جمہوری انفراسٹریکچر میں ’احتساب ‘ کیوں ممکن نہیں ؟

                                                                      azadi march                                                                                                                    سیّد ناصررضا کاظمی

دستور‘آئین کا ہماری قومی زندگی سے غالباً وہ ہی ایک اہم تعلق بنتا ہے جو مثلاً کسی بڑی عمارت کی ’فاونڈیشن‘ بنیادوں کے ساتھ استوار ہوالہ ماشاء اللہ پاکستان کا آئین جو 1973 کی اسمبلی نے منظور کیا اب تک اِس آئین میں 19 ترامیم کی جاچکی ہیں آجکل پاکستان میں بہت تواتر کے ساتھ مسلسل قومی بحث ومباحثوں میں آئین کی اہمیت وافادیت پر بڑی گرما گرم باتیں عوام کو سننے کو مل رہی ہیں گزشتہ41-42 برسوں میں اگر یہ کہا جائے توبے جا نہ ہوگا کہ پاکستانی عوام کو ہمارے فوجی وسیاسی حکام نے ہر بار اقتدار میں آنے کے بعد 1973 کے آئین کو کبھی معطل کیا اور کبھی اِسی1973 کے آئین کے مطابق انتخابات منعقد کروائے آج تک 1973 کے آئین کا پاکستانی عوام نے تذکرہ ضرور سنا مجال ہے جو کبھی کسی نے پاکستانی آئین میں درج مندرجات عوام کو پڑھ کر کبھی سنائے ہوں آخر یہ ’آئین ‘ ہے کیا ؟ بار بار آئین کا ذکر کیوں زور وشور کے ساتھ کیا جاتا ہے آجکل اسلام آباد کے ’شاہراہِ دستور ‘ پر دومختلف سیاسی جماعتوں نے تقریباً 5 ہفتوں سے حکومت پر شدید قسم کی آئینی لعن طعن کرتے ہوئے مخالفانہ دھرنے دئیے ہوئے ہیں عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کی پارٹی پاکستان عوامی تحریک نے بڑی ہمت استقامت کے ساتھ حکومت کو چیلنج کررکھا ہے صحیح یا غلط اِس بحث میں پڑے بغیر ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان کی عام کلاس کو بالکل نچلے درجے کے عوامی طبقات کو اپنی مدلل منطقی گفتگو کے خالص عوامی انداز میں پہلی بار یہ احساس دلانے میں یقیناًکامیابی حاصل ضرور کرلی ہے کہ آئینِ پاکستان میں کل تقریباً280 آرٹیکلز ہیں اِن 280 آرٹیکلز میں سے 40 کے قریب آرٹیکلز خالص عوامی حقوق سے متعلق ہیں باقی دیگر تمام آرٹیکلز وفاقی اداروں کے انتظامی معاملات کو نمٹانے اور اُنہیں بہ احسن وخوبی چلانے سے متعلق ہیں ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے دھرنے کے شرکاء کے سامنے ایک بار نہیں بار بار آئینِ پاکستان کی کتاب لہراتے ہوئے عوامی فلاح وبہبود کے اُن 40 کے قریب سبھی آرٹیکلز کو زبان زدہ عام کردیا ہے گزشتہ روز روات کے ایک باربر شاپ میں ہم اپنا خط کروانے بیٹھے ہوئے تھے ، وہاں عام سے کپڑے پہنے ہوئے بزرگ شخص نے اپنے ساتھی کو خالص پٹھوہاری زبان میں یہ بتا یا کہ ’اویار تینوں پتہ نیں‘اے گلیاں ‘نالیاں ‘ پل تے پکی سٹرکاں بنانا ایم این اے داکم نہیں ہوندا، اُنہاں دا