آیات و احادیث کو چھاپنے میں احتیاط
نغمہ حبیب
دین کی تبلیغ و اشاعت کی اللہ تعالیٰ نے بڑی فضیلیت رکھی ہے اور ایسا کرنے والوں کے لیے بڑے اجر کی نوید بھی ہے اور اسی لیے ہمیشہ مسلمانوں نے اسے اپنا اولین فرض سمجھا ہے اور بصد احترام ادا کیا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ اس فریضہ کی ادائیگی میں نہ کبھی سستی کی گئی نہ کمی۔ آج بھی دنیا جتنی بھی ماڈرن ہو چکی ہے لیکن دین اسلام کے لیے وقت وقف کرنے والوں کی کمی نہیں۔ مخیر حضرات اور ادا رے بڑے احترام سے خوبصورت اسلامی کیلینڈر، سحر و افطار کے اوقات اور اورا دوظائف شائع اور تقسیم کرتے رہتے ہیں جو کئی گھروں میں خیر و برکت کا باعث بنتے ہیں۔ یہ سب کچھ بلا شبہ اسلام کے لیے عظیم جذبے اور خدمت کی نیت سے کیے جاتے ہیں لیکن بسا اوقات یہ سب کچھ کرتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑدیا جاتا ہے۔ اکثر راستے میں چلتے ہوئے کسی اخبار کے ٹکڑے پر نظر پڑتی ہے جس میں کوئی قرآنی آیت، حدیث، مقامات مقدسہ کی کوئی تصویر یاکسی خوبصورت مسجد کا عکس صاف نظر آرہا ہوتا ہے، کبھی تو میں اسے اٹھاکر کسی اونچی جگہ پر رکھ دیتی ہوں لیکن کبھی ایسا کرنا بھی ممکن نہیں ہو تا اور ایک نا کردہ گناہ کا احساس لیکر اور تاسف کے ساتھ آگے بڑھنا پڑ جاتا ہے۔
اگر چہ کوشش پوری ہوتی ہے کہ ایسا نہ کروں اور ایسے میں ایک (غلط یا درست) سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا ان آیات کو یوں چھاپ کر بے فکر ہونے والے لوگ درست ہیں۔ جس کثرت سے یہ آیات، احادیث اور اد یا تصاویر شائع کی جاتی ہیں ان کو سنبھال کر رکھنا یا ان کو زمین پر گرنے سے بچانا نا ممکن ہے۔ ان آیات و احادیث کو چھاپنے والے اگر اس بات کو سوچیں کہ بجائے احترام کے خدانخواستہ کوئی بے حرمتی تو نہیں ہو رہی تو کتنا ہی اچھا ہو۔ اخبار والا اخبار کو یا تو گھر کے اندر پھینک دیتا ہے یا گیٹ کے نیچے سِرکا دیتا ہے یعنی گھر کے اندر پہنچتے ہی وہ زمین پر پڑا ہوتا ہے جبکہ اُس میں پہلے ہی صفحے پر آیت کا ترجمہ موجود ہو تا ہے جو اگر ویسے زمین پر پڑا نظر آئے تو ہم اُسے اٹھا کر ”چوم کر“ آنکھوں سے لگا کر اونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں لیکن اس صورت میں ہم اس بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں۔ یہ مسئلہ صرف پرنٹ میڈیا کے ساتھ نہیں ہے بلکہ موبائل میسجز بھی اس کی ایک مثال ہے جو بغیر تصدیق کے آگے بھیج دیئے جاتے ہیں جب کہ حدیث کی صحت اور درستگی انتہائی ضروری ہے یہاں تک کہ محد ثین جھوٹے شخص کی بیان کردہ حدیث کو نہ تو تسلیم کرتے تھے نہ اپنی کتابوں میں شامل کرتے تھے۔ کچھ ایسے ایس ایم ایس بھی آگے بھیج دیئے جاتے ہیں جن میں دور نبوی کا کوئی تاریخی واقعہ بیان کیا جاتا ہے لیکن جب تاریخ کھولی جاتی ہے تو اس واقعہ کا ذکر کسی کتاب میں موجود نہیں ہوتا۔
موبائل میسجز کو تو ڈلیٹ کر دیا جاتا ہے لیکن اخبارات میں یہ بھی ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسا کوئی رواج اور بندوبست ہے اور نہ ہی یہ عملاََ ممکن ہے کہ تمام کے تمام اخبارات ری سائیکل کیے جائیں۔ ہوتا یہ ہے کہ اخبارات و رسائل سے کاغذ کے لفافے بنا دیئے جاتے ہیں جو چھوٹے دکاندار اپنا سودا سلف بیچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور صارف چیز استعمال کرنے کے بعد اس لفافے کو پھینک دیتاہے اور پھر یہی لفافے یا تو جوہڑوں اور گندے نالوں میں چلے جاتے ہیں یا کمیٹی والے ا نہیں ہر قسم کے گندکے ساتھ اٹھا کر لے جاتے ہیں اور اسی کے ساتھ یا تو جلا دیا جاتا ہے یا زمین میں دبا دیا جاتا ہے اور یوں ایک بار پھر بے حرمتی کا احتمال پید ا ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف انہی آیات و آحادیث کے اوپر،نیچے یاساتھ ہی میں قابل اعتراض قسم کی تصاویر بھی لگادی جاتی ہیں جبکہ ویسے ہم نماز اور قرآن پاک پڑھتے ہوتے تصاویر کی موجود گی کو درست نہیں سمجھتے لیکن یہاں ہمارے معیار بدل جاتے ہیں اور ہم بغیر سوچے سمجھے نہ صرف اسے قبول کرلیتے ہیں بلکہ قابل تعریف بھی گردانتے ہیں چاہے انہیں پڑھیں یا نہ پڑھیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اکثریت انہیں پڑھتی ہی نہیں۔