Posted date: June 28, 2017In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
کیا ’’را‘‘ نے مقبوضہ جموں کشمیر میں پھر کسی بڑی کاروائی کی منصوبہ بندی کی ہے اور اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ حسب معمول اس کا الزام پاکستان پر دھرا جائے گااور اسی لیے پہلے اُس نے پاکستان کی آئی ایس آئی پر حفظ ما تقدم کے طور پر شک نہیں بلکہ یقینی الزام لگا دیا ہے کہ اُس نے اپنے چار دہشت گرد سرحد پار داخل کرا دیے ہیں اور بھارت کی آئی بی کے مطابق اب یہ چاروں اُس اسلحے کا انتظار کر رہے ہیں جو پاکستان انہیں بھیجے گااور اس مقصد کے لیے اُس نے ایک ایسے شخص کی خدمات حاصل کی ہیں جو نشے کے بیوپار کا کام کرتا ہے۔منصوبہ بندی تو زبردست کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن جھول کہیں نہ کہیں تو رہ ہی جاتا ہے، اگر آئی ایس آئی اتنی نا پختہ کار ہے کہ انتظامات مکمل کرنے سے پہلے اپنے بندے داخل کرائے تو وہ بقول بھارت کے پورے بھارت کو قابوکیسے کئے ہوئے ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا دشمن ملک میں کسی تخریب کار کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ اُدھر انتظار کرتا رہے، کیا اُسے یہ خوف نہیں ہو گا کہ وہ مقصد حاصل کر لینے یعنی کاروائی کرنے سے پہلے پکڑ لیا جائے،جان سے بھی جائے گا اور ملک کی بد نامی الگ ہو گی پھر یہ کہ کسی نشے کے کاروباری کے ہاتھوں اسلحہ بھیجا جائے یعنی جو شخص پہلے سے ہی قانون کی نظر میں ہے، قابل سزا جرم کر رہا ہے اور کسی بھی وقت گرفتار ہو سکتا ہے اُسے اتنی بڑی ذمہ داری کیونکر دی جارہی ہے۔’’را‘‘ نے یقیناًاس طریقے کی کوئی واردات پاکستان میں کی ہو گی اور خوش قسمتی سے کامیاب رہا ہو گااس لیے اُس نے ایسا ہی منصوبہ آئی ایس آئی کو بھی بنا کر پیش کیا اور سوچا کہ آئی ایس آئی بغیر سوچے سمجھے اس پر عمل درآمد کرانے گی اور ’’را‘‘ایک بار پھر بڑے آرام سے الزام پاکستان کے سر رکھ کر اپنے عوام کے سامنے ہیرو بن جائے گا۔جن شہروں میں حملے کا یہ منصوبہ ہے اُن میں کا تھوا،گورداسپور اور پٹھانکوٹ کے اضلاع شامل ہیں۔ان علاقوں کے عوام کو ہو شیار ہو جانا چاہیے کہ اُن کے شہر میں دہشت گردی ہو گی اور یہ پاکستان کا نام لے کر ان کی اپنی کوئی ایجنسی کرے گی۔ پاکستان اور بھارت ہونے کو تو جغرافیائی طور پر دو پڑوسی ہیں اور آزاد ممالک ہیں جن کو آزاد ہوئے ستر سال گزر چکے ہیں لیکن بھارت نے آج بھی اس نئے بننے والے ملک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور اُس کی تو انائیوں کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں صرف ہوتا ہے۔اُسے آج بھی دکھ ہے کہ ہندوستان میں اقلیت ہوتے ہوئے مسلمانوں نے سیاسی فتح کیسے حاصل، کی اپنی اس شکست کا بدلہ لینے کے لئے اُس نے اپنی بھی اور ہماری بھی نسلوں کو جنگوں کی نذرکیا اُس نے نہ تو اس وقت پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا اور نہ آج کر رہا ہے اور انگریز کے ساتھ مل کر جو سازش کی اور کشمیر پر اُس کے راجا کی مدد سے قبضہ کیا ایک مسلم اکثر یتی ریاست ہندوسامراج کے تسلط میں چلی گئی اور یہ آج تک وجہ نزاع بنا ہوا ہے اور معلوم نہیں کب تک ہندو ذہنیت اور بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے انسانوں کا خون بہتا رہے گا ۔