Posted date: February 08, 2015In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
امریکی صدر اُوبامہ کے بارے میں ہم نے سنا ہے اُنہیں جب سرکاری فرائض سے فرصت ملتی ہے وہ کچھ نہ کچھ پڑھتے ضرورہیں اُن کا مطالعہ بے حد وسیع ہے جبھی تو وہ دوسری بار امریکا کے صدر بنے دنیا بھر کے گنجلک انتہائی پیچید اُلجھے ہوئے اہم مسائل سے وقت نکالنا اور پھر ’پڑھنا ‘ یہ بہت ہی مضبوط اعصاب رکھنے والے شخص کے لئے یقیناًامتحان ہی ہوسکتا ہے حالیہ چند روز پیشتر اُنہوں نے بھارت کا سرکاری دورہ کیا جہاں ’بدقسمتی ‘ سے دیش کے سربراہ کے عہدے پر ایک ایسا متنازعہ شخص ’نریندر مودیُ براجمان ہے جو صدرا مریکا کی4 ؍ فروری2015 کی اقوا مِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کیئے گئے خطاب کے اصل مندرجات کی ’ضد ‘ ہے جس میں ذرہ بھر نام کی بھی ’مذہبی رواداری ‘ پائی نہیں جاتی پینٹاگان اور وائٹ ہاؤس کی اپنی عالمی وعلاقائی سیاست کی ذمہ داریاں ہیں ایک دوبرس بعد امریکی صداراتی انتخابات ہونے کو ہیں مسٹر اُوبامہ کا وہاں جانا ضروری تھا وہ پاکستان نہیں آسکے اگر آجاتے تو کوئی ’قیامت ‘ نہیں آجاتی مگر ’مودی ‘ کی عقل ٹھکانے ضرور آجاتی امریکا کے پاکستان آنے یا نہ آنے سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا مگر ’شاباش ہے امریکی صدر اُوبامہ کو‘ جنہوں نے بھارت میں بھی بھارتی نوجوانوں کی ایک تقریب سے اپنے انسانیت نواز خطاب سے بھارتی جنونی ہندو توائی گروؤں اور پنڈتوں کو یہ باور کردیا ’اگر خطہ میں ترقی یافتہ قوم بن کر زندہ رہنا ہے تو انسانی رواداری کی راہِ راست پر چل کر وہ زندہ رہ سکتے ہیں اگر اُنہوں نے ’ہندوتوائی جنونیت ‘ کی آگ میں جلنے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو اُنہیں نہ امریکا بچا سکتا ہے نہ دنیا کی کسی اور طاقت کے پاس اُن کے جنونی ثقافتی تعصبات کا کوئی علاج ہے بر سبیلِ تذکرہ اِسی پر اکتفا کرتے ہوئے ہم یہاں پر صدرِ امریکا کے اُس اہم کلیدی خطاب کے مندرجات اپنے قارئین تک پہنچانا چاہئیں گے جس کے لئے خاص طور پر بی بی سی کی اردو سروس کے مشکور ‘ اُنہوں نے مسٹر اُوبامہ کا یہ خطاب اپنی ویب سائٹ پر رکھا ہوا ہے ‘ 4؍ فروری 2015 بدھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برادری انتہا پسندی، شدت پسندی اور دہشت گردی کے عفریت سے نبردآزما ہونے اور تنازعات سے نمٹنے کے لیے بروقت، مؤثر اور مستقل تعاون و انتظام جاری رکھے‘ اْن کا کہنا تھا کہ تشدد پر مبنی انتہا پسندی ’ایک سرطان ہے‘، جس کا مشترکہ کوششوں سے ہی مقابلہ کیا جانا چاہیئے، جو طریقہ َٗ کار بقول اْن کے‘ اقوام متحدہ کے چارٹر کا ایک اہم جزو ہے ‘ صدر اوباما نے مسلمان نوجوانوں سے خصوصی اپیل کی کہ وہ ’تعلیم پر مکمل دھیان دیں بہتر پیشہ ورانہ صلاحیتیں پروان چڑھائیں جن سے دنیا ترقی و خوش حالی سے ہمکنار ہوگی‘ بقول اْن کے‘ بین الاقوامی قوانین و ضابطوں کا مؤثر نفاذ تمام ملکوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے یہ چھوٹے بڑے ملک کا سوال نہیں ہے‘ امریکی صدر نے عراق و شام میں دولت اسلامیہ کی تشدد پر مبنی انتہا پسندی کا ذکر کیا اور واضح کیا کہ مشرق وسطیٰ کے کئی مسلمان ملکوں کے تعاون و اشتراک سے داعش کے تباہ کْن حربوں اور ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا جارہا ہے جس میں اوّلیت اْن سفاک شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کرنے، حربی طور پر اْنہیں کمزور کرنے بالآخر ا نہیں نیست و نابود کرنے پر مرکوز رہے گی، اْنھوں نے تاریخی حوالوں سے اس بات کو واضح کیا کہ دہشت گردی کوئی نیا