کم تے قونون بنانا اے‘ باقی سارے عوامی کم کار تے یونین کانسلاں والیاں دے ہوندے نے ‘اَج تک سانوں اَے مالوم ہی نہیں سی ‘ کل راتی ٹی وی تے قادر ی صاحب نوں آئین دی کتاب وچوں پڑھ کے یہ گلاں سنیاں نے میں اپے ای ‘تو جناب اب ہمیں سمجھنا ہونا کہ عوام کاکام صرف ووٹ دینا نہیں ہوتا وقت کے ساتھ ساتھ اُنہیں احساس ہونے لگا ہے ا اب بلا واسطہ \”Semi-direct\” نہیں بلکہ \”Direct Democracy\”براہ راست جمہوریت عوم کی مانگ بنتی جارہی ہے جسے عوامی قانون سازی کا معروف طریقہ کہا جاتا ہے ایسی قانون سازی کا عمل شہری برابر کے شریک ہوں یہی ہے وہ وقت کہ آئینی شعور کو پاکستانی گلی کوچوں تک پھیلانے کی اِس اہم خدمت کاکریڈٹ
طاہر القادری صاحب نے لے لیا ہے کتنے تعجب اور افسوس کا مقام ہے یہ پاکستانی عوام کی اکثریت اپنے آئینی شعور ہی سے نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ آئینی حقوق کی اہمیت وافادیت سے بھی واقف نہیں، کیا یہ آئین صرف عام انتخابات کے انعقاد کے لئے مختص ہوکر رہ گیا ہے اِس آئین میں درج عوامی فلاح وبہبود اور بہتر طرزِ حکمرانی کے وہ بنیادی نکات عام پاکستانی فرد تک کیوں نہیں پہنچائے گئے کوئی یہ سوال کوئی نہیں کرتا کوئی یہ جواب کیوں نہیں دیتا کہ ہمارے سیاسی وجمہوری حکمرانوں سے ‘ بہتر طرزِ حکمرانی کے طور طریقوں میں ‘ وفاقی سطح سے صوبائی سطح تک کی بیوروکریسی کے فرائض کی بجا آوری میں ‘سیاست دانوں سمیت اور دیگر آئینی اداروں میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی اربوں کھربوں روپے کی شرمناک کرپشن کو روکنے کے لئے 1973 کے آئین میں کیا کوئی آرٹیکل نہیں ہے ؟عمران خان اور طاہر القادری صحیح الزامات لگا رہیے ہیں یا وہ بالکل بے سروپا یا جھوٹے ہیں جن اہم مقتدر عہدوں پر فائز شخصیات کو اِن الزامات میں دن رات گھسیٹا جارہا ہے اُن پر کچھ اخلاقی ذمہ داریاں بنتی ہیں یا نہیں ؟ایک ہی قسم کی باتیں بار بار سننے سے انسانی فطرت میں اصولاً کچھ ابہام و سوالات ضرور اُٹھنے لگتے ہیں کان پک گئے یہ سن سن کر ہمارے حکمران ‘ ہمارے
حکمرانوں کے اقرباء اور حاشیہ نشین ‘ ہماری پولیس اور عوامی رابطوں کے روز مرہّ کے سرکاری اعمال میں کرپشن کا معیار آئے روز بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ڈنکے کی چوٹ پر سرعام رشوت ستانی کا بازار گرم ہے آئین اور ملکی قوانین صرف عام آدمی کے لئے رہ گے ’اشرافیہ ‘ یعنی بے پناہ مالدار اور اعلیٰ عہدوں پر فائز طبقہ اور اِن کے اقرباء کو کوئی پوچھنے والا نہیں‘ آئینی اصولوں کا ملک بھر میں کہیں ذرا بھی احترام نہیں کیا جارہا احتساب کے نام سے ایک قومی ادار ے کی عمارت تو یقیناًہمیں موجود دکھائی د یتی ہے مگر اُس احتسابی ادارے کا آئینی و قانونی احتسابی شکنجہ کہیں نظر نہیں آتاایسا کیوں ہے ؟