صرف خبریں،تجزیے، تبصرے، کالم اور مضامین پڑھ کر اخبار رکھ دیا جاتا ہے۔ ان تمام تحفظات کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انہیں شائع نہ کیا جائے ضرور کیا جائے لیکن اخبار کے ہر صفحہ پر کچھ نہ کچھ شائع کرنے سے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ایک مخصوص جگہ ان کو دی جائے تاکہ اخبار کے اس صفحہ کو الگ کیا جا سکے۔ ایک تجویز دینے والے نے یہ بھی تجویز دی کہ ہمارے یہ تمام ادارے جو ان آیات و احادیث کی اشاعت میں حصہ لیتے ہیں شہروں اور سڑکوں پر اونچے بل بورڈ پر انہیں لگا دیا کردیں یوں یہ ہر آنے جانے والے کی نظروں سے گزریں گے اور وہ ان تعلیمات سے فائدہ بھی اٹھا سکیں گے کئی شہروں میں ایسا ہے بھی لیکن اسے مزید بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔ جی ٹی روڈ اور موٹر ویز پر انہیں فاصلوں کے اونچے بورڈوں پر لکھا جا سکتا ہے یہاں ضروری نہیں کہ صرف سفر کی دعا لکھی جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اخلاقیات یا عقائد سے مطلق آیات اور حدیث اور اقوال بھی لکھے جاسکتے ہیں۔
دکانوں پر اگر چہ ابھی بھی آیات اور احادیث کے طغرے آویزاں ہوتے ہیں لیکن اگر خرید فروخت میں ایمانداری اور ناپ تول میں درستگی کے متعلق آیات و احادیث کو بجائے اخباروں کے بازاروں اور مارکیٹوں میں لگا دیا جائے تو وہ زیادہ موئثر ثابت ہو سکتے ہیں کیوں کہ وہ موقع پر نظر آئیں گے اور نیچے گر کر خدانخواستہ بے حرمتی کا خطرہ بھی نہ رہے گا۔ ایک مسلمان کتنا ہی بے عمل کیوں نہ ہومشکل اور تکلیف کے وقت اس کا آخری آسرا اور سہارا اللہ کا نام اور اس کی کتاب ہی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہسپتالوں میں آیات شفا جگہ جگہ لکھے ہوئے ہوتے ہیں اور اس تکلیف کے وقت میں دلوں کی تسلی کا باعث بنتے ہیں اس طرح نوٹ پر حصول رزق حلال عین عبادت ہے کا جملہ شاید کسی راشی کے دل پر اثر کرتا ہے۔ قرآن شریف یقینا ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام نے ہر مسئلے اور معاملے کے بارے میں ہدایت مہیا کی ہوئی ہے اگر ہم اسے ہر موقع پر استعمال کریں تو ہم ایک صالح معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں ہم اپنے شہروں، پارکوں اور سڑکوں کی گندگی کا گلہ بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھی صاف کرنے کی کوشش بھی۔ شاید اخبار میں دی ہوئی حدیث ہمیں ہروقت یاد نہ رہے لیکن اگر صفائی سے متعلق آیات و احادیث کو پارکوں، اڈوں،سڑکوں اور شہروں میں مناسب جگہوں پر خوبصورت بورڈ ز پر لگادیں تو زیادہ موئثر ثابت ہوں اور ان کو اتنا خوبصورت بنا یا جائے کہ ہر بچے بڑے کی اس پر نظر پڑے یو ں لوگوں میں صفائی کا شعور بھی اُجاگر ہوگا،دین میں اس کی اہمیت بھی، اور احترام بھی برقرار رہے گا۔ ان تجاویز سے یہ ہر گز نہ سمجھا جائے کہ پرنٹ میڈیا اس ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجائے بلکہ ا سے ضرور اس کار خیر میں شامل رہنا چاہیے لیکن ذمہ دار ی کے ساتھ اور احترام کے جذبے اور اہتمام کے ساتھ تاکہ اگر یہ اخبارات و رسائل، لفافے والوں،ردی والوں یاریڑھی والوں کے پاس پہنچیں تو بے حرمتی کا خوف نہ ہو اور اگر کمیٹی والے کچرے کے ساتھ انہیں بھی ٹھکانے لگائیں تو ان میں یہ مقدس کلام شامل نہ ہوں۔ اور اگرچہ مشکل ضرور ہو گی لیکن تھوڑی محنت ثواب کی نیت سے کی جائے کہ صرف اِن مخصوص صفحات کو پڑھنے والا الگ کرتا رہے اور مہینے کے آخر میں ہاکر بل دیتے ہوئے اِن صفحات کو جمع کر لیا کرے اور اس کاغذ کو ری سائیکل کرکے استعمال کر لیا جائے تو ہم ان آیات و آحادیث کو زمین پر گرنے اور گندگی میں پہنچنے سے بچا سکتے ہیں۔
اللہ ہمیں اپنے دین کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسے ہماری عملی زندگیوں میں شامل کر کے ایک مثالی اسلامی اور صالح معاشرے کی تشکیل میں ہماری مدد فرمائے آمین۔