حربہ نہیں‘ لیکن‘بقول اْن کے ‘ گذشتہ کچھ عرصے سے یہ سرطان مسلمان ملکوں میں بڑی تیزی سے پھیلا ہے صدر اوباما نے کہا کہ موجودہ صدی میں دہشت گردوں کی ایک تباہ کن جرائم پیشہ نسل نے سر ضرور اٹھایا جس نے بقول اْن کے، ’دنیا کے ایک عظیم مذہبِ اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ‘ ’دہشت گردوں کی یہ قسم اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ یہ چھوٹا سا گروہ بھی بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے، ’پھر یہ کہ تشدد پر مبنی یہ انتہا پسند عجیب قسم کے مذموم مقصد پر عمل پیرا ہیں، جس میں اْن کے حامی قابل احترام جب کہ مخالف کافر؟، جن بے گناہوں کو مارنا اِن کے نزدیک عین ثواب ؟ جس کے لیے وہ اپنی ہی برادری میں سے اپنے مخالف کو تباہ و برباد کرنے میں دیر نہیں لگاتے‘اْنھوں نے کہا کہ خدا دہشت گرد نہیں بخش سکتا اور تشدد پر مبنی انتہا پسندی کسی تکلیف کا مداوا نہیں بن سکتی، ایسے شیطانی خیالات کے حامل گروہ یا گروہوں کے ساتھ کسی قسم کی دلیل بازی یا مذاکرات نہیں ہو سکتے‘بقول اْن کے‘یہ قاتل صرف ا ور صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں، اس لیے امریکہ وسیع تر عالمی اتحاد کے ساتھ مل کر ہلاکت خیزی کے اس نیٹ ورک کو نیست و نابود کرنے کا عزم کر چکا ہے امریکا اِسی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے امریکی صدر نے کہا کہ داعش نے عراق و شام میں انسانیت کی تباہی وبربادی کی دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے، جس کے سفاکانہ حربوں سے دنیا بھر کی مذہبی اقلیتیں محفوظ ہیں نہ معصوم بچے یا بے گناہ خواتین اس بربادی سے بچ سکی ہیں، اْنھوں نے کہا کہ داعش اِس قتل عام میں ملوث ہے جس کے شواہد سر قلم کرنے کی وارداتیں اور اجتماعی قبریں ہیں صدر اوباما نے کہا امریکہ کسی ملک کی سرزمین پر قبضہ جمانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، لیکن امریکہ ایسے انسانیت کش نیٹ ورکس کو اب برداشت نہیں کر سکتا جن کا وجود امریکہ کے لئے دنیا یا علاقے کے لیے یقیناًخطرے کا باعث ہو شام کے بارے میں، اْنھوں نے کہا کہ امریکہ حزب مخالف کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرے گا تاکہ داعش جیسی انسانیت کش تنظیم کا مؤثر طور پر مقابلہ کیا جاسکے بقول اْن کے ’اب وقت آگیا ہے کہ اقوام عالم، خصوصی طور پر مسلمان برادریاں‘ قومیں اور ممالک کھل کر مؤثر طریقے سے اور مستقل بنیادوں پر القاعدہ اور داعش کے نظریے کو یکسر مسترد کردے‘ اْنھوں نے کہا کہ عظیم تمدن مذہبوں سے یہ تقاضا ضرور کر تا ہے کہ جدید اور کثیر الثقافتی اور آفاقی عقائد کا احترام کیا جائے ’ یہ نہیں ہوسکتا کہ کہیں بھی، بچوں کو دوسروں سے نفرت کا درس دیا جائے ایسے کسی خود ساختہ عالم دین کو ‘ کسی ہندو گرو یا پنڈت کو یا کسی راہب کو کسی بھی آفاقی مذاہب میں برداشت نہیں کیا جاسکتا، جو یہ کہے کہ کسی بے گناہ کو اس لیے نقصان پہنچایا جائے کہ وہ یہودی، مسیحی یا مسلمان ہے؟‘صدر نے کہا وہ تہذیبوں کے درمیان ثقافقی لڑائی کے غیر انسانی تصور کو درست نہیں سمجھتے‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ کرہ ٗ ارض کی مہذب دنیا ایک نیا عالمی میثاق تشکیل دے جس میں باہمی خونریز لڑائی ‘ قتل وغارت گری اور جنونی متعصبانہ مار کٹائی سے مکمل اجتناب کیا جائے یہ نظریہ انسانی تشدد پر مبنی انتہا پسندی کا نظریہ ہے جو نوجوان نسل کے بے داغ ذہنوں کو پراگندہ کر رہا ہے، اس ضمن میں خود کش بمبار حملے وحشیانہ طرزِ عمل کی بھیانک مثال ہے یہاں تک کہ وہ انٹرنیٹ اور سماجی میڈیا تک کا بھی