آزادی ٗ ِ کشمیر کی ’صدائے ِ ستغثاٰ‘

                            سیّد ناصر رضا کاظمی

مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوج کی غاصبانہ عمل داری کو 66 برس سے زائد عرصہ بیت گیا‘ ہر سال کی طرح اِس برس بھی 27 / اکتوبر کا

India to go back from Kashmir

India to go back from Kashmir

دِن بھارتی غاصبانہ ظلم وستم کے شکار مقبوضہ جموں وکشمیر کے مظلوم مسلمان ظلم وستم کی تصویر بنے بے بسی کے عالم میں یوم ِسیاہ کے طور پر منانے پر مجبور ہیں اس برس بھی یہ دِن ’پُرزور احتجاج‘ کے ساتھ منایا جائے گا، ایک بار پھر نام نہاد عالمی منصفوں کے مردہ ضمیر جھنجھوڑے جائیں گے، دنیا بھر میں آباد مظلوم کشمیری مسلمان قوم احتجاج کرئے گی‘ مظاہرے کیئے جائیں گے‘ سیمینار منعقد ہو ں گے‘ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں کے من مانی ظلم وستم کے خلاف احتجاج ریکارڈ پر لا یا جائے گا‘ بھارتی زیر کنٹرول کشمیر کے دور افتادہ علاقوں میں آئے روز کے منظر ِ عام پر آنے والی گمنام قبروں کی ’عقدہ کشائی‘ پر احتجاج ہوگا کوئی عالمی طاقت جموں وکشمیر کے یہ زمینی واقعاتی حقائق کو تسلیم کرئے یا نہ کرئے سچائی اور حقیقت کے معنوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ 27 اکتوبر 1947 کو بھارت کی طرف سے طاقت کے ذریعے کشمیر پر لشکرکشی کی گئی طے شدہ معاہدات کے برعکس نئی دہلی سرکار نے برٹش انتظامیہ کی ملی بھگت سے کشمیریوں کے حق ِخود ارادیت کے برخلاف‘بلاجواز نئی دہلی سرکار کی ایما ء پر مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج اُتاری تھی جو آج تک اقوام ِ متحدہ کی قراردادوں کے خلاف وہاں موجود ہے،

اور کشمیری عوام سراپا احتجاج‘بھارتی ایما ء پر مغربی میڈیا پاکستانی افواج کے خلاف شمالی وزیر ستان میں جس ’ممکنہ آپریشن‘ کی آڑ میں بے سروپا معاندانہ مہم جاری رکھے ہوئے ہے اُ س کے بارے میں جتنا جھوٹ گھڑا جارہا ہے اپنی جگہ وہ ایک ایسا سوال بنتا جارہا ہے جس کا کوئی جواب دے یا نہ دے کشمیری عوام یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ نئی دہلی کو چاہیئے کہ پاکستانی افواج اور پاکستان کی کشمیرپالیسی پر اپنے بیانات کی تبدیلی کی روش کو بدلے‘ تاکہ دنیا جا ن سکے کہ پاکستانی سیکیورٹی ادارے بشمول پاکستانی افواج افغان صوبے کنٹر میں قائم بھارتی کونصل خانے کی عملی مدد و اعانت کے توسط سے پاکستان میں پھیلائی جانے والی دہشت گردی کی تازہ لہر کی روک تھام میں حتمی کامیابی حاصل کر سکیں، اِس صورت ِحال کا بھارت قطعی ناجائز فائد اُٹھانے کی ’مہم جویانہ‘ کوشش کرنے کی غلطیو ں سے باز آجائے‘ چونکہ پاکستانی قوم اِس وقت عالمی دہشت گردی کے خلاف حالت ِ جنگ میں ہے لہذا نئی دہلی کی یہ سوچ بالکل غلط ہے کہ وہ کشمیر پر اپنے ناجائز حق کو وقت کی اِس دھول میں ’حق بجانب‘ سمجھنے لگی‘ پاکستانی قوم کی نظریں کشمیر پر گڑی ہوئی ہیں، بالکل اُسی طرح سے‘ جیسے امریکی وبھارتی سرپرستی میں پاکستانی قبائلی علاقوں میں پنپنے والی دہشت گردی پر اُن کی نظریں ہیں‘ اگر کبھی مستقبل قریب میں پاکستانی حکام نے شمالی وزیر ستان میں کسی ممکنہ آپریشن کو ضروری سمجھا تو وہ پہلے پاکستانی قوم کو اعتماد میں لے کوئی فیصلہ کریں گے

