Posted date: January 21, 2016In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے دھمکی دی ہے کہ اب بھارت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے یعنی بھارت نے بہت جلد ہی اپنی اصلیت کی طرف دوبارہ پلٹا کھا لیاہے پاریکر نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم کو پٹھان کوٹ ایئر بیس میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا، انہوں نے یہ بھی دھمکی دی کہ ایک سال کے اندر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے چند دنوں میں بہت کچھ کر دیا یعنی دہلی میں پی آئی اے کے دفتر پر حملہ کروا دیاگیااور ساتھ ہی جلال آباد میں پاکستان کے قونصل خانے پر بھی حملہ کرا دیا گیا۔ بھارت بغل میں چھری منہ میں رام رام کرتا رہا اور پٹھان کوٹ حملے کے بعد اس نے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کو شش کی کہ وہ امن کا خواہاں ہے لیکن پاکستان کی طرف سے دہشت گردی امن قائم نہیں کرنے دے رہی ۔اُس نے یہ بھی کہا کہ اُس نے پاکستان کو ثبوت فراہم کر دیے ہیں کہ اُس کے شہری اس حملے میں ملوث تھے اور ان الزامات کی طرف بھی وہ آہستہ آہستہ آیا ۔اس سے پہلے اُس نے پہلے کی طرح ایک دم سے حملے کا الزام پاکستان پر نہیں لگایاتھا تاہم اپنے میڈیا کے ذریعے یہ کام کر دیا تھا۔بہر حال اُس نے پہلے پٹھان کوٹ ایئر بیس میں پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم کو اندر جانے کی اجازت دینے کا اعلان بھی کیا اور یہ بھی کہا کہ بال پاکستان کی کورٹ میں ہے۔ پاکستان کی حکومت اور فوج نے جب مل کر تحقیقات کا عندیہ دیا تو بھارت سرکار نے سوچا کہ اُس کا کھیل اب بگڑنے کے قریب ہے لہٰذا اُس کے وزیر دفاع نے اپنے دل کا حال بیان کر دیا اور اگر کسی حکومت کا وزیر دفاع ایسے بیانات دے تو ظاہر ہے کہ یہ حکومت کا ہی موقف ہے۔دراصل یہ بیان اُس جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ بھی ہے جس میں بھارت مبتلاء ہے کیونکہ اُس کے بہت سارے منصوبے کامیاب نہیں ہو رہے اور یا اب واپس ناکامی کی طرف پلٹ رہے ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی کے کھیل میں بھارت انتہائی اہم کردار ادا کر رہا ہے کبھی یہ مشرق سے حملہ آور ہوتا ہے ، کبھی شمال اور کبھی مغرب سے لیکن اللہ تعالیٰ کے کرم سے پاکستان ان حملوں کو سہہ کر بھی قائم ہے بلکہ بڑی ہمت سے ان سب طاقتوں کا اور سب کچھ کا مقابلہ کر رہا ہے۔بھارت کے وزیر دفاع کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کی سب سے بڑے وجہ بھی یہی ہے کہ اُن کے یہ سارے منصوبے ناکام ہورہے ہیں۔بلوچستان میں بھارت کے بگاڑے ہوئے حالات اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ سلجھ رہے ہیں وہاں کی سیاست قومی دھارے میں لوٹ چکی ہے ۔دہشت گردی کے تھوڑے بہت واقعات اب بھی ہو رہے ہیں جو کہ بیرونی مدد اور ہاتھ کے بغیر ممکن نہیں لیکن اب حالات میں کافی بہتری آچکی ہے جو کہ مثبت انداز سے آگے بڑھ رہی ہے۔ افغان حکومت کو بھی احساس ہو رہا ہے کہ بھارت ان کی ہمدردی میں ان کے ملک میں ترقیاتی کا م نہیں کر رہا بلکہ وہ دوہرا فائدہ حاصل کر رہا ہے ایک تو مالی فائدہ دوسرا اُس طرف سے پاکستان میں مداخلت اور دہشت گرد کاروائیاں۔بھارت کو اب یہ کام پہلے کی نسبت مشکل محسوس ہو رہا ہے کیونکہ اشرف غنی اس کے لیے حامد کرزئی جتنا آسان نہیں۔جنرل راحیل شریف کے افغانستان کے دوروں نے بھی بھارت کی مشکلات میں کافی حد تک اضافہ کیا۔دوسری طرف پاک چین دوستی ہمیشہ بھارت کے لیے تکلیف دہ رہی ہے کیونکہ علاقے کے دو اہم ملک جن سے بھارت کی دشمنی ہے ان کی آپس کی دوستی کو وہ اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے اگر چہ بھارت پاک چین تعلقات کے بارے میں ہمیشہ تشویش میں مبتلاء رہا ہے لیکن پاک چین تجارتی راہداری معاہدے نے اُس کی تکلیف و تشویش میں مزید اضافہ کیا اور نتیجتاََ اژقس نے اپنی تخریبی کاروائیوں میں بھی اضافہ کیا۔بھارت اپنے ہاں ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیتا ہے یہ اُس کی روایت ہے تا ہم اس بار اُس نے اپنے طریقہء واردات میں کچھ تبدیلی کی اور پٹھان کوٹ واقعے کی ذمہ داری بڑی سوچ سمجھ کر پاکستان پر ڈالی ،تحقیقات پر اعتماد کا بھی اظہار کیا، پاکستانی اقدامات کو خوش آئند بھی قرار دیا لیکن پھر اس کے وزیر دفاع نے روایتی بھارتی زبان بولنا شروع کر دی اور ساتھ ہی دھمکیاں بھی دینا شروع کر دیں۔بھارت کی طرف سے ایسی دھمکیاں کوئی انوکھی بات نہیں اس سے پہلے ممبئی دھماکوں کے بعد بھی اس نے اس سے کہیں سخت اور دھمکی آویز رویہ اپنایااور دکھایا تھایہ اُس کی پُرانی عادت ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ پاکستان آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بھارت جتنا بڑا نہ سہی لیکن دفاعی لحاظ سے انتہائی مضبوط ملک ہے اس کے پاس بھارت جتنی فوج اور دفاعی بجٹ اور اسلحے کے ڈھیر نہیں لیکن ایک ایسی مضبوط اور ٹھوس فوج ضرور موجودہے جو اپنے سے کئی گنا بڑی بھارت کی فوج کے لیے کافی ہے۔اگر بھارت حکومت اپنے موجودہ رویے اور دہشت گردی ختم کرنے میں واقعی مخلص ہے تو اسے اپنے وزیر دفاع کو زبان قابو میں رکھنے کی تلقین کرنی چاہیے بلکہ ایسی دھمکی آمیز زبان استعمال کرنے پر سر زنش کرنی چاہیے۔بھارت اپنے بیانات، اپنے افعال اور سرحدوں پر اپنی اشتعال انگیزی سے حالات کو خراب کرنے اورمسلسل خراب رکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے جس پر پاکستان تحمل کا مظاہرہ کر کے صورت حال کو قابو کر لیتا ہے لیکن ایسا ہر بار ممکن بنانا مشکل ہے۔اگر بھارت ذہنی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم کر لے اور اپنی نیت درست کرکے خطے میں امن قائم کرنے میں سنجیدگی اختیار کرے ، اگر وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلے یعنی کشمیر کو حل کر لے تو باقی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ بلیم گیم سے بھی سختی سے اجتناب کرلے تو پاک بھارت تعلقات دو ہمسایوں کے معمول کے تعلقات کی نہج پر آجائیں گے۔ دونوں ممالک میں بھی امن قائم ہو گا اور خطہ بھی دہشت گردی سے پاک ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