امن مذاکرات کے باوجود بم دھماکے اور خودکش حملے قابلِ تشویش ہیں!
ایس اکبر
نئی حکومت نے بر سر ِ اقتدار آتے ہی شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان سے امن مذاکرات کی نہ صرف حامی بھری بلکہ ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ان مذاکرات میں خاصی پیش رفت بھی دکھائی۔ جب حکومت کی نامزد کردہ مذاکراتی ٹیم تحریکِ طالبان کی قیادت سے ملاقات کر کے واپس آئی تو بہت سی توقعات پوری ہوتی محسوس ہوئیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ 10 سال کے بعد اب پاکستانی سکھ اور چین کا سانس لیں گے۔ اب کسی صوبے یا کسی شہر میں بم دھماکے اور خودکش حملے نہیں ہونگے لیکن جوں جوں مذاکراتی عمل بڑھتا رہا ویسے ویسے ملک میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں تیزی آتی گئی۔ امن مذاکرات کی کامیابی سے پاکستان کا نیا مستقبل جڑا ہو ا ہے۔ یہ امن مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں تو اس سے بڑھ کر اس قوم کے لیے کوئی خوشی نہیں ہو گی ۔ کیونکہ ہزاروں لوگ اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے سے بچ جائیں گے۔ ملک میں رونما ہونے والے مسلسل دہشت گردی کے واقعات امن مذاکرات میں بہت بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ پشاور میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں کا سلسلہ کسی طور تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ جب سے مذاکرات شروع ہوئے ہیں ان 16 دنوں میں پشاور میں 16 حملے ہوئے ہیں جس سے شہری زندگی تہہ وبالا ہو گئی ہے۔
13 فروری کو کراچی کے علاقے رزاق آباد پولیس ٹرینگ سنٹر کے قریب خودکش حملہ ہوا جس میں 13 اہلکار شہید اور 57 سے زائد افراد شدید زخمی ہو ئے۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان نے قبول کر لی ہے۔ اس ذمہ داری قبول کرنے کے بعد امن مذاکرات کو شدید خدشہ لاحق ہو گیا ہے اور بہت سی امیدیں دم توڑتی محسوس ہو رہی ہیں اور ساتھ ہی یہ دھمکی دی ہے کہ اگر صوابی اور پشاور میں تنظیم کے کارکنوں کو مارا جاتا رہا تو مزید حملے کیے جائیں گے اور مزید برآں یہ کہ جنگ بندی کے اعلان سے قبل حملے نہیں روکے جائیں گے۔ کراچی کے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد مشکل صورتحال ہو گئی ہے کیونکہ اگر طالبان اس طرح کےحملے جاری رکھیں گے تو مذاکرات کی کامیابی کے لیے سازگار حالات پیدا نہیں ہو سکے گے۔ 12 فروری کو پشاور کے سینما گھر میں ہینڈ گرنیڈ سے حملہ کیا گیا۔ پے در پے حملے کے نتیجے میں 13 افراد جاں بحق اور 25 افراد شدید زخمی ہو گئے۔ اس سے قبل بھی پشاور کے شمع سینما گھر میں دھماکوں کے نتیجے میں 14 سے زائد شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیو ٹیم پر حملہ کے نتیجہ میں ایک پولیس اہلکار شہید ہو گیا۔ پشاور کے علاقے میں نماز جنازہ پر آئے ہوئے لوگوں پر خودکش حملے کے نتیجے میں 4 خواتین جاں بحق ہو گئی۔ جنوبی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں دھماکہ خیز مواد نصب کر نے کی وجہ سے 4 فوجی زخمی ہو گئے۔ ان تمام کاروائیوں سے تحریکِ طالبان نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ کالعدم تنظیم جندولہ نے پشاور کے سینما گھروں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس کے علاوہ تحریکِ طالبان کا ایک گروہ احرار ولہند نے اعلان کیا ہے وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں جاری رکھے گے اور حکومت اور طالبان کے درمیان کسی جنگ بندی کو نہیں تسلیم نہیں کرتے۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ طالبان کے تمام گروپس ایک صفحہ پر نہیں ہیں کچھ گروہ امن مذاکرات کے حامی ہیں تو کچھ اس کے مخالف ہیں۔ امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے دہشت گردوں کو اپنے تمام گروہوں کو اکٹھا کرنا ہو گا۔ تا کہ دہشت گردی کی کاروائیاں ختم کی جا سکیں۔
جب سے امن مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے پاکستان فورسز کی طرف سے شورش زدہ علاقوں میں کسی تازہ کاروائی کی کوئی اطلاع نہیں ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت اور فوج ملک میں قیامِ امن کے لیے شدت پسندوں سے بھی مذاکرات کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ شدت پسند عناصر کو بھی اسی طرح کی سنجیدگی دیکھاتے ہوئے حالیہ دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث گروہ کو بے نقاب کرتے ہوئے انھیں بھی امن مذاکرات کے لیے آمادہ کرنا چاہیے۔ مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کے لیے بیرونی عناصر کو بالکل فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ملک میں شورش برپا کر نے کے لیے ملک دشمن خفیہ ایجنسیاں کئی عرصے سے اس قسم کی کاروائیاں کر رہی ہیں۔ ملکی حالات خراب کرنے میں دشمن ممالک کی ایجنسیوں کا کردار کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
وزیر اعظم پاکستان نے بھی سخت الفاظ میں ان حملوں کی مذمت کی ہے ۔امن مذاکرات پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس لیے اربابِ اختیار اور متعلقہ محکموں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کاروائیوں میں ملوث گروہوں اور افراد کو جلد از جلد بے نقاب کر کے کیفرِ کردار تک پہنچائیں۔ تا کہ پاکستان ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا سورج دیکھ سکے۔