استعمال کرنے لگے ہیں، پھر غیر ملکوں میں جاکر یہ لوگ جانے پہچانے بغیر ہر کسی کو مارنے پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں بقول اْن کے ‘ضرورت اِس بات کی ہے کہ اْنھیں ایک متبادل پُرامن زندگی بسر کرنے کا نصب العین دیا جائے‘ اُنھوں نے کہا کہ شدت پسندوں کی مالی یا وسائل کی مدد سے پشت پناہی کسی طور بھی جائز قرار نہیں دی جاسکتی بقول اْن کے‘ داعش ہو، یا القاعدہ، یا بوکو حرام‘ یہ سبھی ایک ہی انسانیت کش شیطانی آلودہ نظرئے کی پیداوار ہیں جسے آئینہ دکھانے کی ضرورت آپہنچی ہے جس کی سخت مذمت کی جانے کی ضرورت ہے، اس وحشت زدہ عفریت کا مقابلہ کرنے کی کی ضرورت ہے اُ نھوں نے حالیہ دنوں کے دوران، برطانیہ، سعودی عرب اور جمہوریہ وسط افریقہ کے جید علما، و زعما ا ور آئمہ کی طرف سے دیے جانے والے کئی اسلامی فتوؤں کا ذکر بھی کیا، جن میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی ذرہ برابر گنجائش نہیں ہے، اور جو لوگ یا جو گروہ ایسا غیر متمدن و غیر مہذب رویہ اور انداز اپناتے ہیں دین اسلام اْنھیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے نہ دنیا میں اُن کے لئے کوئی عزت و افتخار ہے اور نہ آخرت میں وہ اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب سے بچ پائیں گے مسٹر اوبامہ نے واضح کردیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بہت جلد ایک قرار داد منظور کرنے والی ہے جس میں تشدد پر مبنی انتہا پسندی کے انسداد کے سلسلے میں رکن ممالک کی ذمہ داری کا اعادہ کیا جائے گا ’یقیناًیہ ایک احسن قدم ہوگا‘ صدر براک اوبامہ نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ دولت اسلامیہ کو ’نہایت ہی کمزور اور صفحہ ِٗ ہستی سے مٹانے اور نیست و نابود کرنے‘ کی عالمی کوششوں کا ساتھ دیا جائے مسٹر اوباما نے کہا کہ سر قلم کرکے، بچوں پر گولیاں چلا کر ‘ لاشوں کو اجتماعی قبروں میں ٹھونس کر اور مذہبی اقلیتوں کو فاقہ کشی پر مجبور کرکے، اس شدت پسند گروہ نے عراق اور شام میں بے گناہ لوگوں میں دہشت بٹھا رکھی ہے‘امریکی صدر نے دنیا، خصوصی طور پر مسلمان ملکوں پر
زور دیا وہ داعش اور القاعدہ کے نظرئے کو ’مؤثر طور پر‘ مسترد کردیں‘ اْنھوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ’ ایبولہ وائرس‘ کے پھیلاؤ پر کنٹرول کے لیے وسیع تر عالمی کوششیں کی جائیں جس کے باعث مغربی افریقہ میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں‘ اس سے قبل اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ انتہاپسند گروہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی برادری کے لیے ایک واضح خطرہ ہے اپنے خطاب میں، صدر اوباما نے کہا امریکہ اپنے مفادات کا دفاع کرنے یا عالمی حقوق انسانی کے اقوام متحدہ کے اعلامیے کے عہد پر عمل درآمد سے کبھی نہیں ہچکچائے گا کیونکہ دنیا کے تمام خطوں میں امن تب ہی آسکتا ہے( عالمی انسان حقوق کا تذکرہ کرتے ہوئے اگر امریکی صدر فلسطین اور مقبوضہ جموں وکشمیر کا ضمناً تذکرہ کردیتے تو دنیا کے محکوموں کی نمائندگی بھی ہوجاتی)، بہر حال پھر بھی اُنہوں نے اپنے دورہ ِٗ صدارت میں ’سچ ‘ کے برابر کچھ عالمی حقائق تسلیم تو کیئے یقیناًزندگی کے ہر اُصول میں اِسی طرح سے بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے‘‘ مسٹر اوبامہ نے اپنے دہلی کے دورے سے واپسی کے بعد انسانیت کی بقاء و احترام کے لئے جو ایک تاریخی پیغام نریندر مودی سمیت جنونی بھارتی لیڈروں کو دینا تھا اُس کے لئے عظیم عالمی لیڈر نے عالمی فورم کاانتخاب کے ایک نئی تاریخ بہرحال رقم کردی ہے۔