سیکورٹی اداروں کے خلاف گمراہ کن تصورات پر مبنی بغض وعناد

bb سیّد نا صر رضا کاظمی
ملک کے ایک اشاعتی ادارے کے زیر اہتمام ایسے مضامین گمراہ کن ذہنیت کے زیر اثر بڑے اہتما م کے ساتھ تواتر سے شائع ہورہے ہیں، جنہیں پڑھ کر محبِ وطن حلقے بخوبی انداز لگا سکتے ہیں کہ خود غرضانہ نکات پر مبنی یہ مضامین نہ کل حقائق اور سچائی پر مبنی تھے نہ آج اِن کالموں کے مقاصد میں کسی قسم کی اعلیٰ و ارفع اہمیت وافادیت کی کوئی راہ پائی جاتی ہے، ایسے سبھی کالم نگار وں کے کالم یاایسی کج بحثیاں ا ور سازشی گفتگو ئیں کرنا چند بکاؤ قسم کے دانشوروں نے تمام تر انسانی اخلاقیات و سیاسیات کے پیشہ ورانہ استعدادکو بالائے طاق رکھ کر عوام کی اکثریت پر اپنی آراء کو زبردستی ٹھونسنے کا یہ ا زخود مذموم فریضہ اپنا لیا ، گزشتہ ایک ماہ سے قوم کو نجانے کیوں بلا وجہ کے خوف وہراس میں گمراہ کرنے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں ،مئی2013 کے عام انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی حکمران جماعت اور اِس کے اتحادی سبھی پارلیمنٹ کے ’پارلیمانی امور ‘ اپنی اپنی جگہ بخوبی چلا بھی رہے ہیں اور قسم کے قسم کے ’انجانے خوف ‘ میں اپنے آپ کو مبتلا کیئے رکھنا کا مذموم دھند ابھی زور وشور سے جاری ہے ’انجانے اور ان دیکھے خوف‘ کی اصطلاح میں اب ’اسکرپٹ‘ کا مشکوک صیغہ بھی شامل کرلیا گیا عمران خان کی جماعت سے چھلانگ لگا کر پارلیمنٹ پہنچنے والے ایک صاحب نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عجیب و غریب ’داستانِ مظلومیت ‘ بیان کی کل تک جس سیاسی جماعت سے وہ اپنی غیر مشروط وفاداری کا حلف اُٹھاچکے تھے اب اُن کے نزدیک سیاسی وفاداری کی تبدیلی کا غالباً یہ واقعہ جمعیتِ طلبہ سے جماعتِ اسلامی تک ‘ پھر اصغر خان کی جماعت تحریکِ استقلال سے مرحوم ضیا ء الحق سے وفاداری تک منسلک ہے بات یہیں تک رکی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) سے اُن کی علیحدگی ہوئی اور عمران خان کے کندھوں پر جا کھڑے ہوئے اب اُن کی وفاداری پھر بدل گئی ہے ماضی کی طرح ایک بار پھر یہ صاحبِ ’ وفادار ‘ سیاسی اشارے کنایوں میں نہ صرف افواجِ پاکستان کو ملک میں جاری سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے جھگڑوں میں کھینچ لائے بلکہ اِس بار اِنہوں نے ملک کی عدلیہ کو بھی ’نشان زدہ ‘ کردیا ہے ایسے ایک نہیں کئی ایک سے ایک ’معزز‘ شخصیتیں اور ایک ’خاتون ‘ بھی ہیں غالباً جو صرف اور صرف کسی نہ کسی حیلے بہانوں کی عذرتراشیوں میں لفظ ’اسکرپٹ ‘ کی تکرار کی گردان کرتے رہیں افسوس! جمہوری حکمرانوں کا خود ہی جب ایسا فتنہ انگیز طرزِ حکمرانی کا حال ہو تو وہ میڈیا ہاؤسنز جن کے ’پیشہ ورانہ استعدادِ کار ‘کی باگ ڈور ملک سے باہر بیٹھے غیر ملکی آلہ کار چلا رہے ہوں ایسے حالات میں وہ آپے سے باہر نہیں ہونگے 16 ؍ستمبر ’عالمی یومِ جمہوریت ‘ گزر گیا جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کی جمہوریتوں کی طرح ملکی جمہوریت نے اب تک عوام کو کیا ڈیلیو ر کیا؟ سستی اور ناقابلِ بھروسہ شہرت کے بھوکے یہ حکمران خود ہی میڈیا کے اداروں کے مابین انصاف کرنے میں ناکام ہوجائیں کسی ایک ’خاص‘ میڈیا کے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیں ایسا میڈیا جو اپنے آغاز ہی سے غیر ملکی آلہ کارمثلاً پاکستان دشمن ‘ پاکستانی مفادات کے خلاف عالمی سطح پر اپنا ایجنڈا بناکر اُسے اپنی ’پالیسی ‘ کا نام دیدے ‘ پاکستانی سرحدوں کے پار ملکوں کی ثقافتی چکاچوند پر پاکستانیت کا لیبل چسپاں کرنے جیسے پُرفریب امور کی انجام دہی کو اپنا مقصد بنالے اُوپر سے اِسی قسم کے میڈیا والوں کو حکومتی سرپرستی بھی کھل کر میسر آجائے تو پھر قوم اگر اُس ’مخصوص‘ میڈیا ہاؤس کے خلاف کسی غم وغصہ کا اظہار
کرئے تو بڑا واویلا شروع ہوجاتا ہے جمہوریت اور جمہوری طرزِ عمل کی کوئی ایک اعلیٰ مثال اور جمہوری اعلیٰ و ارفع روایات کسی کو کہیں نظر آرہی ہیں؟دنیا کی ہر جمہوریت میں سخت محتسبانہ اپوزیشن کے اصولی کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا اسلام آباد کی’’ شاہراہِ آ ئین ‘‘ پر آجکل دوسیاسی جماعتوں نے حکومتِ وقت کے خلاف جمہوری انداز میں ’دھرنے ‘ دئیے ہوئے ہیں اِن دونوں دھرنوں کے قائدین نے اپنی سی تمام کوششیں کرلیں کہ حکومت جمہوری سنجیدگی کا کوئی مظاہرہ کرئے ملک وقوم کو کسی مزید بڑے ممکنہ سیاسی وآئینی بحران کا شکار ہونے سے بچانے میں کوئی ’بڑا‘ فیصلہ کرلے یقین ر کھیں کوئی قیامت برپا نہیں ہوگی، اگر حقیقی اپوزیشن والے یہ دھرنے حکومتِ وقت پر بڑی بڑی کرپشن کے جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں اچھی و بہتر طرزِ حکمرانی کی روایات قائم نہ کرنے کا شکوہ کررہے ہیں یا جمہوریت پر ’بادشاہت ‘ قائم کرنے کا گلہ کررہے ہیں، اگر یہ دھرنے والے غلط یا جھوٹے ہیں آپ تو خود کو سچے اور پارسا سمجھتے ہیں نا ’لات ماریں حکمرانی کو باہر آجائیں عوام کی اکثریت کا مینڈیٹ آپ کے پاس ہے، آپ پھر منتخب ہوجائیں گے، آپ کے اندر یقین کی طاقت ہونی چاہیئے آپ کو اپنے عوام پر کامل بھروسہ ہونا چاہیئے دیکھ لیں گے نمٹ لیں گے بقول کسے حکومتِ وقت کے’ اُنہیں کروڑوں عوام نے ووٹ دئیے ہیں چند ہزاروں کو یہ حق کیسے دیدیں کہ وہ ایک منتخب جمہوری حکومت کو اِتنی آسانی سے چلتا کردے ؟‘‘ایک سیاسی وجمہوری لڑائی دودھرنوں اور حکومتِ وقت کے مابین عین جمہوری طرزِ اصول پر لڑی جارہی ہے اِس کا جو بھی نتیجہ نکلے؟مگر یہاں ایک اور حساس معاملہ نے سیاسی وجمہوری اِس اعصاب شکن لڑائی کے درمیان میں اپنا ’سینگ ‘ بھی پھنسا لیا ہے وہ مخصوص میڈیا ؟ جس نے روزِ اوّل سے ایمان داری کی بجائے بے ایمانی کو اپنا وطیرہ بنایا اُس کی نظر میں عوامی اور حکومتی مسائل تو رہے ایک طرف‘چونکہ عالمی سازش بندی کے ماہرین آنکھیں بند کیئے اُس میڈیا ہاؤس کے اصل و غیر اصل ’مالکان ‘ کو یہ بار کرانے میں شائد پوری طرح سے کامیاب ہوچکے ہیں جب تک پاکستانی فوج (خدانخواستہ) کمزور نہیں ہوگئی اُس وقت تک جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالا دستی کا خواب شرمندہ ِٗ تعبیر نہیں ہوسکتا پاکستانی فوج کے پیشہ ورانہ وقار کو عوام کی نظروں میں صرف میڈیائی پروپیگنڈے کے ذریعے سے مجروح کیا جاسکتا ہے اِس مذموم اور منحوس پیشہ ورانہ مہارت کو عالمی سازشی کارندوں نے اِسی ایک ’مخصوص میڈیا گروہ‘ کے توسط سے پورا ہوتا ہوا دیکھنا چاہ رہے ہیں ،گزشتہ پانچ چھ برسوں میں پہلے بھی تین چار بار اپنی یہ مذموم کوششیں وہ کرچکے تھے مگر ہمیشہ پاکستانی فوج کی بہادر اور محبِ وطن لیڈر شپ نے عین آخری لمحوں میں اُن کی نفرتوں میں سلگتی تپش کی خواہشات پر پانی کی بوچھاڑ کرڈالی اور وہ منہ تکتے کے تکتے حیران و ششد ر رہ گئے ’آئی ایس آئی‘ پاکستان کی سپریم انٹیلی جنس ا یجنسی ‘ دنیا کا تسلیم شدہ نمبر ون قومی ادارہ جسے آئینِ پاکستان نے تحفظ فراہم کیا ہوا ہے افواجِ پاکستان کا یہ اہم حساس ادارہ سخت نگرانی کرنے اور خفیہ پیشہ ورانہ امور کو بخوبی نبھانے میں اپنی ایک خاص شہرت رکھتا ہے افواجِ کستان کے گرد اِس حساس ادارے کے ایک نہیں بلکہ کئی جہتوں پر استوار کی گئی سیسہ پلائی ہوئی آہنی حصار ہیں پاکستان کے دشمن‘ پاکستانی ایٹمی اثاثوں کے دشمن افواجِ پاکستان کی تینوں سروسنز فضائیہ اور ائیر فورس سمیت بَری فوج میں اپنے کئی گھس بیٹھئے یقیناًبھیجے ہونگے جنہوں نے ناقابلِ تسخیر سیکورٹی اداروں میں دراڑیں ڈالنے کی انتہائی بہیمانہ اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں ضرور کیں حال میں ڈاکیارڈ کراچی میں عالمی دہشت گردوں کی درآمد دہشت گردی کی ناکام کوشش ہوئی ہے ملکی فوج نے جسے بے دریغ کچل کر رکھ دیا یاد رہے فوج نے اب ’کچلنے ‘ کا عمل شروع کردیا ہے شمالی وزیر ستان سے کراچی اور بلو چستان تک ‘ادھر مشرقی سرحدوں پر سیالکوٹ سے ایل او سی اور سیاچن کے بلند ترین محاذ تک ‘ اب ہر ’فائر ‘ کا ترکی بہ ترکی تشفی جواب ضرور دیا جائے گا قوم کو کل سے زیادہ اور ہوشیار رہنا پڑے گا جنگ اب میدانوں میں لڑی نہیں جارہی بلکہ پاکستان کے ہر ایک گھر میں نجی ٹی وی کے ٹاک شوز میں باطل پرستانہ وطن دشمنی پر مبنی خواہشوں اور آرزؤوں کے رجحانات کو پُرکشش لفا ظیت کے انتشار پسندانہ ملفوف کے خیالات میں پھیلا نا شروع کردیا ہے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ پاکستان دشمنوں کے ملکی گماشتوں کو خرید کر یہ لڑائی ٹی وی پروگراموں میں لڑی جارہی ہے کہیں ہیجان خیز مضمرات مخفی ہیں تو کہیں اِس قدر کھلے اور دیدہ ور ‘ کوئی سمجھ نہیں پارہا کہ سامنے بیٹھے ہوئے یہ تجزیہ کار ہمار ے یا دشمنوں کے خرید ے ہوئے ایجنٹ تو نہیں ؟۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top