پاکستانی مسلم خواتین کے حقوق کے دشمنوں کا عبرتناک انجام
[urdu] سیّد ناصررضا کاظمی
’اسلام دینِ امن‘ کی ہمہ گی
ر انسانی عظمتوں کی آفاقی تعلیمات کا منبع اور مبداء ہے ،جو اِس کا منحرف اور منکر ہوگا اُس کا دائرہ ِٗ اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں‘ایسا شخص اور سب کچھ تو ہوسکتا ہے، مسلمان نہیں کہلایا جاسکتا،اسلام کے لغوی معنی ہی مکمل اطاعت وسپردگی کے ہیں اطاعت وسپردگی ہوتی ہی مکمل ہے، کچھ ادھر کچھ اُدھر رہ کر کوئی بھی شخص اپنے آپ کو نہ مسلمان کہلواسکتا ہے، جب وہ مسلمان ہی نہیں ہوگا تو وہ مومن کیسے بن سکتا ہے، اسلام سرتاپا ’امن وسلامتی ‘ کے ایسے سانچے کو کہہ لیجئے جو اِس سانچے میں ایک ڈھل گیا ،اُس نے اپنے آپ کو اسلام کے سپرد کردیا تو پھر وہ بھی سلامتی اور امن کا چلتا پھرتا پُرتو بن جاتا ہے، بحث کرتے جائیے، ایسی ایک بات سے کئی باتیں نکلتی چلی جا ئیں گی یہاں پر ہمارا مطمعِ نظر یہ ہے کہ گزشتہ چودہ ساڑھے چودہ سوبرس میں دینِ اسلام کے پُرامن ہمہ گیر انسانی مقاصد پر اتنی کاری ضرب کبھی نہیں لگی ہے تاریخِ اسلام اُٹھاکر دیکھ لیں طاقت ور اور زور آورمسلمانوں نے اپنے دینی وایمانی بھائیوں پر اتنا ظلم وستم شائد ہی کبھی کیا ہو جتنا آجکل دنیائےِ اسلام کے ممالک میں کیا جارہا ہے، ایک واقعہ ِٗ کربلا ضرور ملتا ہے،جب طاقت کے نشے میں بدمست ہوکر شام کے حکمرانِ وقت یزید نے اللہ تبار ک وتعالیٰ کی طرف سے بھیجی جانے والی برحق وحیِ الہیہٰ کا کھلا انکار کیا ،جس کے نتیجے میں وقت کے امام حسین اور اُن کے جانثار اور باوفا ساتھی اللہ تعالیٰ کے آخری دین کے آفاقی شعار کو قیامت تک بچانے کے لئے میدان میں آگئے تھے، مگر ’یزید ‘ نہ مانا یوں ’کربلا کے میدان ‘ میں ایمانی تعلیمات کا ایک ایسا روشن ترین باب رقم ہوا جسے آج تک ’عالمِ انسانیت ‘ فراموش نہیں کرسکی، کربلا میں بھی یزید کی گمراہ سپاہ نے نئی ِٗ کریم ﷺ کی پاکیزہ اور باعصمت آل واولاد اور باعفت خواتین کے ساتھ ظلم وستم ‘بہیمانہ بربریت کا جو وحشت ناک غیر انسانی سلوک کیا آج چودہ ساڑھے چودہ سو برس بعد جب ہم کہیں عراق میں ‘ کہیں شام میں ‘ کہیں افغانستان میں بے گناہ مسلم خواتین کو آہ وبکا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمیں کیا ہر درد مند دل رکھنے والے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو بھی یقیناًکربلا کامیدان ضرور یاد آتا ہوگا ’یزید‘ کسی ایک حکمران کانام نہیں، بلکہ یہ نام ایک ایسے درندہ صفت رویے کا روپ اختیار کرچکا ہے جسے آپ اپنے اردگرد یہاں پاکستان میں بھی کئی مقامات پر دیکھ سکتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں، یہ ’یزیدی رویہ ‘ ہی تو ہے جو دولتِ اسلامیہ اور ٹی ٹی پی (پاکستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم) کی صورت میں اپنے شیطانی اعمال کے ساتھ‘ اپنی مذموم و غیر اسلامی اور غیر انسانی سرگرمیاں جاری رکھے ہمیں نظرآتا ہے ، یہ دین کی باتیں ہیں قرآنِ حکیم فرقانِ مجید کی تعلیمات ہیں، عورتوں کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حسنِ سلوک روا رکھنے کی ہمیں سختی سے ہدایت فرمائی ہے، اگر ہم سات آٹھ برس پیچھے مڑ کر دیکھیں جب ملا فضل اللہ گروپ کی آئین شکنی ‘ دین اسلام کی امن پسندی ‘ باہمی اخوت اور بھائی چارے کی تعلیمات سے کھلی ایمانی بغاوت اپنی انتہا
