پیچیدہ اور پوشیدہ- دہشت گردوں کی سرکوبی کا علاج
سیّد ناصررضا کاظمی
پاک افغان سرحد سے ملحق پاکستانی قبائلی علاقوں کے غیور روایات پسند قبائلی عوام کی پاکستان کے ساتھ والہانہ عقیدت وانسیت کی اپنی ایک شاندار تاریخ ہے جس پر جتنا بھی پاکستانی قوم فخر کرئے وہ کم ہے2001 میں امریکا میں رونما ہونے والا 9/11 کا سانحہ اپنے پس منظر میں کیا کیا کچھ چھپائے ہوئے ہے اِس کے بارے بہت کچھ دنیا جان چکی ہے وقت گزرنے کے ساتھ اور بہت کچھ بھی یہ دنیا جانتی رہے گی مگر 9/11 کے اِس امریکی واقعہ نے جنوبی ایشیا میں افغانستان اور اکستان کو کئی پہلوں پر مبنی سیاسی ‘ سماجی ومعاشرتی مصائب ومشکلات سے دوچار کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ہمیں یہ کہنے کوئی عذر یا بہانہ نہیں تراشنا کہ اُس وقت جو بھی پاکستانی حکمران تھے اُنہوں نے امریکیوں کے ساتھ بات کرنے سے قبل اگر اپنے عوام کو اعتماد میں لیا ہوتا عوام کو پیش آنے والی ممکنہ ’امریکی دھمکیوں ‘ کے بارے میں اُن کی رائے معلوم کر لی جاتی تو شائد امریکی اور نیٹو افواج کی افغانستان میں کی گئی لشکر کشی کے مضر اور تباہ کن اثرات سفاکانہ دہشت گردی کی صورت میں پاکستانی عوام پر نہ پڑتے دہشت گردی کی اِس مہلک وباء کی وجہ سے لاکھوں خاندان متاثر ہوئے ہزاروں پاکستانیو ں کی قیمتی جانیں تلف ہوئیں ہزاروں پاکستانی سیکورٹی اداروں کے افسر وجوان شہید ہوئے، اِس سے زیادہ تعداد میں عام پاکستانی اور پاکستانی سیکورٹی اداروں کے اہلکار شدید زخمی ہوئے کئی ارب روپے کی قیمتی املاک تباہ وبرباد ہوئیں علاوہ ازیں قبائلی مسلمانوں کے کم عمر اور جواں سال بچوں کو سی آئی اے اور دیگر عالمی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی فنی مدد واعانت سے اُن کی برین واشنگ کرنے کا جو انسانیت سوز ’ہنر‘ کم علم ‘ کج فہم اور لالچی ’ملاؤں ‘ کو سکھلایا گیا جنہوں نے معصوم بچوں کی ایک نسل کو خود کش بمبار بناکر اُنہیں خود کشی کے ایندھن میں جھونک دیا ،گز شتہ پانچ چھ برس پاکستان بھر میں آگ اور خون کا یہ بہیمانہ کھیل کھیلا جاتا رہا، پاکستانی اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے اب بھی کہیں اکا دکا ایسے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہورہے ہیں، خصوصاً کراچی آج بھی اِسی قسم کی سفاکیت کا شکار ہے کبھی بلوچستان سے ایسی ہی دلفگار خبریں آجاتی ہیں پاکستانی پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں سمیت ملک کی باقاعدہ افواج سمیت ہر ایک ادارے نے اپنی قومی آئینی ذمہ داریوں سے وقت پڑنے پر کوئی کوتاہی نہیں کی ‘ ایک نہیں کئی خونریز واقعات اِس امر کی واضح گواہی کے طور پر ہمارے سامنے ہیں اُوپر سے جانے والی پرویز مشرف کی حکومت نے ’اظہار رائےِ آزادی ‘ کے نام پر ملک بھر میں نجی الیکٹرونک میڈیا کے درجنوں چینلز کسی پیشگی پیشہ ورانہ اہلیت و صلاحیت کو چانچے بغیر کھو لنے کی اجازت دیکر اندرونی وبیرونی ملکی سلامتی ہی نہیں بلکہ ملک میں سماجی ومعاشرتی انارکیت و فاشسزم کا ایک اور نیا محاذ کھول دیا، مادر پدر آزاد پروپیگنڈے کے اِسی محاذ نے پرویز مشرف کی اقتدار سے بے دخلی کے شورو غل میں جلتی پر مزید تیل چھڑ کا بہتر اور عدل وانصاف کی حکمرانی کرنے کے حوالے سے پاکستان بہت مشکل ملک تصور کیا جاتا ہے اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں کے مقامی مسائل میں ہر نئے سورج کی کرن اپنے ساتھ ایک اور نیا انوکھا مسئلہ لیئے طلوع ہوتی ہے یقین کیجئے دل مانتا نہیں عجیب وغریب ریاست ہے پاکستان‘ اِس ریاست میں قانون نافذ کرنے والی تقریباً سبھی اہم ایجنسیوں اور قومی اداروں سمیت ملک کے ہر شعبہ ِٗ زندگی میں بہت کم پیسوں پر سرکاری اہلکار فروخت ہوجاتے ہیں قومی اداروں میں اپنے آئینی فرائض ادا کرنے