قابلِ فخر بیٹی شہید ایڈوکیٹ فضہ ملک کو۔۔ قوم کا سلیوٹ
Posted date: March 06, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
وکالت کے اہم شعبہ میں اپنی علمی لیاقت وصلاحیت کو منوانے کے عزم سے کتنی سرشار تھی یہ بہادر نو عمر پاکستانی لڑکی ‘ جس کانام ’فضہ ملک ‘ہے، شہید فضہ کا یہ نام ہمیشہ زندہ وتابندہ رہے گا اِسی لئے ہم نے بہادری و جراّت کی اِس پیکر کے نام کے ساتھ ’زندہ ‘ کے صیغہ کا استعمال کیا شہید ایڈوکیٹ فضہ ملک کے ساتھ کئی وکلاء ‘ ایڈیشنل سیشن جج شہید رفاقت حسین ا عوان اور اُس روز اسلام آباد کچہری میں اپنے عدالتی امور کے سلسلے میں آئے کئی اور معصوم لوگ بھی شہید ہوئے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد الگ ہے 23 برس کی شہید ایڈوکیٹ فضہ نے نارتھ کمبریا یونیورسٹی نیوکیسل برطانیہ سے لاء میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعدمادرِ وطن کا رخ اِس لئے کیا کہ یہاں پر رہ کر وہ اپنی ابتدائی کریمنل لاء پریکٹس کرئے گی اور مستقبل میں اپنے مختصر سے کنبہ سے جڑ کر وہ ملکی معاشرے میں سماجی خدمات کے لئے خود کو وقف کرپائے گی اُس کے فکری و نظری تصورات میں کئی اور بھی یقیناًایسے خواب ہونگے جنہیں وہ پائیہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہوگی اصل میں ’فضہ ‘ نام ہی ایسا ہے جس نام کی معنوی ساخت میں کوٹ کوٹ کر اطاعت و وفرمانبرداری ہوتی ہے اپنے وطن سے والہانہ محبت کی یہ ہی چاہت تو اُسے ایک برس پہلے یہاں کھینچ لائی وہ یہاں اپنے وطن میں اپنی جیسی بے مائیہ خواتین کے لئے کچھ کرگزرنے کا جذبہ رکھتی تھی ہوسکتا ہے اُس کے والدین نے یہ امور ذہن میں رکھ کر بے پناہ قابلیت وصلاحیت کی حامل اپنی لاڈلی بیٹی کا نام فضہ رکھا ہوگااپنے اعلیٰ علمی مقصد کے حصول کو ہر قیمت پر حاصل کرنا فضہ شہید ایڈوکیٹ کی اطاعت گزاری کو کھل کر نمایاں کرتا ہے، مگر علم وعمل کے ازلی دشمنوں نے فضہ شہید کے اِن خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے چکنا چور کردیا، اُسے مارنے والے کون تھے، اُسے علم نہیں اُسے اور اُس روز اُس کے ساتھ دارِ فنا کے راستہ پر ڈالنے والوں کو کس جرم کی ایسی ہولناک سزا دی گئی یہ بھی کوئی نہیں جانتا؟ ہر ایک کسی بے گناہ کی موت پر اہلِ دل آنسو بہائے بنا نہیں رہ سکتے ۔بعض اموات ‘اچانک ایسی ہوتی ہیں کہ دل قابو میں نہیں رہتا ،
فضہ ملک شہید ایڈوکیٹ کو 18 کروڑ پاکستانیوں کا سلیوٹ‘بلا شبہ پاکستان کی قابلِ فخر یہ بیٹی ہمیشہ سراہے جائے گی، یاد رہے گی فضہ ملک ہمارے قلب ونظر میں‘پاکستان کے عدالتی سسٹم میں اپنی جگہ بنانے کے عزم کی جستجو میں اِس بیٹی نے جو لازوال قربانی پیش کی ہے وہ کبھی فراموش نہیں ہوسکتی، افسوس! وطن کی لائق فائق یہ بیٹی وقت سے بہت پہلے ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑ کر کبھی واپس نہ آنے کے لئے چلی گئی اب ہم کب سوچیں گے؟ اُس کے سوالوں کا جواب ہم اُس کی بیقرار روح کو کیسے دیں؟ جو یہیں کہیں ملکی فضاؤں میں اپنی لہو میں ڈوبی سفید براق پیشانیوں پر بل ڈالے پوچھ رہی ہے ’یہ سفاک وظالم دہشت گرد برتر ہیں یا ریاستی آئین برتر ہے ؟اگر ریاستی آئین کی برتری کو اُس یقینی بالادستی کو اپنی حکومتی مصلحت پسندی کے ملفوف میں اِسی طرح چھپایا جاتا رہا تو یہ ریاست کیسے بچا پاؤ گئے ؟ ایک فضہ ملک ‘ اب تک ہزاروں فضہ ملک ‘ ہزاروں رفاقت حسین اعوان ‘ ملکی سیکورٹی کے کئی ہزار افسر اور جوان ‘ پولیس کے افسروں سمیت کئی جوان ‘ ایف سی اور لیویز کے جوان پچاس ہزار پاکستانی شہید ہو گئے کئی ارب کا مالی نقصان ہوا، کئی ارب کی ملکیتیں ملبے کا ڈھیر ہوگئیں،عبادت گاہیں ڈھہ گئیں، امام بارگاہیں خاکستر ہوگئیں، ہمارے حکمران اپنے ایوانوں میں بیٹھے اب تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں مہلک ہتھیار رہنے د یئے جائیں یا یہ مہلک ہتھیار رکھنے کا حق صرف ملکی سیکورٹی اداروں کو حاصل ہے ’سوئی کے ناکے میں سے ہاتھی کی سونڈھ گزارنے کی کوششیں ہورہی ہیں‘
جمود نما اِ ن ’مذکرات ‘ سے کچھ بھی حاصل ہونے کا نہیں‘ہاں ! کون انکار کرتا ہے کہ تمام مسائل کا حل میدانِ جنگ میں ہوتا ہے واقعی بے شک جنگ سے مسائل کا حل نہیں نکلتا بالآخر دونوں فریق کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے جنابِ والہ! اگر جنگ دوخود مختار ملکوں کے مابین برپاہو تو مذاکرات کیجئے اگر ریاستی آئین کو ہی چیلنج کرنے والوں‘ نہ ماننے والوں اور ریاستی اتھارٹی کو بزور طاقت للکارنے والوں کے ساتھ ایسا تشویش ناک سنگین معاملہ آن پڑے تو ایسی جِلدی ’گھریلو بیماریوں ‘ کا علاج’ عطائی پن‘ سے کیا جائے گا کتنی عجیب وغریب اور کیسی ستم ظریفانہ تشویش کی صورتحال نے پوری قوم کے اعصاب کو شل کرد یا ہے کیا اب بھی وو فیصلہ کن وقت نہیں آیا بحیثیت پاکستانی حکمران ‘بلاشرکتِ حزبِ اختلاف و حزبِ اقتدار سطحی معروضات سے الگ ہوکر اپنے عوام کے سامنے کھل کر سچ بولیں عوام اپنے جمہوری قائدین کا ہر قیمت پر ساتھ دیں گے یقین رکھیں ملکی حکمرانوں کی نیت اور اُن کا ارادہ پختہ ہونا چاہیئے 18 کروڑعوام کی متحد طاقت اُن کی پشت پر ہوگی تو عفریت کی طرح پھیلنے والا فساد فی الارض چند ہفتوں میں اپنی موت آپ فنا ہوجائے گا ،شمالی وزیر ستان میں بیٹھے ہوئے دہشت گرد بکھرے ہوئے منتشر ہیں موت اُن کے سروں پر منڈلارہی ہے، وہ موت سے خوفزدہ گھبرائے ہوئے ہیں،اگر وہ خود اپنی مرضی سے کچھ کررہے ہوتے تو اِتنی جلدی غیر مشروط بات چیت پر کبھی آمادہ نہیں ہوتے
مغربی سرحدوں کے پار عالمی وعلاقائی طاقتیں یقیناًٹی ٹی ٹی کے پیچھے کارفرماہیں یا درہے یہ اصل ’پاکستانیت ‘ کا تسلیم شدہ ’مائنڈ سیٹ ‘ ہے افسوس! رواں برس مارچ کے اِسی ہفتہ میں وحشت وبربریت کی دہشت گردانہ انسانیت سوز کارروائیوں کے سلسلوں کی اِسی بھیانک کڑی نے کتنے گھروں کے چراغ گل کردئیے؟ اِن مذموم کارروائیوں میں ملوث دہشت گردوں کا تعلق کس دہشت گرد تنظیم سے ہے ؟ کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی سے ہے یا نہیں ؟ مگر اُس روز صبح سویرے اسلام آباد کچہری میں انسانی جسموں کے جس طرح پرخچے اُڑائے گئے لوگوں کو بے دریغ شدید زخمی کیا گیا، خود کش بمباروں نے اپنے آپ کو بے گناہوں کے ہجوم میں اُڑا دیا، یہ کارروائی یا موت بناٹتی ہوئی یہ المناک واردات اسلام آباد سمیت اہلِ پاکستان نے پہلی مرتبہ دیکھی تھی؟وہ ہی انسانیت کش انداز ‘وہ انتہائی سفانہ طریقہ کار ‘جو گزشتہ سات آٹھ برسوں سے ملک کے گوشہ گوشہ میں آئے روز بے گناہ پاکستانیوں کے ساتھ ہورہا ہے دہشت گردی کا بالکل یہ ویسا ہی شیطانی کھیل کھیلا گیا جو ٹی ٹی پی کھیلتی چلی آرہی ہے صرف ایک تبدیلی تھی وہ یہ کہ ایف8 مرکز اسلام آبادکچہری میں ہونے والی اِس دہشت گردی کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی کی بجائے ’حزب الہند‘ نام کی کسی دہشت گردتنظیم نے قبول کرلی ہے یہ سب کے سب انسانیت کش ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