بھارت کشمیر ی عوام کی بنیادی آزادی کے جائز انسانی حقوق کو ’دہشت گردی‘ سے منسلک کرنے کی اپنی غیر اخلاقی اور چانکیائی سیاسی وسفارتی رویوں کی لکیر آخر کب تک پیٹتا رہے گا؟ کشمیر کی آزادی پر آج بھی پاکستان کا موقف وہی ہے جو آج سے 66 برس قبل تھا اور دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ پاکستان کا ایک ٹھوس عزم ہے جس پر سودے بازی نہیں کی جاسکتی یہ پاکستانی رائے ِ عامہ کی مضبوط ومستحکم آواز ہے ”کشمیر ایک سوال کیوں بن گیا؟“ مصنفہ صابرہ سلطانہ چوہدری نے ایک مقام پر اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں کے درد ِ حال اور اُن پر مسلط غاصب بھارتی افواج کے ظلم و ستم کا احوال لکھتے ہوئے یہ دل فگار نقشہ کھینچا ہے، کہ ”چشم ِ فلک نے شائد ہی کوئی ایسا خطہ ِ ارضی دیکھاہو، جس نے کشمیریوں کی طرح مصائب و مظالم برداشت کیئے ہوں گے یہ کشمیری قوم ہی ہے جس نے بدترین مظالم اور مشکل ترین حالات کا صدیوں مقابلہ کیا اور اِس کے باوجود اب تک یہ ایک قوم کی حیثیت سے دنیا میں زندہ اور مردانہ وار دشمنان ِ آزادی سے سینہ سپر ہے، اِسی قوم کا حوصلہ ہے ابھی تک اپنا حسن، اپنا وقار اور اپنی ملی وحدت و خودداری کواِس قوم نے بدستور قائم رکھا ہوا ہے، اگر انگریز قوم یا کسی دوسری قوم پر مسلسل اتنے شدید مظالم ہوتے تو وہ اپنا وجود‘ بلکہ اپنی شناخت اور تمام تر قومی خصلتیں کھو بیٹھتیں“ کشمیر سمیت پوری دنیا میں جہاں بھی کشمیری مسلمان آباد ہیں 27/ اکتوبر 1947ء کے ’منحوس دِن‘ کو یاد کرکے آج تک یوم سیاہ منارہے ہیں‘