میں کتنے ہی ایماندار اور کتنے ہی انتہائی فرض شناس سربراہ کیوں نہ ہوں وہ کہاں تک جھانکھیں کتنی چھان پھٹک کریں کہیں نہ کہیں کوئی ایک ’کنکر ‘ اُن کی فرض شناس آنکھوں سے بالا آخر بچ ضرور جاتا ہے ، حال کراچی نیول ڈاکیارڈ کا واقعہ ہمارے سامنے بطور سبق موجود ہے، یہاں ایک سوال بڑی شدومد کے ساتھ اپنے تشفی بخش جواب کے لئے آج تک ہمارے دماغ کا کانٹا بنا ہوا ہے، یاد ہوگا آپ کو11 ؍ اکتوبر2009 کو صبح ساڑھے 11 بجے دن دھاڑے چند دہشت گردوں نے آرمی کے ہیڈ کوارٹر GHQ راولپنڈی پر کیسے حملہ ہوا تھا ؟ تھکا دینے والے کئی گھنٹوں پر مشتمل آپریشن کے نتیجے میں کئی دہشت گردجہنم رسید ہوئے جبکہ کئی گرفتار ہوئے، تفتیشی مراحل کے بعد اُن کی نشاندہی پر اور کئی دہشت گردوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کیا جنہیں ملک کی عدالتوں نے ’موثر ‘ شہادت نہ ملنے کی بناء پر جیلوں سے رہا کردیا GHQ پر براہِ راست ایک حملہ ہو ا، اِس سے قبل اور اِس حملے کے بعد GHQ کے قرب وجوار پر واقع آرمی دفاتر پر ‘ بازاروں میں ‘ CMH کے ایک جنرل ڈاکٹرپر ‘ آرمی ایریا میں واقع مسجد میں عین نمازِ جمعہ کے موقع پر کیئے گئے دہشت گردی کے حملوں کی ایک طویل فہرست ہے اِن واقعات میں ملوث گرفتار ہونے والے دہشت گرد عدالتوں سے ’گواہی ‘ کی عدم دستیابی پر آستینیں جھاڑ کر اپنے سینے تان کر رہا ہوجاتے ہیں اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر دہشت گردی کے حملے ہوئے وہ بھی اِسی قانونی سقم سے مستفید ہوئے، کوئی اُن کا بال بیکا نہ کرسکا ڈی جی خان اور ڈی آئی خان کی جیلیں توڑی گئیں ازبک ‘ چیچن ‘ اور نجانے کہاں کہاں کے جنونی فراری دہشت گردوں کے لئے شمالی وزیر ستان ایک محفوظ پناہ گاہ بن چکا تھا لے دیکے امریکا نے پاکستان کے احسان کا بدلہ یوں چکایا کہ افغانستان میں ایک تو بھارت کو لابٹھایا جس نے افغانی صوبہ کنٹر میں پاکستان کو مطلوب دہشت گرد ملا افضل اللہ کے انتہا پسند سفاک گروپ کو سرکاری پناہ دے رکھی ہے ’دیر آئید درست آئید ‘ کے مصداق پاکستانی فوج کے جاری شمالی وزیر ستان کا یہ تاریخی آپریشن اب اپنی تکمیل کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے فوج مکمل منہمک ہے، دہشت گردوں کی سرکشی کا دم خم نکل چکا ہے، عین ممکن ہے آئی ڈی پیز کی جلد واپسی شروع ہوجائے ہم کہہ نہیں سکتے ہمارا خیال ہے کہ فوج کے پاس اس آپریشن ’ضربِ عضب‘ کے دوران یقیناًایسے دہشت گرد ہاتھ لگے ہوں جنہیں قانون کے حوالے کیا جائے گا اب یہاں ہماری پارلیمنٹ اور سینٹ پر فوری ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ پہلی فرصت میں انسدادِ دہشت گردی کے قانون میں کوئی ایسا سقم باقی نہ چھوڑے جو انسانیت دشمن کے اِن دشمنوں کے لئے وجہ ِٗ اطمنان نہ بنیں جب تک قانون اپنی پوری آئینی قوت کے ساتھ آئین شکنوں پر لاگو نہیں کیا جائے گا دہشت گرد انسانوں کا یونہی لہو پیتے رہیں گے بچے یتیم ہوتے رہیں گے بہنوں کے بھائی ‘ بھائیوں کی بہنیں ‘ مائیں‘ والدین اور نوجواں نسل پاکستان کی سڑکوں پر یونہی ماتم کناں رہیں گی انسانی حقوق کے نام پر یہ کہاں لکھا ہے کہ دہشت گرد ملکوں ملکوں دہشت گردی کا بازار گرم کیئے رکھیں اور جب قانون کا شکنجہ اِن کی گردنوں پر پہنچے تو یہ ظالم وسفاک جنونی دہشت گرد ’عدم شہادت ‘ کی آڑ میں اپنے آپ کو صاف بچا نے میں کامیاب ہوجائیں؟دہشت گرد اگر آزاد ہیں تو پھر ملکی قوانین کو اتنا سخت بناکر آزاد کردیا جائے وہ جب چاہئیں جہاں چاہئیں ’پیچیدہ سے پیچیدہ ‘ اور ’پوشیدہ سے پوشیدہ ‘ دہشت گردوں کو اُن کے کیئے کی سزا دلوانے کے لئے اُنہیں طویل ’انٹروگیشن مراحل ‘ تک پہنچانے میں جتنی دیر چاہئیں ’لاپتہ ‘ رکھیں، تبھی کہیں جاکر دہشت گردی کی اِس لعنت سے ہم بحیثیتِ قوم چھٹکارہ پاسکیں گے انشاء اللہ ۔