جمہوری حکومتی عہد ہو یا کسی فوجی حکمران کا دور ‘ہر حکومت اور اُس کے چھوٹے بڑے سبھی اہم اور غیر اہم کارندے اپنی اپنی جگہ اپنی اپنی سرکاری اوقات کے عین مطابق خوب مالی من مانیاں اور مالی بدعنوانیوں میں ہمیں شریک نظرآتے ہیں ہر عہد کی سیاسی جماعتِ حکمران کے ترجمان ہر اپنے عہدِ حکومت میں اپنے ’بڑوں ‘ کی مالی بدعنونیوں پر پردہ ڈالنے میں بڑی بڑی غیر ضروری دلیلیں دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ذاتی طور پر تنہائی میں اپنے ضمیروں کی یہ آواز سننے کی کوشش کرتے بھی ہیں یا نہیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے قرآنِ حکیم میں ارشادِ رب العالمین ہے ’ہر گناہ گار کو اپنے گناہ کا بوجھ خود ہی اُٹھانا پڑے گا ‘روزِ حشر وہاں نہ کوئی ترجمان ہوگا نہ کوئی کسی کا مددگار افسوس صدہا افسوس! کسی نے سرکاری خرچ پر عمرے ادا کیئے کسی نے حج‘کوئی اعلیٰ و ادنیٰ سرکاری عہدیدار یا عوامی منتخب نمائندہ علاج کے بہانے امریکا اور یورپ کی سیر کو چلاگیا تو کوئی کہیں اور نکل گیا پارلیمنٹ اور سینٹ میں بیٹھے ہوئے اراکین اور وزراء یا سرکاری افسران جہاز بھر بھر کے اپنے دوست احباب کو بیرونی دوروں پر لے جاتے رہے مہنگے ہوٹلوں میں اُن کا رہائش پذیر ہونا عوام کے ٹیکسوں کی دولت پر خوب جی بھر کے عیاشیاں کرنا کیا یہی رہ گیا ہے پارلیمنٹ کا کام ؟ کی اِسی کو ’عوامی جمہوریت ‘ کہا جائے ؟ملک اور ملک کے عوم کی 98% آبادی غریب سے غریب ہوتی چلی جارہی ہے بیرونی قرضوں کا حجم آئے روز بڑھ رہا ہے روز مرّہ کی استعمال کی عوامی چیزیں مہنگی ہوگئیں ملک کی اکثریت کا جینا دوبھر ہو گیا ’جمہوریت نواز‘ یہ حکومتیں اپنے خلاف ہونے والے عوامی اجتماعات کے سخت کوش مظاہر کو ’جمہوریت و آئین ‘ کے خلاف ’سازشیں ‘ قرار دیکر مطمئن ہوجاتی ہیں مجال ہے اپنے آپ کو اپنی حکومتی مشینری کو کسی کھرے احتسابی عمل سے گزار نے کی اپنے میں اخلاقی ہمت وجراّت پیدا کرلیں بڑی بدقسمتی ہے افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمارے ہاں ایماندار ‘ محنتی ‘ باصلاحیت اور فرض شناس اعلیٰ تعلیم یافتہ کیڈر کی کوئی کمی نہیں مگر میرٹ کی جگہ اقرباء پروری اور رشوت کی بڑھتی ہوئی ستم خیزی نے ہمارے مجموعی انفراسٹریکچرکو بُری طرح سے پراگندہ کردیا جن کا آپس میں اندرونی سیاست کے اعلیٰ عہدوں پر فائز حکام سے کبھی نہ ٹوٹنے والا گٹھ جوڑ ہے اِسے کون صاف کرئے گا کون آئے گا جو ملک میں نیا پاکیزہ حکومتی ڈھانچہ مضبوط بنیادوں سے ازسر نو کھڑا کرئے ؟’پیوستہ رہ شجر سے امیّدِ بہار رکھ‘ 18 کروڑ عوام انشاء اللہ اِسی مصرعہ پر ایک مضبوط ومستحکم پاکستان سے جڑے رہیں گے۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top