متاثرین زلزلہ کی امداد اور بلوچ قومیت پرست تنظیموں کے حملے
ایس اکبر
بلوچستان کے علاقے آواران میں آنے والے دو زلزوں سے تقریباً ۱،۰۰۰ لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ یہ علاقہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں شامل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ متاثرین زلزلہ کی امدادی کاروائیوں میں کافی دشواری کا سامنا رہاہے۔ ہمیشہ کی طرح حکومتِ وقت اور پاکستانی فوج امدادی کاروائیوں میں پیش پیش ہیں اور اپنے بھائیوں کو ان مشکلات سے نکالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔تاہم حکومتی اہلکاروں اور پاکستانی فوج پر حملے امدادی کاروائیوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں جبکہ دہشت گردوں کی طرف سے ہونے والے آئے دن کے حملے متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک پر راکٹ سے حملے اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ علیحدگی پسند عناصر ان علاقوں میں کسی طرح کی بھی امدادی کاروائی نہیں چاہتے۔ آوران قومیت پرست تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ کے سرغنہ اللہ نظر کا آبائی علاقہ ہے اور اس نے وہاں اپنا خوف و ہراس پھیلایا ہوا ہے جس کا ثبوت ہمیں حالیہ ہونے والے الیکشن سے ملتا ہے جس میں بہت کم لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ بلوچ لبریشن فرنٹ نے ہی ڈاکٹر عبدالمالک پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس سے قبل بھی بی ایل ایف نے پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹر ز اور قافلوں پر راکٹوں سے حملے کیے تھے جو متاثرین کے لیے امدادی سامان لے کر جا رہے تھے۔ یہ حملے ایک دفعہ نہیں کیے گئے بلکہ امدادی کاروائیاں کرنے والے فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو مسلسل ظُلم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ کہیں ان امدادی کاروائیوں سے متاثر ہو کر اہلِ آواران پر یہ حقیقت نہ عیاں ہو جائے کہ ان کا اصل خیر خواہ کون ہے؟
بلوچستان ہمیشہ سے ہی غیر ملکی دشمن عناصر کا پسندیدہ علاقہ رہا ہے کیونکہ یہاں ہر متحرک علیحدگی پسند تنظیموں کو باآسانی ورغلا کر اپنے ساتھ ملایا اور اب وہ پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان میں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کر رہے ہیں۔ علیحدگی پسند تنظیمیں ہمیشہ یہ واویلا کرتی نظر آتی ہیں کہ بلوچستان ہمیشہ انھیں حکومتِ پاکستان کی بے اعتنائی کا شکار رہا اور انہیں کبھی پاکستان کا حصہ نہیں سمجھا گیا۔ جبکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے کہ یہ قومیت پرست تنظیمیں ہیں جو ملک دشمن عناصر غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں سے مدد لے کر بلوچستان میں گڑ بڑ کرتی رہتی ہیں۔ نوجوان نسل کے ذہنوں کو زہر آلود کرنے میں یہ عناصر پیش پیش ہیں اور انھیں ہمیشہ ہی یہ باور کروانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ بلوچستان ایک الگ وطن ہے اور ان کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے حالات باقی صوبوں کی نسبت خراب ہیں ۔ دلخراش زلزے کے بعد اس علاقے کے مکین بہت عرصے تک امدادی کاروائیوں کے منتظر رہے اور جب حکومتِ وقت نے پاکستان آرمی کے ساتھ مل کر ان متاثرین کو ان مشکلات سے نکالنے کے لیے ان کی مدد کی تو دہشت گردوں سے یہ بھی برداشت نہیں ہوا اور ان امدادی کا روائیوں میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اُن پر حملے شروع کر دیئے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ عناصر کسی طور بلوچ قوم کے خیر خواہ نہیں ہیں بلکہ ان کے ازلی دشمن ہیں۔ آج جب ان لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور کسی مدد کے منتظر ہیں تو تب بھی یہ ظالم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح بھی ان بے یارو مددگار لوگوں تک مدد نہ پہنچ جائے۔
اس سے قبل بھی حکومتِ وقت اور پاک آرمی کی طرف سے بہت سے ترقیاتی منصوبے عمل میں لائے گئے ہیں تا کہ نوجوان بلوچیوں کی اس غلط فہمی کو دور کیا جا سکے کہ وہ اس ملک کا حصہ نہیں ہیں ۔ یہ تمام حالات و واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ قومیت پرست عناصر صرف اور صرف بلوچیوں کے دشمن ہیں جو ان کی مشکلات بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں اور وقت پڑنے پر ملک سے فرار بھی ہو جاتے ہیں۔ جبکہ حکومتِ وقت اور پاکستان آرمی بلوچیوں کے خیر خواہ ہیں جو ہر مشکل وقت میں بلوچیوں کی مدد کے لیے آگے آگے ہوتے ہیں۔ حکومتِ وقت نے ناراض بلوچیوں کو قومی دھارے میں واپس لانے کے لیے ایک باقاعدہ حکمتِ عملی واضح کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ نہایت خوش آئند ہے۔بلوچ قومیت پرست تحریکوں کو بھی چاہیے کہ وہ شدت پسندی ترک کر کے مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کو ترجیح دیں۔