آج سے66 برس قبل اِن ہی ایّام میں مہاراجہ ہری سنگھ نے آل انڈیا کانگریس کے چوٹی کے ہندو لیڈروں سے ملی بھگت کرکے کشمیریوں کی قومی خود مختاری پر شبخون مارا تھا،وہ دِن ہے اور آج کا دِن، کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں پاکستان کے ساتھ انسانیت نواز اورامن پسند عالمی حلقے بھی اہل ِ کشمیر کی ہر دِل گذار صدا پر لبیک کہنے کے لئے ہر دم تیار ہیں، کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم و ا ستبداد کی بہیمانہ تاریخ کے ایک ایک باب کا ورق بھارتی حکمرانوں کی سیاسی مکاری، عیاری اور فریب کاری کی گواہی دئے رہا ہے کشمیر میں بھارتی کٹھ پتلی حکمرانوں کی مسلم کش‘ مفلوج اور بیمار ہندو ذہنیت کی المناک یادیں کوئی کیسے بھول سکتا ہے 19/ جولائی1947ء کو کشمیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس نے ایک قرارداد کے ذریعے پاکستان کے ساتھ الحاق کا رسمی طور پر اعلان کردیا تھا اِس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ”آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کے کنونشن کا یہ اجلاس قائداعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کی کامیابی پر اطمنان کا اظہار کرتا ہے اُنہیں مبار ک باد پیش کرتا ہے“ تقسیم ِ برصغیر کے واضح اعلان کے بعد غیر منقسم ہند کی مختلف ریاستوں کے عوام کو امید تھی کہ وہ برٹش انڈیا کے عوام کے شانہ بشانہ حصول ِ آزادی کی منزل کی طرف گامزن ہوں گے، ہندوستان کی تقسیم عمل میں آجانے کے بعد برٹش انڈیا کے عوام آزادی حاصل کرچکے ہیں لیکن7/جون 1947ء کے ’تقسیم پلان‘ کے پہلے پیراگراف کے ابتدائی جملوں کی کی روح کے مطابق سمجھنے میں ریاستوں کے مہاراجوں نے بڑی فاش غلطی کی‘اُس وقت کے مہاراجہ اپنے تئیں یہ سمجھے تقسیم ہند کے پلان نے اُن کے ہاتھ مضبوط کردئیے گئے ہیں وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ جب تک ہند کی ریاستوں کے عوام اپنے مہاراجہ کی آواز پر لبیک نہیں کہیں گے،اُن کی ریاستوں کے عوام کا مستقبل تاریک ہی رہے گا،تاریخ کے اوراق کھولتے چلے جایئے، تقسیم ِ ہند کے پلان کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ”ہند کی ریاستوں کے حکمران مذہبی اکثریت کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت‘جس ملک کے ساتھ چاہیں الحاق کا اعلان کرسکتے ہیں“ اِسی پیراگراف کی آخری ’فیصلہ کن‘  لائنوں کے اصل متن کو بھارت نواز مغربی حلقوں نے سمجھنے بھی کی کوشش ہی نہیں کی‘ صرف ریاست کے حکمرانوں کی مرضی کو حرف ِ آخر تصور کرلیا گیا‘ مذہبی منافرت اور تعصب سے بالاتر ہوکر یہ طے تھا‘ کہ تقسیم کے اصل پلان میں کوئی ابہام نہیں‘وہ آئینہ کی طرح واضح ہے جبھی تو مسلم کانفرنس بھی اِس نتیجے پر پہنچی تھی کہ ”کشمیر کے جغرافیائی محل و وقوع‘ وہاں کی مجموعی آبادی کی80 فی صد مسلم اکثریت‘ پنجاب کے اہم دریاؤں کی ریاست جموں وکشمیر سے قدرتی گذر گائیں اور پھر لسانی و ثقافتی نسلی و معاشی تعلقات اور ریاست کی قدرتی سرحدوں کا پاکستان کی سرحدوں سے اتصال و اشتراک‘ یہ سب حقائق اِس امر کو مزید واضح کر دیتے ہیں کہ ریاست جموں وکشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق فطری طور پر ہو تا یقینی ہے“ بھارت نے عیاری ومکارانہ سفارتی چال چلی جس کی وجہ سے مسئلہ ٗ ِ کشمیر آج تک ’صدائے ِ استغثا‘ بلند کیئے ہوئے ہے کہ کشمیر بھارتی قبضے سے کب آزاد ہوگا کب عالمی منصفوں کا ضمیر بیدار ہوگا یقینا یہ ضرور ہوگا جب جنوبی ایشیاء کے اہم تزویراتی حصے ’پاکستان‘ میں جاری بھارتی اور امریکی مذموم مقاصد سے مغلوب دہشت گرد ی کی کارروائیاں ختم ہونگی پاکستانی حکمران مصلحت پسندی کی سیاست کو بالائے طاق رکھ کر مسئلہ ٗ ِ کشمیر پر نیک نیتی سے دوٹوک فیصلہ کرنے پر دل سے آمادہ ہوں گے۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top