بھارت اسی کشمیر کی آڑ لے کر پاکستان کو اپنے تمام مسائل کے لیے مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ کئی ثابت شددہ واقعات اور حملے بھارت سرکار اور’’ را‘‘نے خود کیے اور پھر اس کا الزام پاکستان کے سر رکھا اور دونوں ملکوں کی فوجیں سرحدوں پر ایک دوسرے کے سامنے آکھڑی ہوئیں اور تین بار ٹکرائیں بھی۔ 1948میں ہونے والی محدود جنگ، 1965میں ایک بہت بڑی اور کھلی جنگ بن چکی تھی ۔1971کی جنگ کے علاوہ جو مشرقی پاکستان میں بھارت کی سازش تھی 1999میں پھر کشمیر کے محاذ پر دونوں ملکوں کی جنگ کارگل میں ہوئی اور اگر پاکستان تحمل کا مظاہرہ نہ کرے تو یہ جنگیں کبھی ختم ہی نہ ہوں اور جنگ عظیم کی طرح سالہاسال چلیں۔بھارت اپنے اندر کے مسائل ختم کونے کی بجائے ہر مسئلے کے لیے پاکستان کو دوش دے کر سمجھتا ہے کہ وہ بری الزمہ ہوگیا ۔کیا کسی ملک کے لیے ایک دوسرے ملک میں ستر سال تک ایک جنگ آزادی کو قائم رکھنا ممکن ہے اگر نہیں تو پاکستان نے کشمیر میں کیسے اسے فعال رکھا ہوا ہے، اگر وہ ایساکرنے میں کامیاب ہے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ایسا مقامی آبادی کی خواہش کے بغیر ہو سکتا ہے۔کشمیری بھارتی مظالم اور غلامی کی زندگی سے تنگ آئے ہو ئے لوگ ہیں اور صرف کشمیریوں پر ہی کیا موقوف کوئی بھی قوم دوسرے کا تسلط برداشت نہیں کر سکتی اور وہ بھی اس صورت میں جب اُس کا مذہب، تہذیب، رسوم،رواج اور تاریخ سب ایک دوسرے سے مختلف ہوں لہٰذا کشمیری بھی اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور بالکل برحق اور بجا لڑ رہے ہیں وہ اگر کشمیر کے ہوتے ہوئے بھی کشمیر کے مالک نہ ہوں تو یہ کہاں کا انصاف ہے اگر عالمی برادری سے مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو اوراگر اقوام متحدہ بے بس ہے تو کیاکشمیری بھی غلامی سے سمجھوتہ کرلیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں، چونکہ ایسا ممکن نہیں لہٰذا وہ اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور بھارت کے خلاف کوئی نہ کوئی کاروائی کر لیتے ہیں جسے بھارت پاکستان کی کاروائی کہہ کر دُنیا کو دھوکہ دینے کی کو شش کرتا ہے بلکہ وہ خود خونی کاروائیاں کر کے اس کا الزام پاکستان کے اوپر ڈال کر اس کے خلاف صف آرا ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی کشمیریوں کے اوپر بھی مظالم کی انتہا کر دیتا ہے بلکہ سرحد کے اِس پار کے کشمیری بھی اُس کی دست برد سے محفوظ نہیں رہتے اور وہ بکریاں چراتے بچوں،بچیوں اور بوڑھوں کو نشانہ بنا دیتا ہے یہ لوگ فوجی نہیں ہوتے نہ ہی عمر کے اُس حصے میں ہوتے ہیں کہ بھارت جیسے بڑے ملک کو نقصان پہنچا سکیں لیکن بھارت اپنی بد فطرتی کی تسکین کر لیتا ہے۔ اس بار کی منصوبہ بندی بھی ایسے ہی پروگرام کا حصہ معلوم ہو تی ہے کہ بھارت کاروائی کر کے پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف پھر اعلانِ جنگ کر لے گا،پھر سرحد کے آرپار کے کشمیری زد میں آئیں گے پھر پاکستان کو الزام دیا جائے گا اوردُنیا کو باور کرایا جائے گا کہ پاکستان بھارت میں در اندازی کر رہا ہے اور اُس کی توجہ کشمیر کے مسئلے سے ہٹائے گا ،کشمیریوں کے قتلِ عام کے لیے تو جیہہ ڈھونڈ ے گا اور پھر کئی معصوم کشمیری اِس ظلم کی نذر ہو جائیں گے۔اول خود بھارت کے اپنے باشندے قتل ہونگے ان دھماکوں اور دہشت گرد کاروائیوں میں اور پھر کشمیریوں کی باری آئے گی۔عالمی برادری کو اس طرف ضرور توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ بر صغیرکا امن اسی بھارتی بلیم گیم کی زد میں رہے گا اور یہاں کے عوام امن اور سکون کوترستے رہیں گے۔