے مسلمانوں پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور ان پر شرک کا الزام لگانے لگا۔ (راوی بیان کرتے ہیں) میں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ ان دونوں میں سے شرک سے زیادہ قریب کون ہو گا؟ شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا؟ آپﷺ نے فرمایا شرک کا الزام لگانے والا خود شرک کے قریب ہوگا۔
آج کل بالکل وہی حالات ہیں کہ اہلِ تشیع، اہلِ سنت اور اہلِ حدیث سب ایک دوسرے پر شرک کے الزامات لگاتے ہیں اورصرف اپنے متعلقہ فرقوں کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے آپسی اختلافات سے دوسری اقوام اسلام سے متنفر ہو رہی ہیں اور مسلمان آپس میں دست و گریباں ہو کر امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔ فرقہ پرستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام دشمن عناصر بھی ان فرقوں کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ وہ ان فرقوں کے آپسی اختلافات مزید ابھارتے ہیں تاکہ مسلمان ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکارر ہیں اور متحد ہو کر مضبوط ہونے کے بجائے منتشر ہو کر کمزور ہو جائیں۔ انتہاپسند عناصر ایسی کاروائیاں تشکیل دیتے رہتے ہیں جن سے ایک فرقے کے دوسرے فرقے کے ساتھ آپسی تعلقات انتشار کا شکار ہو جائیں۔ یہ انتہاپسند اہلِ سنت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کبھی بزرگانِ دین کے مزاروں پر حملے کرتے ہیں تو کبھی اہلِ تشیع کو رنجیدہ کرنے کے لیے یومُ القدس اور محرم الحرام میں ہونے والی مجلسوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان کی دہشت گردانہ کاروائیوں کی وجہ سے اہلِ تشیع، اہلِ سنت اور اہلِ حدیث ایک دوسرے کو اپنا دشمن گردانتے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کی ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں اور بھی شدت اختیار کر جاتی ہیں۔
اگر ہم پچھلے چند سالوں کے احوال کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان دہشت گردوں نے فرقہ پرستی کی آڑ میں کتنے مسلمانوں کو شہید کیا۔ ان انتہا پسندوں کے شر سے تو مذہبی علماء اور دینی رہنما بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ فرقہ پرستی کے اس عفریت نے مسلک اہلِ سنت (بریلوی) سے تعلق رکھنے والے علامہ سرفراز نعیمی کو نگل لیا۔ نہ صرف اتنا ہی بلکہ اہلِ تشیع کے رہنما علامہ حسن ترابی بھی فرقہ پرستی کی نام نہاد جنگ کا شکار ہوئے۔جبکہ اہلِ حدیث کے کئی رہنماؤں کو بھی شہید کیا گیا۔ ان دہشت گردانہ کاروائیوں کا جائزہ اس حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے کہ انتہا پسند دہشت گرد مختلف فرقوں کے خلاف کاروائیاں سر انجام دے کر معاشرے میں بدامنی اور لاقانونیت پھیلانا چاہتے ہیں۔ ان کا کسی فرقے یا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں یہ رحمان کے نہیں بلکہ شیطان کے پیروکار ہیں ورنہ قرآنِ حکیم میں تو بڑا واضح ارشار ہوتا ہے :۔
“اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ناک عذاب ہو گا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس (اللہ) نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے” (النساء ۹۳:۶)
محرم الحرام کے حرمت والے مہینے میں پاکستان میں بسنے والا ہر مسلمان دعا گو ہے کہ یہ مہینہ امن کے سائے تلے گزرے۔ کوئی دہشت گرد انتہاپسند فرقہ واریت کی آڑ میں اس کی حرمت کو داغدار نہ کردے۔ اس وقت ضرورت اس امر کہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں برداشت، تحمل اور بردباری جیسی اخلاقی قدروں کے فروغ کے لیے احسن اقدامات کیے جائیں۔ ماہرینِ علم اور اعتدال پسند علماء اس زمرے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دیں کہ وہ دوسرے مسلک کے لوگوں کے متضاد خیالات کو بردباری سے سنیں۔ فرقہ واریت کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کی بروقت روک تھام کرنی ہوگی کیونکہ تمام فرقوں کا آپس میں اتحاد اور غیر سگالی کے تعلقات ہی ایک مضبوط، پُرامن اور مستحکم پاکستان کے ضامن ہیں۔