پر تھی سوات اور اِس کے گرد ونواح کے پختون علاقوں میں نہ صرف لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند کردئیے گئے تھے لڑکیوں کے سینکڑوں اسکول بموں سے تباہ کردئیے گئے تھے غیر شادی شدہ بچیاں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ اپنے گھروں میں محفوظ نہیں تھیں، ملا فضل اللہ اور اُن کے سفاک صفت ساتھی گھر گھر بیٹیوں کو تلاش کرتے سونگتے پھرتے تھے، ملافضل اللہ جوان بیٹیوں کے والدین کو بزور طاقت مجبور کرتا اُن کی بیٹیوں اور بہنوں کے نکاح اُن کی مرضی ومنشا کے خلاف وہ اپنے دہشت گرد ساتھیوں سے کرادیا کرتا تھا ، افسوس صدہا افسوس! یہودی اور ہندو میڈیانے ٹی ٹی پی کے اِس ’خودساختہ اسلام اور خودساختہ شریعت کا خوب ڈھندورا پیٹا جسے مغربی میڈیا اور مہمیز دی ،پروردگارِ عالم کے آخری دینِ برحق اسلام کے روشن وتابناک چہرے کو اِن متشدد پاکستانی طالبان نے اپنے تئیں بدنام کرنے مذموم کوشش ضرور کی مگر اِس میں وہ بُری طرح سے ناکام ہوگئے ’ہرفرعون را موسیٰ‘کی تاریخی مثال یہاں مناسب معلوم ہوتی ہے، جب پانی سر سے اونچا ہونا شروع ہوا معصوم اور بے گناہ مسلمان خواتین نے اپنی ’سوالیہ نگاہیں ‘ اللہ کی مدو واعانت کے لئے آسمان کی جانب بلند کیں تو پھر سوات سے لے کر جنوبی وزیرستان تک اور شمالی وزیر ستان سے خیبر تک کے مجبور و مقہور مظلوم پختونوں نے بلاآخر اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ رب العالمین کی مددو نصرت و اعانت کے کیسے اسباب وسبب اچانک رونما ہوئے ’ملا فضل اللہ ‘
ملا ریڈیوکے نام سے اِس پورے علاقے میں خوف ودہشت کی شیطانی علامت بنا ہوا تھا اُس کی نظروں میں کسی ماں ‘ کسی بہن کسی بیٹی کی کوئی و قعت واہمیت نہیں تھی اُس نے اپنے گمراہ کن ریڈیوپیغامات اور گھر گھر پھینکے جانے والے پمفلٹوں کے ذریعے اِس علاقہ میں اپنی سلطنت قائم کرلی تھی پاکستانی آئین اور قانون کی اُس کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں تھی اُس کے جنونی عسکریت پسندوں کے خون سرد ہوچکے تھے اوروہ خاندانی تعلقات اور اسلامی اخوت ویگانگت کے حِسی جذبات سے بالکل ماوراء تھے ملا فضل اللہ اور اُس کے جنونی متشدد گروہ کے ا س طرح کے سفاکانہ قبیح طرز عمل کو کوئی کیسے قرآن و سنت کی تعلیمات کے ہم پلہ قرار دے سکتا ہے؟ پاکستانی مسلمان قوم کا اوّلین یقین یہ ہے کہ طاقت کا تواز ن قیامت تک اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہمیں صرف اُسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے اگر ہمارا صبر واستقامت قائم رہے گا تو ایک کیا ؟کئی قسم کے ملا فضل اللہ گروہ آجائیں وہ بالاآخر شکست سے دوچار ضرور ہوں گے ،دنیا نے دیکھا، اہلِ وطن نے دیکھا، جب ایمان ‘ اتحاد اور تنظیم کے ناقابلِ تسخیر جذبوں سے لیس پاکستانی افواج نے یہ تہیہ کیا کہ بیرونی دشمنوں کی ایماء اور اُن کی شہ پر ملافضل اللہ ٹائپ کے دہشت گرد وں کا خاتمہ پاکستان کی بقاء اور تحفظ کے لئے ضروری ہے تو فوج یقین وعزم کے ہتھیاروں سے لیس میدانِ عمل میں اتر آئی، عسکری قیادت نے اپنے آپ کو’تحفظِ پاکستان اور آئینِ پاکستان کی اتھارٹی کو تسلیم کروانے کے نام پر بڑی ہی سخت، کڑی اور جان لیوا آزمائش کو کسی خاطر میں نہ لاکر اپنی پیشہ ورانہ مہارت‘ اہلیت اور ’استعدادِ کار ‘ پر بھروسہ کیا، جنوبی وزیر ستان سے شمالی وزیرستان تک دور دور اب اِن دہشت گردوں کاکوئی اتہ پتہ نہیں ملتا، ہزاروں دہشت گرد اپنے ظالم گروؤں کے ساتھ واصلِ جہنم ہوچکے کئی مفرور ہیں، آج نہیں تو کل وہ بھی اپنے بدترین انجام کو ضرور پہنچیں گے ہر دور میں جب بھی قوم یا ملک پر کڑا وقت آ یااندرونی حالات اورملکی سلامتی کو خطرہ درپیش ہوا شر پسند عناصر ملکی سلامتی کے درپے ہو ئے ‘وطن عزیز کے طول عرض میں امن و سلامتی ناپید ہو ااور عوام کی عزت نفس کو سرعام مجروح کیا جانے لگا، تو ایسے گھمبیر حالات اللہ تعالیٰ کی ذاتِ والہ صفات پر بھروسہ کرنے والی قوموں میں کوئی نہ کوئی مسیحا ضرور ہمت وجراّت کا پیکر بن کر سامنے آجاتا ہے پاکستانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور اُن کی بہادر سپاہ نے پاکستان کی سرزمین سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سمیت اکھاڑ کر پھینکنے کا جو عزم کیا اُسے وہ بخوبی کامیابی سے نبھا بھی رہے ہیں،پاکستان کے مردوزن اب بالکل مایوس نہ ہوں وحشی صفت طالبان ہوں یا کسی اور نام کے دہشت گرد‘ پاکستان کی سرزمین میں اب اُن کے لئے کہیں کوئی جائے پناہ باقی نہیں رہے گی ۔[/urdu]